ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہیں۔ زکریا بن زائدہ نے اپنی روایت میں سعد سے یہ بڑھایا ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوا کرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے تو وہ عمر ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پڑھا «من نبي ولا محدث» ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة/حدیث: 3689]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3689
حدیث حاشیہ: محدث وہ جس پر خدا کی طرف سے الہام ہو اور حق اس کی زبان پر جاری ہوجائے یا فرشتے اس سے بات کریں یا وہ جس کی رائے بالکل صحیح ثابت ہو، محدث وہ بھی ہوسکتا ہے جو صاحب کشف ہو جیسے حضرت عیسیٰ ؑ کی امت میں حضرت یوحنا حواری گزرے ہیں جن کے مکاشفات مشہور ہیں، یقینا حضرت عمر ؓ بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں۔ روایت کے آخر میں مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سورہ حج کی آیت ہذا کو یوں پڑتھے تھے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﴾
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3689
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3689
حدیث حاشیہ: 1۔ محدث وہ ہوتا ہے جس پر اللہ کی طرف سے الہام ہوا اور حق اس کی زبان پر جاری ہوجائے یا جس سے فرشتے ہم کلام ہوں یا وہ جس کی رائے بالکل صحیح ثابت ہو۔ حضرت عمر ؓ بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں۔ ان کی تخصیص اس وجہ سے ہے کہ ان کے موافقات بہت ہیں جو قرآن مجید کے عین مطابق ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی و فات کے بعد بھی ان کی درست باتوں کی کمی نہیں ہے۔ اس امر کی وضاحت ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان پر حق رکھ دیاہے۔ “(سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 2982) 2۔ حدیث کے آخر میں حضر ت ابن عباس ؓ کی ایک قراءت نقل ہوئی ہے۔ پوری آیت اس طرح ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﴾”ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول یا نبی بھیجا۔ ۔ ۔ “(الحج: 52: 22) وہ اس آیت میں نبی کے بعد محدث کا لفظ بھی پڑھتے تھے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3689
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3469
3469. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”تم سے پہلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے تو وہ یقیناً عمر بن خطاب ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3469]
حدیث حاشیہ: لفظ محدث دال کےفتحہ کے ساتھ ہے۔ اللہ کی طرف سےاس کے ولی کے د ل میں ایک بات ڈال دی جاتی ہے۔ حضر ت عمر کو یہ درجہ کامل طورپرحاصل تھا۔ کئی باتوں میں ان ہی کی رائے کی مطابق وحی نازل ہوئی۔ اس لیے آپ کومحدث کہا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3469
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3469
3469. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”تم سے پہلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے تو وہ یقیناً عمر بن خطاب ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3469]
حدیث حاشیہ: 1۔ لفظ محدث دال کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ شارحین نے اس کے مختلف معانی بیان کیے ہیں۔ (ا) جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی اچھی چیز ڈال دی جائے گویا وہ جو گمان کرتا ہے درست ہوتا ہے اور اس کے دل میں کوئی بات آتی ہے تو نفس الامر کے مطابق ہوتی ہے۔ (ب) جس کی زبان پر حق جاری ہو جائے۔ (ج) جو اپنی فراست سے کسی بات کی تہ تک پہنچ جائے۔ یہ تمام معانی مدعا اور مقصد کے اعتبار سے قریب قریب ہیں۔ حضرت عمر ؓ کو ان تمام باتوں میں کامل درجہ حاصل تھا۔ کئی باتوں میں ان کی رائے کے مطابق اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی۔ 2۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ کی امت تمام امتوں سے افضل ہے۔ جب دوسری امتوں میں محدث ہوتے تھے تو آپ کی امت میں بطریق اولیٰ ہونے چاہئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے توقع کے طور پرفرمایا گویا اپ ابھی اس پر مطلع نہیں ہوئے تھے چنانچہ آپ کی توقع کے مطابق ایسا ہی ہوا اور حضرت عمر ؓ اس معیار اور توقع پر پورے اترے۔ (فتح الباري: 632/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3469