ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے مسور بن مخرمہ نے بیان کیا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ زخمی کر دیئے گئے تو آپ نے بڑی بے چینی کا اظہار کیا۔ اس موقع پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آپ سے تسلی کے طور پر کہا کہ اے امیرالمؤمنین! آپ اس درجہ گھبرا کیوں رہے ہیں۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا پورا حق ادا کیا اور پھر جب آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے خوش اور راضی تھے، اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صحبت اٹھائی اور ان کی صحبت کا بھی آپ نے پورا حق ادا کیا اور جب جدا ہوئے تو وہ بھی آپ سے راضی اور خوش تھے۔ آخر میں مسلمانوں کی صحبت آپ کو حاصل رہی۔ ان کی صحبت کا بھی آپ نے پورا حق ادا کیا اور اگر آپ ان سے جدا ہوئے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہیں بھی آپ اپنے سے خوش اور راضی ہی چھوڑیں گے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابن عباس! تم نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا و خوشی کا ذکر کیا ہے تو یقیناً یہ صرف اللہ تعالیٰ کا ایک فضل اور احسان ہے جو اس نے مجھ پر کیا ہے۔ اسی طرح جو تم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صحبت اور ان کی خوشی کا ذکر کیا ہے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا مجھ پر فضل و احسان تھا۔ لیکن جو گھبراہٹ اور پریشانی مجھ پر تم طاری دیکھ رہے ہو وہ تمہاری وجہ سے اور تمہارے ساتھیوں کی فکر کی وجہ سے ہے۔ اور اللہ کی قسم! اگر میرے پاس زمین بھر سونا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سامنا کرنے سے پہلے اس کا فدیہ دے کر اس سے نجات کی کوشش کرتا۔ حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پھر آخر تک یہی حدیث بیان کی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة/حدیث: 3692]
صحبت رسول الله فأحسنت صحبته ثم فارقته وهو عنك راض ثم صحبت أبا بكر فأحسنت صحبته ثم فارقته وهو عنك راض ثم صحبت صحبتهم فأحسنت صحبتهم ولئن فارقتهم لتفارقنهم وهم عنك راضون قال أما ما ذكرت من صحبة رسول الله ورضاه فإنما ذاك
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3692
حدیث حاشیہ: ابن ابی ملیکہ کے قول کو اسماعیلی نے وصل کیا، اس سند کے بیان کرنے سے یہ غرض ہے کہ ابن ابی ملیکہ نے اپنے اورا بن عباس ؓ کے درمیان کبھی مسور کا ذکر کیا ہے جیسے اگلی روایت میں ہے کبھی نہیں کیا جیسے اس روایت میں ہے، شاید یہ لوگوں کی فکر ہے دوسرے اپنی نجات کی فکر، سبحان اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایمان۔ اتنی نیکیاں ہونے پر اور آنحضرت ﷺ کی قطعی بشارت رکھنے پر کہ تم بہشتی ہو خدا کا ڈر ان کے دل میں اس قدر تھا۔ کیونکہ خداوند کریم کی ذات بے پروا اور مستغنی ہے۔ جب حضرت عمر ؓ کے سے عادل اور منصف اور حق پرست اور متبع شرع اور صحابی اور خلیفۃ الرسول کو خدا کا اتنا ڈر ہوتو وائے بر حال ہمارے کہ سر سے پیر تک گناہوں میں گرفتارہیں توہم کو کتنا ڈرہونا چاہیے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3692
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3692
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں حضرت عمر ؓ کی عظیم منقبت کا بیان ہے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ حضرت ا بوبکر ؓ اور دیگرصحابہ کرام ؓ کی صحبت اخلاص سے اختیار کی اور وہ سب آپ سے راضی خوشی تھے۔ آپ نے آخر میں جو ابن عباس ؓ سے فرمایا وہ اس لیے کہ شاید ان سے رعیت کے حقوق میں کوئی کوتاہی ہوگئی ہو کہ بلکہ ان کا یہ کلام محض اظہار تواضع اور انکسار پر مبنی ہے۔ 2۔ حضرت عمر ؓ کی بے قراری کے دو اسباب تھے: ایک لوگوں کی فکر،دوسرے اپنی نجات کی فکر۔ 3۔ حضرت عمر ؓ جیسا عادل،منصف مزاج حق،حق پرست،متبع سنت اور خلیفہ راشد اس قدر اللہ کا خوف رکھتا ہے تو ہمارے دل پر تو بہت افسوس کرنا چاہیے کہ ہم سر سے پاؤں تک گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں،پھر بھی اللہ سے نہیں ڈرتے۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3692