8. باب: عثمان رضی اللہ عنہ سے بیعت کا قصہ اور آپ کی خلافت پر صحابہ کا اتفاق کرنا اور اس باب میں امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا بیان۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے حصین نے، ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو زخمی ہونے سے چند دن پہلے مدینہ میں دیکھا کہ وہ حذیفہ بن یمان اور عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہما کے ساتھ کھڑے تھے اور ان سے یہ فرما رہے تھے کہ (عراق کی اراضی کے لیے، جس کا انتظام خلافت کی جانب سے ان کے سپرد کیا گیا تھا) تم لوگوں نے کیا کیا ہے؟ کیا تم لوگوں کو یہ اندیشہ تو نہیں ہے کہ تم نے زمین کا اتنا محصول لگا دیا ہے جس کی گنجائش نہ ہو۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے ان پر خراج کا اتنا ہی بار ڈالا ہے جسے ادا کرنے کی زمین میں طاقت ہے، اس میں کوئی زیادتی نہیں کی گئی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دیکھو پھر سمجھ لو کہ تم نے ایسی جمع تو نہیں لگائی ہے جو زمین کی طاقت سے باہر ہو۔ راوی نے بیان کیا کہ ان دونوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہونے پائے گا، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندہ رکھا تو میں عراق کی بیوہ عورتوں کے لیے اتنا کر دوں گا کہ پھر میرے بعد کسی کی محتاج نہیں رہیں گی۔ راوی عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ ابھی اس گفتگو پر چوتھا دن ہی آیا تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ زخمی کر دیئے گئے۔ عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ جس صبح کو آپ زخمی کئے گئے، میں (فجر کی نماز کے انتظار میں) صف کے اندر کھڑا تھا اور میرے اور ان کے درمیان عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے سوا اور کوئی نہیں تھا عمر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ جب صف سے گزرتے تو فرماتے جاتے کہ صفیں سیدھی کر لو اور جب دیکھتے کہ صفوں میں کوئی خلل نہیں رہ گیا ہے تب آگے (مصلی پر) بڑھتے اور تکبیر کہتے۔ آپ (فجر کی نماز کی) پہلی رکعت میں عموماً سورۃ یوسف یا سورۃ النحل یا اتنی ہی طویل کوئی سورت پڑھتے یہاں تک کہ لوگ جمع ہو جاتے۔ اس دن ابھی آپ نے تکبیر ہی کہی تھی کہ میں نے سنا، آپ فرما رہے ہیں کہ مجھے قتل کر دیا یا کتے نے کاٹ لیا۔ ابولولو نے آپ کو زخمی کر دیا تھا۔ اس کے بعد وہ بدبخت اپنا دو دھاری خنجر لیے دوڑنے لگا اور دائیں اور بائیں جدھر بھی پھرتا تو لوگوں کو زخمی کرتا جاتا۔ اس طرح اس نے تیرہ آدمیوں کو زخمی کر دیا جن میں سات حضرات نے شہادت پائی۔ مسلمانوں میں سے ایک صاحب (حطان نامی) نے یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے اس پر اپنی چادر ڈال دی۔ اس بدبخت کو جب یقین ہو گیا کہ اب پکڑ لیا جائے گا تو اس نے خود اپنا بھی گلا کاٹ لیا، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں آگے بڑھا دیا (عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ) جو لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے قریب تھے انہوں نے بھی وہ صورت حال دیکھی جو میں دیکھ رہا تھا لیکن جو لوگ مسجد کے کنارے پر تھے (پیچھے کی صفوں میں) تو انہیں کچھ معلوم نہیں ہو سکا، البتہ چونکہ عمر رضی اللہ عنہ کی قرآت (نماز میں) انہوں نے نہیں سنی تو سبحان اللہ! سبحان اللہ! کہتے رہے۔ آخر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بہت ہلکی نماز پڑھائی۔ پھر جب لوگ نماز سے پلٹے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابن عباس! دیکھو مجھے کس نے زخمی کیا ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے تھوڑی دیر گھوم پھر کر دیکھا اور آ کر فرمایا کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ کے غلام (ابولولو) نے آپ کو زخمی کیا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا، وہی جو کاریگر ہے؟ جواب دیا کہ جی ہاں، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ اسے برباد کرے میں نے تو اسے اچھی بات کہی تھی (جس کا اس نے یہ بدلا دیا) اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے میری موت کسی ایسے شخص کے ہاتھوں نہیں مقدر کی جو اسلام کا مدعی ہو۔ تم اور تمہارے والد (عباس رضی اللہ عنہ) اس کے بہت ہی خواہشمند تھے کہ عجمی غلام مدینہ میں زیادہ سے زیادہ لائے جائیں۔ یوں بھی ان کے پاس غلام بہت تھے، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا، اگر آپ فرمائیں تو ہم بھی کر گزریں۔ مقصد یہ تھا کہ اگر آپ چاہیں تو ہم (مدینہ میں مقیم عجمی غلاموں کو) قتل کر ڈالیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ انتہائی غلط فکر ہے، خصوصاً جب کہ تمہاری زبان میں وہ گفتگو کرتے ہیں، تمہارے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں اور تمہاری طرح حج کرتے ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر اٹھا کر لایا گیا اور ہم آپ کے ساتھ ساتھ آئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے لوگوں پر کبھی اس سے پہلے اتنی بڑی مصیبت آئی ہی نہیں تھی، بعض تو یہ کہتے تھے کہ کچھ نہیں ہو گا۔ (اچھے ہو جائیں گے) اور بعض کہتے تھے کہ آپ کی زندگی خطرہ میں ہے۔ اس کے بعد کھجور کا پانی لایا گیا۔ اسے آپ نے پیا تو وہ آپ کے پیٹ سے باہر نکل آیا۔ پھر دودھ لایا گیا اسے بھی جوں ہی آپ نے پیا زخم کے راستے وہ بھی باہر نکل آیا۔ اب لوگوں کو یقین ہو گیا کہ آپ کی شہادت یقینی ہے۔ پھر ہم اندر آ گئے اور لوگ آپ کی تعریف بیان کرنے لگے، اتنے میں ایک نوجوان اندر آیا اور کہنے لگایا امیرالمؤمنین! آپ کو خوشخبری ہو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی۔ ابتداء میں اسلام لانے کا شرف حاصل کیا جو آپ کو معلوم ہے۔ پھر آپ خلیفہ بنائے گئے اور آپ نے پورے انصاف سے حکومت کی، پھر شہادت پائی، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو اس پر بھی خوش تھا کہ ان باتوں کی وجہ سے برابر پر میرا معاملہ ختم ہو جاتا، نہ ثواب ہوتا اور نہ عذاب۔ جب وہ نوجوان جانے لگا تو اس کا تہبند (ازار) لٹک رہا تھا، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس لڑکے کو میرے پاس واپس بلا لاؤ (جب وہ آئے تو) آپ نے فرمایا: میرے بھتیجے! یہ اپنا کپڑا اوپر اٹھائے رکھو کہ اس سے تمہارا کپڑا بھی زیادہ دنوں چلے گا اور تمہارے رب سے تقویٰ کا بھی باعث ہے۔ اے عبداللہ بن عمر! دیکھو مجھ پر کتنا قرض ہے؟ جب لوگوں نے آپ پر قرض کا شمار کیا تو تقریباً چھیاسی (86) ہزار نکلا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کہ اگر یہ قرض آل عمر کے مال سے ادا ہو سکے تو انہی کے مال سے اس کو ادا کرنا ورنہ پھر بنی عدی بن کعب سے کہنا، اگر ان کے مال کے بعد بھی ادائیگی نہ ہو سکے تو قریش سے کہنا، ان کے سوا کسی سے امداد نہ طلب کرنا اور میری طرف سے اس قرض کو ادا کر دینا۔ اچھا اب ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں جاؤ اور ان سے عرض کرو کہ عمر نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے۔ امیرالمؤمنین (میرے نام کے ساتھ) نہ کہنا، کیونکہ اب میں مسلمانوں کا امیر نہیں رہا ہوں، تو ان سے عرض کرنا کہ عمر بن خطاب نے آپ سے اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے (عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر) سلام کیا اور اجازت لے کر اندر داخل ہوئے۔ دیکھا کہ آپ بیٹھی رو رہی ہیں۔ پھر کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ کو سلام کہا ہے اور اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اس جگہ کو اپنے لیے منتخب کر رکھا تھا لیکن آج میں انہیں اپنے پر ترجیح دوں گی، پھر جب ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو لوگوں نے بتایا کہ عبداللہ آ گئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اٹھاؤ۔ ایک صاحب نے سہارا دے کر آپ کو اٹھایا۔ آپ نے دریافت کیا کیا خبر لائے؟ کہا کہ جو آپ کی تمنا تھی اے امیرالمؤمنین! عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا الحمدللہ۔ اس سے اہم چیز اب میرے لیے کوئی نہیں رہ گئی تھی۔ لیکن جب میری وفات ہو چکے اور مجھے اٹھا کر (دفن کے لیے) لے چلو تو پھر میرا سلام ان سے کہنا اور عرض کرنا کہ عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔ اگر وہ میرے لیے اجازت دے دیں تب تو وہاں دفن کرنا اور اگر اجازت نہ دیں تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا۔ اس کے بعد ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا آئیں۔ ان کے ساتھ کچھ دوسری خواتین بھی تھیں، جب ہم نے انہیں دیکھا تو ہم اٹھ گئے۔ آپ عمر رضی اللہ عنہ کے قریب آئیں اور وہاں تھوڑی دیر تک آنسو بہاتی رہیں۔ پھر جب مردوں نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو وہ مکان کے اندرونی حصہ میں چلی گئیں اور ہم نے ان کے رونے کی آواز سنی پھر لوگوں نے عرض کیا امیرالمؤمنین! خلافت کے لیے کوئی وصیت کر دیجئیے، فرمایا کہ خلافت کا میں ان حضرات سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں پاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک جن سے راضی اور خوش تھے پھر آپ نے علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف کا نام لیا اور یہ بھی فرمایا کہ عبداللہ بن عمر کو بھی صرف مشورہ کی حد تک شریک رکھنا لیکن خلافت سے انہیں کوئی سروکار نہیں رہے گا۔ جیسے آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی تسکین کے لیے یہ فرمایا ہو۔ پھر اگر خلافت سعد کو مل جائے تو وہ اس کے اہل ہیں اور اگر وہ نہ ہو سکیں تو جو شخص بھی خلیفہ ہو وہ اپنے زمانہ خلافت میں ان کا تعاون حاصل کرتا رہے۔ کیونکہ میں نے ان کو (کوفہ کی گورنری سے) نااہلی یا کسی خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیا ہے اور عمر نے فرمایا: میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کے حقوق پہچانے اور ان کے احترام کو ملحوظ رکھے اور میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ انصار کے ساتھ بہتر معاملہ کرے جو دارالہجرت اور دارالایمان (مدینہ منورہ) میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے سے) مقیم ہیں۔ (خلیفہ کو چاہیے) کہ وہ ان کے نیکوں کو نوازے اور ان کے بروں کو معاف کر دیا کرے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ شہری آبادی کے ساتھ بھی اچھا معاملہ رکھے کہ یہ لوگ اسلام کی مدد، مال جمع کرنے کا ذریعہ اور (اسلام کے) دشمنوں کے لیے ایک مصیبت ہیں اور یہ کہ ان سے وہی وصول کیا جائے جو ان کے پاس فاضل ہو اور ان کی خوشی سے لیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو بدویوں کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ وہ اصل عرب ہیں اور اسلام کی جڑ ہیں اور یہ کہ ان سے ان کا بچا کھچا مال وصول کیا جائے اور انہیں کے محتاجوں میں تقسیم کر دیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول کے عہد کی نگہداشت کی (جو اسلامی حکومت کے تحت غیر مسلموں سے کیا ہے) وصیت کرتا ہوں کہ ان سے کئے گئے عہد کو پورا کیا جائے، ان کی حفاظت کے لیے جنگ کی جائے اور ان کی حیثیت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالا جائے، جب عمر رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی تو ہم وہاں سے ان کو لے کر (عائشہ رضی اللہ عنہا) کے حجرہ کی طرف آئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سلام کیا اور عرض کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی ہے۔ ام المؤمنین نے کہا انہیں یہیں دفن کیا جائے۔ چنانچہ وہ وہیں دفن ہوئے، پھر جب لوگ دفن سے فارغ ہو چکے تو وہ جماعت (جن کے نام عمر رضی اللہ عنہ نے وفات سے پہلے بتائے تھے) جمع ہوئی عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: تمہیں اپنا معاملہ اپنے ہی میں سے تین آدمیوں کے سپرد کر دینا چاہیے اس پر زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنا معاملہ علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا۔ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اپنا معاملہ عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد کرتا ہوں اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنا معاملہ عبدالرحمٰن بن عوف کے سپرد کیا۔ اس کے بعد عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے (عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کو مخاطب کر کے) کہا کہ آپ دونوں حضرات میں سے جو بھی خلافت سے اپنی برات ظاہر کرے ہم اسی کو خلافت دیں گے اور اللہ اس کا نگراں و نگہبان ہو گا اور اسلام کے حقوق کی ذمہ داری اس پر لازم ہو گی۔ ہر شخص کو غور کرنا چاہیے کہ اس کے خیال میں کون افضل ہے، اس پر یہ دونوں حضرات خاموش ہو گئے تو عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ حضرات اس انتخاب کی ذمہ داری مجھ پر ڈالتے ہیں، اللہ کی قسم کہ میں آپ حضرات میں سے اسی کو منتخب کروں گا جو سب میں افضل ہو گا۔ ان دونوں حضرات نے کہا کہ جی ہاں، پھر آپ نے ان دونوں میں سے ایک کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ آپ کی قرابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور ابتداء میں اسلام لانے کا شرف بھی۔ جیسا کہ آپ کو خود ہی معلوم ہے، پس اللہ آپ کا نگران ہے کہ اگر میں آپ کو خلیفہ بنا دوں تو کیا آپ عدل و انصاف سے کام لیں گے اور اگر عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دوں تو کیا آپ ان کے احکام سنیں گے اور ان کی اطاعت کریں گے؟ اس کے بعد دوسرے صاحب کو تنہائی میں لے گئے اور ان سے بھی یہی کہا اور جب ان سے وعدہ لے لیا تو فرمایا: اے عثمان! اپنا ہاتھ بڑھایئے۔ چنانچہ انہوں نے ان سے بیعت کی اور علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان سے بیعت کی، پھر اہل مدینہ آئے اور سب نے بیعت کی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة/حدیث: 3700]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3700
حدیث حاشیہ: حضرت عمر ؓ کی شہادت کا واقعہ بہت ہی دل دوز ہے۔ حضرت مغیرہ ؓ کے عجمی غلام ابولولو نامی مردود نے تین ضرب اس خنجر زہر آلود کے لگائے جس کو اس نے تیار کیا تھا، حضرت عمر نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور فرمایا اس کتے کو پکڑلو اس نے مجھے مارڈالا۔ ہوا یہ تھا کہ مردود بڑا کاریگر تھا، لوہار بھی تھا، نقاش بھی اور بڑھئی بھی۔ مغیرہ نے اس پر سودرہم ماہانہ جزیہ کے مقرر کئے تھے۔ اس نے حضرت عمر ؓ سے شکایت کی کہ میرا جزیہ بہت بھاری ہے، اس میں کچھ تخفیف کی جائے۔ حضرت عمر ؓنے کہا کہ جب تو اتنا ہنر جانتا ہے تو ہر مہینے سودرہم تجھ پر زیادہ نہیں ہیں۔ اس پر اس مردود کو غصہ آیا۔ ایک بار حضرت عمر ؓ کو راستے میں ملا۔ حضرت عمر پوچھا: میں نے سنا ہے کہ تو ہوا کی چکی بناسکتا ہے۔ اس نے کہا میں تمہارے لیے ایک ایسی چکی بناؤں گا جس کا لوگ ہمیشہ ذکر کرتے رہیں گے۔ حضرت عمر ؓ نے یہ سن کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس غلام نے مجھ کو ڈرایاہے۔ چند ہی راتوں کے بعد اس مردود نے یہ کیا۔ مسلم نے معدان سے نکالا کہ حضرت عمر ؓ نے شہادت سے پہلے خطبہ سنایا۔ فرمایا کہ ایک مرغ نے مجھ کو تین چونچیں ماریں خواب میں اور میں سمجھتاہوں میری موت آپہنچی چنانچہ زخمی ہونے کے کئی دنوں بعد آپ کا انتقال ہوگیااور حضرت صہیب ؓ نے ان پر نماز پڑھائی۔ قبر میں کہتے ہیں ابوبکر ؓ کا سر آنحضرت ﷺ کے کاندھے کے برابر ہے اور حضرت عمر ؓ کا سر آپ کے پاؤں کے برابر۔ بہر حال تینوں صاحب حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ میں مدفون ہیں جن کی قبروں کا مقام اب تک ہمہ طور پر محفوظ ہے اور قیامت تک ان شاء اللہ محفوظ رہے گا۔ باقی صحابہ اور اہل بیت اور ازواج مطہرات بقیع میں مدفون ہیں۔ مگر بقیع میں کئی بار طوفان اور بارش اور واقعات کی وجہ سے قبروں کے نشان مٹ گئے۔ اندازے سے بعض لوگوں نے گنبد وغیرہ بنادیئے تھے۔ ان کے مقامات یقینی طور سے محفوظ نہیں ہیں۔ اتنا تو یقین ہے کہ یہ سب بزرگ بقیع مبارک میں ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔ ان فرضی گنبدوں کو سعودی حکومت نے ختم کردیا ہے۔ أیّدہ اللہ بنصرہ العزیز۔ حضرت عمر ؓ نے خلافت کا مسئلہ طے کرنے کے لیے جو جماعت نامزد فرمائی اس میں اپنے صاحبزادے عبداللہ ؓ کو صرف بطور مشاہد حاضر رہنے کے لیے کہا۔ یعنی عبداللہ کے لیے اتنا بھی جو کہا کہ وہ مشورہ وغیرہ میں تمہارے ساتھ شریک رہے گا۔ یہ بھی ان کو تسلی دینے کے لیے۔ وہ اپنے والد کے سخت رنج میں تھے۔ اتنا فرماکر گویا کچھ ان کے آنسو پونچھ دیئے۔ طبری اور ابن سعد وغیرہ نے روایت کیا۔ ایک شخص نے کہا عبداللہ کو خلیفہ کردیجئے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا اللہ تجھ کو تباہ کرے۔ میں حق تعالیٰ کو کیا منہ دکھاؤں گا، سبحان اللہ! پاک نفسی اور انصاف کی حد ہوگئی۔ ایسے لائق اور فاضل بیٹے کا وہ بھی مرتے وقت ذرا بھی خیال نہ کیا اور جب تک زندہ رہے عبداللہ کو اسامہ بن زید سے بھی کم معاش دیتے رہے، صحابہ نے سفارش بھی کی کہ عبداللہ اسامہ سے کم نہیں ہیں جن لڑائیوں میں اسامہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے ہیں عبداللہ بھی شریک ہوئے ہیں۔ فرمایا کہ اسامہ کے با پ کو آنحضرت ﷺ عبداللہ کے باپ سے زیادہ چاہتے تھے تو میں نے آنحضرت ﷺ کی محبت کو اپنی محبت پر مقدم رکھا۔ عبداللہ حضرت عمر ؓ کی ساری خلافت میں کمی معاش اور کثرت اہل وعیال سے پریشان رہے مگر ایک گاؤں کی تحصیلداری یا حکومت ان کو نہ دی۔ آخر پریشان ہوکر صوبہ یمن کے حاکم کے پاس گئے۔ ان سے اپنی تکلیف کا حال بیان کیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ تم جانتے ہو جیسے تمہارے والد سخت آدمی ہیں، میں بیت المال سے تو ایک پیسہ بھی تم کو نہیں دے سکتا۔ البتہ روپیہ مدینہ روانہ کرنا ہے۔ تم ایسا کرو اس کا کپڑا یہاں خرید لو اور مدینہ پہنچ کر مال بیچ کر اصل روپیہ اپنے والد کے پاس داخل کردو اور نفع تم لے لو تو عبداللہ نے اسی کو غنیمت سمجھا۔ جب مدینہ آئے، حضرت عمر ؓ کو خبر پہنچی تو فرمایا اصل اور نفع دونوں بیت المال میں داخل کرو۔ یہ مال تمہارے باپ کا نہ تھا۔ صحابہ نے بہت سفارش کی کہ آخریہ اتنی دور سے آئے ہیں اور پیسہ اپنی حفاظت میں لائے ہیں، ان کو کچھ اجرت ملنی چاہیے اور ہم سب راضی ہیں کہ آدھا نفع دیا جائے۔ اس وقت حضرت عمر ؓ نے کہا کہ خیر تمہاری مرضی میں تو یونہی انصاف سمجھتا ہوں کہ کل نفع بیت المال میں داخل کردیا جائے۔ افسوس صد افسوس جو شیعہ حضرت عمر ؓ کو براکہتے ہیں۔ اگر ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈالیں تو سمجھ لیں کہ حضرت عمر ؓ کی ایک ایک بات ایسی ہے جو ان کی فضیلت اور معدلت اور حق شناسی کی کافی اور روشن دلیل ہے۔ ومن لم یجعل اللہ له نورا فماله من نور (خلاصہ وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3700
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3700
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عمر ؓ جب زخمی ہوئے تو ان سے کہا گیا کہ آپ کسی کو اپنا خلیفہ کیوں منتخب نہیں کردیتے تو انھوں نے فرمایا: اگر میں کسی کو نامزد کرتا ہوں تو اس کی مثال موجود ہےکہ اس شخص نے اپنا خلیفہ نامزد کردیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے۔ یعنی ابو بکر ؓ اور اگر میں اسے لوگوں کی رائے پر چھوڑتا ہوں تو ایک ہستی نے ایسا ہی کیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے یعنی رسول اللہ ﷺ میں نے خلافت کا بوجھ زندگی بھر اٹھایا اب مرنے کے بعد میں اس بار کو نہیں اٹھاؤں گا۔ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 7218) چنانچہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کی اقتداء کرتے ہوئے معاملہ شوری کے سپرد کردیا تاکہ اگر کوئی خلیفہ امور منکرہ کا مرتکب ہوتو ان پر اعتراض نہ ہو 2۔ خلافت کے متعلق دیگر مباحث ہم کتاب الاحکام میں ذکر کریں گے البتہ حدیث کا تمتہ ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔ حضرت مسور بن مخرمہ ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ رات گئے میرے ہاں آئے میرا دروازہ کھٹکھٹا یا حتی کہ میں بیدار ہو گیا۔ انھوں نے فرمایا: میرے خیال کے مطابق آپ سورہے تھے اللہ کی قسم!میں تو ان راتوں میں بہت کم ہی سو سکا ہوں آپ جائیں اور حضرت زبیر ؓ حضرت سعد ؓ کو بلا لائیں میں گیا اور ان دونوں بزرگوں کو بلا لایا پھر انھوں نے ان سے مشورہ کیا،پھر مجھے بلا کر کہا: جاؤ حضرت علی ؓ کو بھی بلاؤں۔ میں گیا انھیں بھی بلالایا۔ آپ نے ان سے سرگوشی کے انداز میں بات کی یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی پھر حضرت علی ؓ ان کے پاس سے اس حال میں کھڑے ہوئے کہ انھیں خلافت ملنے کی توقع تھی اور حضرت عبدالرحمٰن ؓ کے دل میں بھی ان کے متعلق کچھ اس بارے میں ڈر تھا پھر انھوں نے مجھے کہا: جاؤ حضرت عثمان کو بلا لاؤ۔ میں گیا اور انھیں بلا لایا پھر انھوں نے ان سے راز داری کے انداز میں گفتگو کی۔ آخر صبح کے مؤذن نے ان کے درمیان علیحدگی کردی۔ بلآخر جب لوگوں نے صبح کی نماز پڑھ لی تو وہ منبر کے پاس جمع ہوئے انھوں نے وہاں م،وجود انصار و مہاجرین اور قائدین فوج کو بلایا جنھوں نے اس سال حضرت عمر کے ساتھ حج کیا تھا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے خطبہ پڑھا پھر اپنی گفتگو کا ان الفاظ میں آغاز کیا: ”اے علی ؓ! میں نے لوگوں کے خیالات معلوم کیے اور میں نے محسوس کیا کہ وہ حضرت عثمان ؓ کو مقدم سمجھتے ہیں اور ان کے برابر کسی کوخیال نہیں کرتے اس لیے آپ اپنے دل میں کوئی میل پیدا نہ کریں پھر(حضرت عثمان سے) کہا: میں آپ سے اللہ کے دین اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی سنت پر قائم رہنے اور آپ کے پیش رودو خلفاء کے طریق کار کو اختیار کرنے پر بیعت کرتا ہوں“ چنانچہ سب سے پہلے ان سے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے بیعت کی پھر مہاجرین و انصار اور فوج کے سر براہوں الغرض تمام مسلمانوں نے بیعت کی۔ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 7207) 3۔ حدیث میں(أهل الدار) کے الفاظ آئے ہیں جس کے معنی ہیں کہ آپ کے گھر والے آئے اور انھوں نے بیعت کی، البتہ بعض شارحین نے(أهل الدار) سے مراد مدینہ کے لوگ لیے ہیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3700