الْكَهْفُ الْفَتْحُ فِي الْجَبَلِ وَالرَّقِيمُ الْكِتَابُ مَرْقُومٌ مَكْتُوبٌ مِنَ الرَّقْمِ وَرَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ سورة الكهف آية 14 أَلْهَمْنَاهُمْ صَبْرًا شَطَطًا سورة الكهف آية 14 إِفْرَاطًا الْوَصِيدُ الْفِنَاءُ وَجَمْعُهُ وَصَائِدُ وَوُصُدٌ وَيُقَالُ الْوَصِيدُ الْبَابُ مُؤْصَدَةٌ سورة البلد آية 20مُطْبَقَةٌ آصَدَ الْبَابَ وَأَوْصَدَ بَعَثْنَاهُمْ سورة الكهف آية 19 أَحْيَيْنَاهُمْ أَزْكَى سورة الكهف آية 19 أَكْثَرُ رَيْعًا فَضَرَبَ اللَّهُ عَلَى آذَانِهِمْ فَنَامُوا رَجْمًا بِالْغَيْبِ سورة الكهف آية 22 لَمْ يَسْتَبِنْ وَقَالَ مُجَاهِدٌ تَقْرِضُهُمْ سورة الكهف آية 17 تَتْرُكُهُمْ.
«كهف» پہاڑ میں جو درہ ہو۔ «رقيم» کے معنی لکھی ہوئی کتاب۔ «مرقوم» کے معنی بھی لکھی ہوئی۔ «ربطنا على قلوبهم» ہم نے ان کے دلوں میں صبر ڈالا۔ «شططا» ظلم اور زیادتی۔ «وصيد» کے معنی لگن اور صحن، اس کی جمع «وصائد» اور «وصد» آتی ہے۔ «وصيد» دروازے کو بھی کہتے ہیں۔ (دہلیز) کو «مؤصدة» جو سورۃ ہمزہ میں ہے یعنی بند دروازہ لگی ہوئی عرب لوگ کہتے ہیں۔ «آصد الباب» اور «أوصد الباب» یعنی دروازہ بند کیا۔ «بعثنا» ہم نے ان کو زندہ کر دیا۔ «أزكى» یعنی زیادہ سونے والا یا پاکیزہ خوش مزا یا سست۔ «فضرب الله على آذانهم» یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو سلا دیا۔ «رجما بالغيب» یعنی بے دلیل (محض گمان اٹکل پچو)۔ مجاہد نے کہا «تقرضهم» یعنی چھوڑ دیتا ہے، کترا جاتا ہے۔ سورۃ الکہف میں ان جوانوں کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: Q3465]
ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا، کہا ہم کو علی بن مسہر نے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عمر نے، انہیں نافع نے اور انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پچھلے زمانے میں (بنی اسرائیل میں سے) تین آدمی کہیں راستے میں جا رہے تھے کہ اچانک بارش نے انہیں آ لیا۔ وہ تینوں پہاڑ کے ایک کھوہ (غار) میں گھس گئے (جب وہ اندر چلے گئے) تو غار کا منہ بند ہو گیا۔ اب تینوں آپس میں یوں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہمیں اس مصیبت سے اب تو صرف سچائی ہی نجات دلائے گی۔ بہتر یہ ہے کہ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کر کے دعا کرے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے کیا تھا۔ چنانچہ ایک نے اس طرح دعا کی۔ اے اللہ! تجھ کو خوب معلوم ہے کہ میں نے ایک مزدور رکھا تھا جس نے ایک فرق (تین صاع) چاول کی مزدوری پر میرا کام کیا تھا لیکن وہ شخص (غصہ میں آ کر) چلا گیا اور اپنے چاول چھوڑ گیا۔ پھر میں نے اس ایک فرق چاول کو لیا اور اس کی کاشت کی۔ اس سے اتنا کچھ ہو گیا کہ میں نے پیداوار میں سے گائے بیل خرید لیے۔ اس کے بہت دن بعد وہی شخص مجھ سے اپنی مزدوری مانگنے آیا۔ میں نے کہا کہ یہ گائے بیل کھڑے ہیں ان کو لے جا۔ اس نے کہا کہ میرا تو صرف ایک فرق چاول تم پر ہونا چاہیے تھا۔ میں نے اس سے کہا یہ سب گائے بیل لے جا کیونکہ اسی ایک فرق کی آمدنی ہے۔ آخر وہ گائے بیل لے کر چلا گیا۔ پس اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ ایمانداری میں نے صرف تیرے ڈر سے کی تھی تو، تو غار کا منہ کھول دے۔ چنانچہ اسی وقت وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ پھر دوسرے نے اس طرح دعا کی۔ اے اللہ! تجھے خوب معلوم ہے کہ میرے ماں باپ جب بوڑھے ہو گئے تو میں ان کی خدمت میں روزانہ رات میں اپنی بکریوں کا دودھ لا کر پلایا کرتا تھا۔ ایک دن اتفاق سے میں دیر سے آیا تو وہ سو چکے تھے۔ ادھر میرے بیوی اور بچے بھوک سے بلبلا رہے تھے لیکن میری عادت تھی کہ جب تک والدین کو دودھ نہ پلا لوں، بیوی بچوں کو نہیں دیتا تھا مجھے انہیں بیدار کرنا بھی پسند نہیں تھا اور چھوڑنا بھی پسند نہ تھا (کیونکہ یہی ان کا شام کا کھانا تھا اور اس کے نہ پینے کی وجہ سے وہ کمزور ہو جاتے) پس میں ان کا وہیں انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو تو ہماری مشکل دور کر دے۔ اس وقت وہ پتھر کچھ اور ہٹ گیا اور اب آسمان نظر آنے لگا۔ پھر تیسرے شخص نے یوں دعا کی۔ اے اللہ! میری ایک چچا زاد بہن تھی جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔ میں نے ایک بار اس سے صحبت کرنی چاہی، اس نے انکار کیا مگر اس شرط پر تیار ہوئی کہ میں اسے سو اشرفی لا کر دے دوں۔ میں نے یہ رقم حاصل کرنے کے لیے کوشش کی۔ آخر وہ مجھے مل گئی تو میں اس کے پاس آیا اور وہ رقم اس کے حوالے کر دی۔ اس نے مجھے اپنے نفس پر قدرت دے دی۔ جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھ چکا تو اس نے کہا کہ اللہ سے ڈر اور مہر کو بغیر حق کے نہ توڑ۔ میں (یہ سنتے ہی) کھڑا ہو گیا اور سو اشرفی بھی واپس نہیں لی۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ عمل تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو، تو ہماری مشکل آسان کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مشکل دور کر دی اور وہ تینوں باہر نکل آئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3465]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3465
حدیث حاشیہ: اس حدیث کے ذیل میں حافظ ابن حجر فرماتےہیں: وَفِيهِ فَضْلُ الْإِخْلَاصِ فِي الْعَمَلِ وَفَضْلُ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ وَخِدْمَتِهِمَا وَإِيثَارِهِمَا عَلَى الْوَلَدِ وَالْأَهْلِ وَتَحَمُّلِ الْمَشَقَّةِ لِأَجْلِهِمَا وَقَدِ اسْتُشْكِلَ تَرْكُهُ أَوْلَادَهُ الصِّغَارَ يَبْكُونَ مِنَ الْجُوعِ طُولَ لَيْلَتِهِمَا مَعَ قُدْرَتِهِ عَلَى تَسْكِينِ جُوعِهِمْ فَقِيلَ كَانَ فِي شَرْعِهِمْ تَقْدِيمُ نَفَقَةِ الْأَصْلِ عَلَى غَيْرِهِمْ وَقِيلَ يَحْتَمِلُ أَنَّ بُكَاءَهُمْ لَيْسَ عَنِ الْجُوعِ وَقَدْ تَقَدَّمَ مَا يَرُدُّهُ وَقِيلَ لَعَلَّهُمْ كَانُوا يَطْلُبُونَ زِيَادَةً عَلَى سَدِّ الرَّمَقِ وَهَذَا أَوْلَى وَفِيهِ فَضْلُ الْعِفَّةِ وَالِانْكِفَافِ عَنِ الْحَرَامِ مَعَ الْقُدْرَةِ وَأَنَّ تَرْكَ الْمَعْصِيَةِ يَمْحُو مُقَدِّمَاتِ طَلَبِهَا وَأَنَّ التَّوْبَةَ تَجُبُّ مَا قَبْلَهَا وَفِيهِ جَوَازُ الْإِجَارَةِ بِالطَّعَامِ الْمَعْلُومِ بَيْنَ الْمُتَآجِرَيْنِ وَفَضْلُ أَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَإِثْبَاتُ الْكَرَامَةِ لِلصَّالِحِينَ(فتح الباري) یعنی اس حدیث سےعمل میں اخلاص کی فضیلت ثابت ہوئی اورماں باپ کےساتھ نیک سلوک کی اوریہ کہ ماں باپ کی رضا جوئی کےلیے ہرممکن مشقت کوبرداشت کرنا اولاد کافرض ہے۔ اس شخص نےاپنے بچوں کورونے ہی دیا اوران کودودھ نہیں پلایا، اس کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ کہا گیا ہےکہ ان کی شریعت کاحکم ہی یہ تھاکہ خرچ ماں باپ کودوسروں پر مقدم رکھا جائے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ ان بچوں کودودھ تھوڑا ہی پلایا گیا اس لیے وہ روتے رہے، اوراس حدیث سےپاکبازی کی بھی فضیلت ثابت ہوگئی اوریہ بھی معلوم ہوا کہ توبہ کرنے سے پہلی غلطیاں بھی معاف ہوجاتی ہیں اور اس سے یہ بھی جواز نکلا کہ مزدور کوطعام کی اجرت پربھی مزدور رکھاجاسکتا ہےاورامانت کی ادائیگی کی بھی فضیلت ثابت ہوئی او رصالحین کی کرامتوں کا بھی اثبات ہوا کہ اللہ پاک نےان صالح بندوں کی دعاؤں کےنتیجہ میں اس پتھر کوچٹان کےمنہ سےہٹا دیااور یہ لوگ وہاں سے نجات پاگئے۔ رحمہم اللہ اجمعین۔ نیز حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری نے واقعہ اصحاب کہف کےبعد حدیث غاز کا ذکر فرمایا جس میں اشارہ ہےکہ آیت قرآنی ﴿ أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا﴾(الکهف: 9) رقیم سےیہی غار والے مراد ہیں جیسا کہ طبرانی اور بزار نےسندحسن کےساتھ نعمان بن بشیر ؓ سےروایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ نےسنا۔ رقیم کاذکر فرماتےہوئے آپ نےان تینوں شخصوں کا ذکر فرمانا جو ایک غا رمیں پناہ گزیں ہوگئے تھے اور جن پرپتھر کی چٹان گرگئی تھی اور اس غار کامنہ کردیا تھا۔ تینوں میں مزدوری پر زراعت کاکام کرانے والے کا ذکر ہے۔ امام احمد کی روایت میں اس کاقصہ یوں مذکورہےکہ میں نے کئی مزدور ا س کی مزدوری ٹھہرا کر کام پرلگائے۔ ایک شخص دوپہر کو آیا میں نے اس کوآدھی مزدوری پر رکھا لیکن اس نے اتنا کام کیا جتنا اوروں نےسارے دن میں کیا تھا میں نے کہا کہ میں اس کوبھی سارے دن کی مزدوری دوں گا۔ اس پر پہلے مزدوروں میں سے ایک شخص غصے میں ہوا۔ میں نے کہا بھائی تجھے کیا مطلب ہے۔ تواپنی مزدوری پوری لےلے۔ اس نے غصے میں اپنی مزدوری بھی نہ لی اور چل دیا۔ پھر آگے وہ ہوا جو روایت میں مذکور ہے۔ قسطلانی ﷺنے کہا کہ ان تینوں میں افضل تیسرا شخص تھا۔ امام غزالی نےکہا شہوت آدمی پربہت غلبہ کرتی ہےاور جوشخص سب سامان ہوتے ہوئے محض خوف خدا سے بدکار ی سے باز رہ گیا اس کا درجہ صدیقین میں ہوتا ہے۔ اللہ پاک نےحضرت یوسف کوصدیق اسی لیے فرمایا کہ انہوں نے زلیخا کےاصرار پربھی برا کام کرنامنظور نہیں کیا اوردنیا کی سخت تکلیف برداشت کی۔ ایسا شخص بموجب نص قرآنی جنتی ہےجیسا کہ ارشاد ہے۔ (وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (40) فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى) الخ (المائده 35) جوشخص اپنے رب کےسامنے کھڑا ہونے سےڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہشات حرام سےر وک لیا تو جنت اس کا ٹھکانا ہے۔ جعلنا اللہ منهم آمین- اس حدیث سےیہ بھی معلوم ہو ا کہ وسیلہ کےلیے اعمال صالحہ کوپیش کرناجائز طریقہ ہے اور دعاؤں میں بطور وسیلہ وفات شدہ بزرگوں کانام لینا یہ درست نہیں ہے۔ اگر درست ہوتا تو یہ غار والے اپنے انبیاء اولیاء کے ناموں سےدعا کرتےمگر انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اعمال صالحہ کوہی وسیلہ میں پیش کیا۔ اس واقعہ سےنصیحت حاصل کرتے ہوئے ان لوگوں کوجو اپنی دعاؤں میں اپنے ولیوں، پیروں اور بزرگوں کا وسیلہ ڈھونڈتے ہیں غور کرنا چاہیے وہ ایسا عمل کررہےہیں جس کا کوئی ثبوت کتاب وسنت اور بزرگان اسلام سےنہیں ہے۔ آیت شریفہ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾(المائدہ: 35) میں بھی وسیلہ سےاعمال صالحہ ہی مراد ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3465
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3465
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دعا کرتے وقت اپنے نیک اعمال کو بطور وسیلہ پیش کرنا جائز ہے لیکن فوت شدہ کسی بزرگ کا وسیلہ دینا جائز نہیں کتاب وسنت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ہاں کسی زندہ بزرگ انسان سے دعا کرائی جا سکتی ہے۔ 2۔ حدیث میں مذکورہ تینوں اشخاص اسباب و ذرائع کی موجودگی میں محض اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے بدکاری سے باز رہا وہ قرآن کی نص کے مطابق اہل جنت سے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور بری خواہشات سے خود کو روک لیا تو اس کا ٹھکانا جنت ہے۔ (النازعات: 40- 41) دوسرا اس نے صلہ رحمی کی، احادیث میں اس عمل کی بہت فضیلت آئی ہےتیسرا یہ کہ اس نے ایک حاجت مند کی ضرورت کو پورا کیا۔ ان تینوں اعمال کی برکت سے پتھراپنی جگہ سے ہٹ گیا اور وہ بخیروعافیت باہر آگئے نیز مصیبت کے وقت دعا کرنا۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ ان کی خدمت بجالانا اور حرام کاری سے بچنا بہترین عمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے اعمال اختیار کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3465