حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ پہلے زمانے میں ایک شخص کے پاس ملک الموت ان کی روح قبض کرنے آئے تو ان سے پوچھا گیا کوئی اپنی نیکی تمہیں یاد ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے تو یاد نہیں پڑتی۔ ان سے دوبارہ کہا گیا کہ یاد کرو! انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی اپنی نیکی یاد نہیں، سوا اس کے کہ میں دنیا میں لوگوں کے ساتھ خرید و فروخت کیا کرتا تھا اور لین دین کیا کرتا تھا، جو لوگ خوشحال ہوتے انہیں تو میں (اپنا قرض وصول کرتے وقت) مہلت دیا کرتا تھا اور تنگ ہاتھ والوں کو معاف کر دیا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی پر جنت میں داخل کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3451]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3451
حدیث حاشیہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اس طرح کی ایک روایت مروی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”ایک تاجر لوگوں سے لین دین اور خرید وفروخت کیا کرتاتھا۔ اگر کسی تنگ دست کودیکھتا تواپنے اہل کار عملے سے کہہ دیتا کہ اس سے درگزر کرو اور اسے معاف کردوشاید اللہ تعالیٰ اس عمل کیوجہ سے درگزر کرے اور ہمیں معاف کردے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا اور اس کے گناہوں سے درگزر فرمایا۔ “(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2078) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اسے معاف کردیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے اپنے سائے تلے جگہ دے گا۔ “(صحیح مسلم، الزھد و الرقائق، حدیث: 7512(3006)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3451