ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن سلیمان بن حنظلہ بن غسیل نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ مرض الوفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے، آپ ایک چکنے کپڑے سے سر مبارک پر پٹی باندھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں منبر پر تشریف فرما ہوئے پھر جیسے ہونی چاہیے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا: امابعد: (آنے والے دور میں) دوسرے لوگوں کی تعداد بہت بڑھ جائے گی لیکن انصار کم ہوتے جائیں گے اور ایک زمانہ آئے گا کہ دوسروں کے مقابلے میں ان کی تعداد اتنی کم ہو جائے گی جیسے کھانے میں نمک ہوتا ہے۔ پس اگر تم میں سے کوئی شخص کہیں کا حاکم بنے اور اپنی حکومت کی وجہ سے وہ کسی کو نقصان اور نفع بھی پہنچا سکتا ہو تو اسے چاہیے کہ انصار کے نیکوں (کی نیکیوں) کو قبول کرے اور جو برے ہوں ان سے درگزر کر دیا کرے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری مجلس وعظ تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3628]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3628
حدیث حاشیہ: آپ کو معلوم تھا کہ انصار کو خلافت نہیں ملے گی اس لیے ان کے حق میں نیک سلوک کرنے کی وصیت فرمائی۔ باب سے اس حدیث کی مطابقت ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3628
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3628
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں غیب کی خبر ہے کہ لوگ بہت ہوں گے لیکن انصار میں بد ستور کمی آتی جائے گی کیونکہ انصار وہ ہیں جنھوں نے نبی ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو ٹھکانا دیا۔ تنگی اور ترشی میں دین اسلام کی آبیاری کی۔ ایسا وقت ا ب نہیں آئے گا۔ اس بنا پر غیر انصار کی کثرت اور ان کی قلت ہوتی گئی چنانچہ اوس خزرج کے قبائل سے بہت کم نسل آگے چلی ویسے تو بہت سے لوگ انصار ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن محض ادعائی کثرت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اسے حقیقی معنی پر ہی محمول کرنا چاہیے کیونکہ مہاجرین کی اولادتو شہروں میں پھیل گئی اور وہ سلطنتوں اور حکومت کے مالک بھی بنے لیکن انصار کو یہ کثرت نصیب نہ ہوئی۔ 2۔ اس میں یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ انصار کو خلافت نہیں ملے گی اس لیے ان کے حق میں حسن سلوک کرنے کی وصیت فرمائی۔ بہر حال رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی پوری ہوئی انصار کھانے میں نمک کی طرح بہت کم مقدار میں ہیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3628
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 927
927. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ منبر پر تشریف فر ہوئے اور یہ آپ کی آخری نشست تھی جس میں آپ شریک ہوئے۔ آپ اپنے شانوں پر بڑی چادر ڈالے ہوئے سر پر چکنی پٹی باندھے ہوئے تھے۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ”لوگو! میرے قریب ہو جاؤ۔“چنانچہ لوگ آپ کے قریب جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا: ”أما بعد! دیگر لوگ تو بڑھتے جائیں گے مگر قبلہ انصار کم ہوتا جائے گا، لہذا امت محمد ﷺ میں سے جو شخص کسی بھی شکل میں حکومت کرے جس کی وجہ سے دوسروں کو نفع یا نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ انصار کے نیکوکاروں کی نیکی قبول کرے اور خطا کاروں کی لغزشوں سے درگزر کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:927]
حدیث حاشیہ: یہ آپ کا مسجد نبوی میں آخری خطبہ تھا۔ آپ کی اس پیشین گوئی کے مطابق أنصار اب دنیا میں کمی میں ہی ملتے ہیں۔ دوسرے شیوخ عرب کی نسلیں تمام عالم اسلامی میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس شان کریمی پر قربان جائیے۔ اس احسان کے بدلے میں کہ انصار نے آپ کی اور اسلام کی کسمپرسی اور مصیبت کے وقت مدد کی تھی، آپ ﷺ اپنی تمام امت کو اس کی تلقین فرمارہے ہیں کہ انصار کو اپنا محسن سمجھو۔ ان میں جو اچھے ہوں ان کے ساتھ حسن معاملت بڑھ چڑھ کر کرو اور بروں سے در گزر کرو کہ ان کے آباء نے اسلام کی بڑی کسمپرسی کے عالم میں مدد کی تھی۔ اس باب میں جتنی حدیثیں آئی ہیں یہاں ان کا ذکر صرف اسی وجہ سے ہوا ہے کہ کسی خطبہ وغیرہ کے موقع پر أما بعد کا اس میں ذکر ہے۔ قسطلانی ؒ نے کہا کہ حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انصارپر سے حدود شرعیہ اٹھا دی جائیں حدود توآنحضرت ﷺ نے ہر امیر غریب سب پر قائم کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ یہاں انصار کی خفیف غلطیاں مراد ہیں کہ ان سے در گزر کیاجائے۔ حضرت امام الائمہ امام بخاری ؒ نے اس باب کے تحت یہ مختلف احادیث روایت فرمائی ہیں۔ ان سب میں ترجمہ باب لفظ أما بعد سے نکالا ہے۔ آنحضرت ﷺ اپنے ہر خطبہ میں اللہ کی حمد وثنا کے بعد لفظ أما بعد کا استعمال فرمایا کرتے تھے۔ گزشتہ سے پیوستہ حدیث میں عشاء کے بعد آپ ﷺ کے ایک خطاب عام کا ذکر ہے جس میں آپ نے لفظ أمابعد استعمال فرمایا۔ آپ نے ابن لبتیہ کو زکوۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا جب وہ اموال زکوۃ لے کر واپس ہوئے تو بعض چیزوں کے بارے میں وہ کہنے لگے کہ یہ مجھ کو بطور تحائف ملی ہیں اس وقت آپ نے عشاء کے بعد یہ وعظ فرمایا اور اس پر سخت اظہار ناراضگی فرمایا کہ کوئی شخص سر کاری طورپرتحصیل زکوۃ کے لیے جائے تو اس کا کیا حق ہے کہ وہ اس سفر میں اپنی ذات کے لیے تحائف قبول کرے حالانکہ اس کو جو بھی ملے گا وہ سب اسلامی بیت المال کا حق ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری ؒ نے ایمان ونذور میں پورے طور پر نقل فرمایا ہے۔ گزشتہ حدیث میں آنحضرت ﷺ کے ایک آخری اور بالکل آخری خطاب عام کا تذکرہ ہے جو آپ نے مرض الموت کی حالت میں پیش فرمایا اور جس میں آپ نے حمد وثنا کے بعد لفظ أمابعد استعمال فرمایا۔ پھر انصار کے بارے میں وصیت فرمائی کہ مستقبل میں مسلمان ذی اقتدار لوگوں کا فرض ہوگا کہ وہ انصار کے حقوق کا خاص خیال رکھیں۔ ان میں اچھے لوگوں کو نگاہ احترام سے دیکھیں اور برے لوگوں سے درگزر کریں۔ فی الواقع انصار قیامت تک کے لیے امت مسلمہ میں اپنی خاص تاریخ کے مالک ہیں جس کو اسلام کا سنہری دور کہا جا سکتا ہے۔ یہ انصار ہی کی تاریخ ہے پس انصار کی عزت واحترام ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 927
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:927
927. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ منبر پر تشریف فر ہوئے اور یہ آپ کی آخری نشست تھی جس میں آپ شریک ہوئے۔ آپ اپنے شانوں پر بڑی چادر ڈالے ہوئے سر پر چکنی پٹی باندھے ہوئے تھے۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ”لوگو! میرے قریب ہو جاؤ۔“چنانچہ لوگ آپ کے قریب جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا: ”أما بعد! دیگر لوگ تو بڑھتے جائیں گے مگر قبلہ انصار کم ہوتا جائے گا، لہذا امت محمد ﷺ میں سے جو شخص کسی بھی شکل میں حکومت کرے جس کی وجہ سے دوسروں کو نفع یا نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ انصار کے نیکوکاروں کی نیکی قبول کرے اور خطا کاروں کی لغزشوں سے درگزر کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:927]
حدیث حاشیہ: (1) اس میں کوئی شک نہیں کہ انصار مدینہ نے دینی خدمات کے حوالے سے تاریخ اسلام میں ایک سنہری باب رقم کیا ہے۔ وہ امت مسلمہ کے بہت بڑے محسن ہیں، اس لیے ان کی عزت و احترام ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”انصار کی تعداد دن بدن کم ہوتی جائے گی حتی کہ کھانے میں نمک کے برابر رہ جائے گی۔ “(حدیث: 3628)(2) اس حدیث مین "أما بعد" کا استعمال ہوا تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے ذکر فرمایا ہے۔ اس کی مکمل تفصیل مناقب أنصار میں بیان ہو گی۔ (3) حافظ ابن حجر ؒ نے مذکورہ احادیث کے علاوہ بھی چند ایک احادیث کا ذکر کیا ہے جن میں اما بعد کا لفظ استعمال ہوا ہے اور بتایا ہے کہ حافظ عبدالقادر رہاوی ؒ نے ان احادیث کی تخریج کی ہے جن میں لفظ أما بعد استعمال ہوا ہے۔ تقریبا 32 صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسی احادیث مروی ہیں۔ ان میں ایک حدیث حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی خطبہ ارشاد فرماتے تو اس میں "أما بعد" کہتے۔ اس کے راوی ثقہ ہیں۔ اس حدیث کے الفاظ کا تقاضا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس عمل پر ہمیشگی فرماتے تھے۔ (فتح الباري: 521/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 927