ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے عمرو بن ابی عمرو نے، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں (آدم علیہ السلام سے لے کر) برابر آدمیوں کے بہتر قرنوں میں ہوتا آیا ہوں (یعنی شریف اور پاکیزہ نسلوں میں) یہاں تک کہ وہ قرن آیا جس میں میں پیدا ہوا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3557]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3557
حدیث حاشیہ: مطلب یہ ہے کہ آدم ؑ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کے جتنے بھی سلسلے ہیں وہ سب آدم ؑ کی اولاد میں سے بہترین خاندان گزرے ہیں۔ آپ کے اجداد میں حضرت ابراہیم ؑہیں۔ پھر حضرت اسماعیل ؑ ہیں، جو ابوالعرب ہیں، اس کے بعد عربوں کے جتنے سلسلے ہیں، ان سب میں آپ کا خاندان سب سے زیادہ شریف اور رفیع تھا۔ آپ کا تعلق اسماعیل ؑ کی اولاد کی شاخ بنی کنانہ سے، پھر قریش سے، پھر بنی ہاشم سے ہے۔ قرن کی مدت چالیس سال سے ایک سو بیس سال تک بتلائی گئی ہے کہ یہ ایک قرن ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3557
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3557
حدیث حاشیہ: 1۔ قرن،لوگوں کے طبقے(گروہ) کو کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ میں بہترین طبقے میں سے ہوں،یعنی میرا باپ اپنے زمانے کےبہتر طبقہ سے،میرا دادا اپنے زمانے کے بہترین طبقے سے حتی کہ یہ سلسلہ حضرت آدم ؑ تک جاپہنچا۔ دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےنسب مبارک کے جتنے بھی سلسلے ہیں وہ سب حضرت آدم ؑ کی اولاد میں سے بہترین خاندان گزرے ہیں۔ آپ کے اجداد میں سے حضرت ابراہیم ؑ پھر حضرت اسماعیل ؑ جو ابوالعرب ہیں،اس کے بعد عربوں کے جتنے سلسلے ہیں ان سب میں آپ کا خاندان سب سے زیادہ صاحب شرافت اور بلند مرتبہ تھا،چنانچہ آپ کاتعلق حضرت اسماعیل ؑ کی شاخ بنو کنانہ سے،پھرقریش سے،پھر بنو ہاشم میں منتقل ہوا۔ یہ سب خاندان اچھی شہرت کے حامل تھے۔ 2۔ اس حدیث کا یہ مفہوم بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کی بعثت خیر القرون میں ہوئی جو ابتدا اور انتہا کے اعتبار سے افضل ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3557