ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم سے عمر بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کو (شہادت کے بعد) ان کی چارپائی پر رکھا گیا تو تمام لوگوں نے نعش مبارک کو گھیر لیا اور ان کے لیے (اللہ سے) دعا اور مغفرت طلب کرنے لگے، نعش ابھی اٹھائی نہیں گئی تھی، میں بھی وہیں موجود تھا۔ اسی حالت میں اچانک ایک صاحب نے میرا شانہ پکڑ لیا، میں نے دیکھا تو وہ علی رضی اللہ عنہ تھے، پھر انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعا رحمت کی اور (ان کی نعش کو مخاطب کر کے) کہا: آپ نے اپنے بعد کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑا کہ جسے دیکھ کر مجھے یہ تمنا ہوتی کہ اس کے عمل جیسا عمل کرتے ہوئے میں اللہ سے جا ملوں اور اللہ کی قسم! مجھے تو (پہلے سے) یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا۔ میرا یہ یقین اس وجہ سے تھا کہ میں نے اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے تھے کہ ”میں، ابوبکر اور عمر گئے۔ میں، ابوبکر اور عمر داخل ہوئے۔ میں، ابوبکر اور عمر باہر آئے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة/حدیث: 3685]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3685
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے بھی حضرت عمر ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ حضرت علی ؓ کی گواہی ہے کہ کہ اس وقت حضرت عمر کا عمل وکردار تمام لوگوں سے افضل تھا اور آپ فرماتے ہیں: میں ان جیسے اعمال لے کر اللہ کے ہاں حاضرہونا پسند کرتا ہوں۔ پھر تمام حاضرین اس وقت حضرت عمر ؓ کے لیے دعائے مغفرت کررہے تھے۔ حضرت علی کا یہ بھی یقین تھا کہ حضرت ابوبکروعمر ؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حجرہ شریف میں یاجنت میں اکھٹے ہوں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3685
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث98
´صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔` ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کو (وفات کے بعد) ان کی چارپائی پہ لٹایا گیا تو لوگوں نے انہیں گھیر لیا، اور دعا کرنے لگے، یا کہا: تعریف کرنے لگے، اور جنازہ اٹھائے جانے سے پہلے دعا کرنے لگے، میں بھی انہیں میں تھا، تو مجھے صرف اس شخص نے خوف زدہ کیا جو لوگوں کو دھکا دے کر میرے پاس آیا، اور میرا کندھا پکڑ لیا، میں متوجہ ہوا تو دیکھا کہ وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے کہا: اللہ عمر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے، پھر بولے: میں نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 98]
اردو حاشہ: (1) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بہت مقام تھا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر معاملے میں ان دونوں حضرات (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔
(2) حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت شیخین رضی اللہ عنہما کو اپنے سے افضل سمجھتے تھے، اس لیے تمنا کرتے تھے کہ کاش ان جیسے اعمال کی توفیق ملے۔
(3) نیکی کے کاموں میں اپنے سے افضل شخصیت کے اتباع کی کوشش کرنا مستحسن عمل ہے، البتہ دنیا کے مال و دولت میں یا برے کاموں میں اپنے سے آگے بڑھے ہوئے شخص پر رشک کرنا درست نہیں۔
(4) رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کے شیخین کو اکثر ساتھ رکھنے اور ان کا تذکرہ کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا تمام صحابہ سے بڑھ کر مرتبہ و مقام تھا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 98
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3677
3677. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں کچھ لوگوں کے ساتھ کھڑا تھااور ہم اللہ تعالیٰ سے حضرت عمر ؓ کے لیے دعائے مغفرت کر رہے تھے جبکہ ان کا جنازہ چار پائی پر رکھا جا چکا تھا۔ اتنے میں ایک شخص نے میرے پیچھے سے آکر اپنی کہنی میرے کندھے پر رکھ دی اور کہنے لگا: اللہ تم پر رحم کرے!میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمھیں تمھارے ساتھیوں کے ہمراہ رکھے گا کیونکہ میں اکثر رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کرتا تھا: ”فلاں جگہ پر میں تھا اور ابوبکر وعمر ؓ ساتھ تھے۔ میں نے اور ابو بکرو عمر ؓ نے یہ کام کیا۔ میں اور ابو بکر ؓ و عمر ؓ روانہ ہوئے۔“مجھے اس لیے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھیں ان کے ساتھ رکھے گا۔ پھر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ (دعائیہ) کلمات کہنے والے حضرت علی بن ابی طالب ؓ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3677]
حدیث حاشیہ: سبحان اللہ یہ چاروں خلیفہ ایک دل اور ایک جان تھے اور ایک دوسرے کے خیر خواہ اور ثنا خواں تھے اور جس نے یہ گمان کیا کہ یہ آپس میں ایک دوسرے کے مخالف اور بد خواہ تھے وہ مردود خود بدباطن اور منافق ہے۔ المرء یقیس علی نفسه کا مصداق ہے، سچ ہے: چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک کجا عیسیٰ کجا دجال ناپاک حافظ نے کہا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سل کا شکار ہوئے، واقدی نے کہا کہ انہوں نے سردی میں غسل کیا تھا، پندرہ دن تک بخار ہوا۔ بعض نے کہا کہ یہودیوں نے ان کو زہر دے دیا تھا۔ 13ھ بماہ جمادی الاخری انہوں نے انتقال فرمایا، ان کی خلافت دوبرس تین ماہ اور چند دن رہی۔ آنحضرت ﷺ کی طرح ان کی عمر بھی انتقال کے وقت تریسٹھ 63 سال کی تھی۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ وحشرنااللہ في خدامه۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3677
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3677
3677. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں کچھ لوگوں کے ساتھ کھڑا تھااور ہم اللہ تعالیٰ سے حضرت عمر ؓ کے لیے دعائے مغفرت کر رہے تھے جبکہ ان کا جنازہ چار پائی پر رکھا جا چکا تھا۔ اتنے میں ایک شخص نے میرے پیچھے سے آکر اپنی کہنی میرے کندھے پر رکھ دی اور کہنے لگا: اللہ تم پر رحم کرے!میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمھیں تمھارے ساتھیوں کے ہمراہ رکھے گا کیونکہ میں اکثر رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کرتا تھا: ”فلاں جگہ پر میں تھا اور ابوبکر وعمر ؓ ساتھ تھے۔ میں نے اور ابو بکرو عمر ؓ نے یہ کام کیا۔ میں اور ابو بکر ؓ و عمر ؓ روانہ ہوئے۔“مجھے اس لیے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھیں ان کے ساتھ رکھے گا۔ پھر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ (دعائیہ) کلمات کہنے والے حضرت علی بن ابی طالب ؓ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3677]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس معیت سے مراد دفن کی معیت ہے یا دخول جنت ہے جو موت کے بعد ظہور پذیر ہوگا اور صاحبین سے مراد رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکرصدیق ؓ ہیں۔ 2۔ اس حدیث میں حضرت ابوبکر کی فضیلت ومنقبت کا بیان ہے کیونکہ آپ ہربات اور ہر کام میں حضرت عمر ؓ سے مقدم تھا جیسا کہ اس حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے۔ 3۔ حضرت علی ؓ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ چاروں خلفاء یک دل اور یک جان تھے،نیز وہ ایک دوسرے کے خیر خواہ اور دعاگوتھے۔ جن لوگوں نے یہ خیال کیا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے مخالف اور بدخواہ تھے وہ مرد ودخودبدباطن اور خبیث ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3677