لفظ «انتبذت» «نبذ» سے نکلا ہے جیسے یونس علیہ السلام کے قصے میں فرمایا «نبذناه» یعنی ہم نے ان کو ڈال دیا۔ «شرقيا» پورب رخ (یعنی مسجد سے یا ان کے گھر سے پورب کی طرف) «فأجاءها» کے معنی اس کو لاچار اور بے قرار کر دیا۔ «تساقط» گرے گا۔ «قصيا» دور۔ «فريا» بڑا یا برا۔ «نسيا» ناچیز۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایسا ہی کہا۔ دوسروں نے کہا «نسى» کہتے ہیں حقیر چیز کو (یہ «فاتحه» سدی سے منقول ہے) ابووائل نے کہا کہ مریم یہ سمجھی کہ پرہیزگار وہی ہوتا ہے جو عقلمند ہوتا ہے۔ جب انہوں نے کہا (جبرائیل علیہ السلام کو ایک جوان مرد کی شکل میں دیکھ کر) اگر تو پرہیزگار ہے اللہ سے ڈرتا ہے۔ وکیع نے اسرائیل سے نقل کیا، انہوں نے ابواسحاق سے، انہوں نے براء بن عازب سے «سريا» سریانی زبان میں چھوٹی نہر کو کہتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: Q3436]
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”گود میں تین بچوں کے سوا اور کسی نے بات نہیں کی۔ اول عیسیٰ علیہ السلام (دوسرے کا واقعہ یہ ہے کہ) بنی اسرائیل میں ایک بزرگ تھے، نام جریج تھا۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی ماں نے انہیں پکارا۔ انہوں نے۔ (اپنے دل میں) کہا کہ میں والدہ کا جواب دوں یا نماز پڑھتا رہوں؟ اس پر ان کی والدہ نے (غصہ ہو کر) بددعا کی: اے اللہ! اس وقت تک اسے موت نہ آئے جب تک یہ زانیہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے۔ جریج اپنے عبادت خانے میں رہا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے سامنے ایک فاحشہ عورت آئی اور ان سے بدکاری چاہی لیکن انہوں نے (اس کی خواہش پوری کرنے سے) انکار کیا۔ پھر ایک چرواہے کے پاس آئی اور اسے اپنے اوپر قابو دے دیا اس سے ایک بچہ پیدا ہوا۔ اور اس نے ان پر یہ تہمت دھری کہ یہ جریج کا بچہ ہے۔ ان کی قوم کے لوگ آئے اور ان کا عبادت خانہ توڑ دیا، انہیں نیچے اتار کر لائے اور انہیں گالیاں دیں۔ پھر انہوں نے وضو کر کے نماز پڑھی، اس کے بعد بچے کے پاس آئے اور اس سے پوچھا کہ تیرا باپ کون ہے؟ بچہ (اللہ کے حکم سے) بول پڑا کہ چرواہا ہے اس پر (ان کی قوم شرمندہ ہوئی اور) کہا ہم آپ کا عبادت خانہ سونے کا بنائیں گے۔ لیکن انہوں نے کہا ہرگز نہیں، مٹی ہی کا بنے گا (تیسرا واقعہ) اور ایک بنی اسرائیل کی عورت تھی، اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی۔ قریب سے ایک سوار نہایت عزت والا اور خوش پوش گزرا۔ اس عورت نے دعا کی: اے اللہ! میرے بچے کو بھی اسی جیسا بنا دے لیکن بچہ (اللہ کے حکم سے) بول پڑا کہ اے اللہ! مجھے اس جیسا نہ بنانا۔ پھر اس کے سینے سے لگ کر دودھ پینے لگا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جیسے میں اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلی چوس رہے ہیں (بچے کے دودھ پینے کی کیفیت بتلاتے وقت) پھر ایک باندی اس کے قریب سے لے جائی گئی (جسے اس کے مالک مار رہے تھے) تو اس عورت نے دعا کی کہ اے اللہ! میرے بچے کو اس جیسا نہ بنانا۔ بچے نے پھر اس کا پستان چھوڑ دیا اور کہا کہ اے اللہ! مجھے اسی جیسا بنا دے۔ اس عورت نے پوچھا۔ ایسا تو کیوں کہہ رہا ہے؟ بچے نے کہا کہ وہ سوار ظالموں میں سے ایک ظالم شخص تھا اور اس باندی سے لوگ کہہ رہے تھے کہ تم نے چوری کی اور زنا کیا حالانکہ اس نے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3436]
لم يتكلم في المهد إلا ثلاثة عيسى وكان في بني إسرائيل رجل يقال له جريج كان يصلي جاءته أمه فدعته فقال أجيبها أو أصلي فقالت اللهم لا تمته حتى تريه وجوه المومسات وكان جريج في صومعته فتعرضت له امرأة وكلمته فأبى فأتت راعيا فأمكنته من نفسها فولدت غلاما فقالت من
كان رجل في بني إسرائيل يقال له جريج يصلي فجاءته أمه فدعته فأبى أن يجيبها فقال أجيبها أو أصلي ثم أتته فقالت اللهم لا تمته حتى تريه وجوه المومسات وكان جريج في صومعته فقالت امرأة لأفتنن جريجا فتعرضت له فكلمته فأبى فأتت راعيا فأمكنته من نفسها فولدت غلاما فقال
لم يتكلم في المهد إلا ثلاثة عيسى ابن مريم وصاحب جريج وكان جريج رجلا عابدا فاتخذ صومعة فكان فيها فأتته أمه وهو يصلي فقالت يا جريج فقال يا رب أمي وصلاتي فأقبل على صلاته فانصرفت فلما كان من الغد أتته وهو يصلي فقالت يا جريج فقال يا رب أمي وصلاتي فأقبل على صلا
كان جريج يتعبد في صومعة فجاءت أمه قال حميد فوصف لنا أبو رافع صفة أبي هريرة لصفة رسول الله أمه حين دعته كيف جعلت كفها فوق حاجبها ثم رفعت رأسها إليه تدعوه فقالت يا جريج أنا أمك كلمني فصادفته يصلي فقال اللهم أمي وصلاتي فاختار صلاته فرجعت ث
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3436
حدیث حاشیہ: وہ پاک دامن خدا کی نیک بندی تھی۔ ان تینوں بچوں کےکلام کرنے کا تعلق صرف بنی اسرائیل سےہے۔ ان کےعلاوہ بعض دوسرے بچوں نےبھی بچپن میں کلام کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3436
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3436
حدیث حاشیہ: 1۔ حدیث جریج سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کی خدمت میں عظمت ہے اور بچوں کے حق میں اس کی دعا قبول ہوتی ہے اس کی دل آزاری سے پرہیز کرنا چاہیے،نیز وہ لونڈی جسے بلاوجہ ماراپیٹا جارہاتھا وہ اللہ تعالیٰ کی نیک بندی تھی۔ 2۔ ان تین بچوں کے علاوہ بھی مختلف احادیث میں بچوں کی گفتگو کاذکر ہے، مثلاً: صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ گہوارے میں اس بچے نے بھی گفتگو کی تھی جس کی ماں کو "اصحاب الاخدود" آگ کے آلاؤ میں ڈالنے لگے تو وہ کچھ سہم گئی۔ اس وقت شیر خوار بچے نے کہا: اے میری ماں! صبر کر تو حق پر ہے۔ "(صحیح مسلم، الذھد والرقائق، حدیث: 7511(3005) 3۔ ممکن ہے کہ گہوارے میں صرف تین بچوں نے گفتگو کی ہو اور باقی بچوں نے گہوارے کے علاوہ باتیں کی ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس حدیث میں مذکورہ تین بچوں کے کلام کرنے کاتعلق صرف بنی اسرائیل سے ہو اور باقی بچے غیر بنی اسرائیل سے ہوں۔ امام بخاری ؒ نے حضرت عیسیٰ ؑ کے حالات سے آگاہی کے لیے اسے بیان کیا ہے۔ قرآن کریم میں بھی اس کی صراحت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”پھر وہ(مریم) بچے کو اٹھائے اپنی قوم میں لے آئیں تو وہ کہنے لگے: اے مریم ؑ! یقیناً تو نے بہت بُرا کام کیا ہے۔ اےہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ کوئی بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی۔ مریم نے اس بچے کی طرف اشارہ کردیا۔ وہ کہنے لگے: ہم اس سے کیسے کلام کریں جو ابھی گود میں بچہ ہے۔ وہ(بچہ) بول اٹھا: بے شک میں اللہ کابندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا ہے۔ “(مریم: 27- 30)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3436
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6509
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں،آپ نے فرمایا:"پنگھوڑے میں صرف تین افراد نے گفتگو کی ہے، ایک عیسیٰ ؑ دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج نامی ایک شخص عابد تھا، اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اور اسی میں رہتا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے بلایا کہ اے جریج! تو وہ (دل میں) کہنے لگا کہ یا اللہ میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں (میں نماز پڑھے جاؤں یا اپنی ماں کو جواب دوں)؟ آخر وہ نماز ہی میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6509]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) يتمثل بحسنها: اس کا حسن و جمال ضرب المثل تھا۔ (2) دابة فارهة: چاک و چوبند اور تیز رفتار جانور۔ (3) شارة: اچھی شکل و صورت اور عمدہ لباس والا۔ (4) لاتجعلني مثله: مجھے اس جیسا نہ بنانا، بچہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو نمایاں کیا کہ محض کسی کے ظاہر سے متاثر نہیں ہونا چاہیے، اس کے باطن اور اصلیت کو بھی جاننے کی کوشش کرنا چاہیے، گھوڑ سوار انسان بظاہر اچھی شکل و صورت والا اور مالدار تھا، اس لیے ماں نے، بیٹے کے لیے اس جیسا بنانے کی دعا کی، حالانکہ وہ درحقیقت بہت خود پسند اور جابر و سرکش تھا اور لونڈی جس کو لوگ لعن طعن کر کے مار پیٹ رہے تھے اور ماں نے اسی وجہ سے اس جیسا نہ بنانے کی دعا کی تھی، درحقیقت ایک نیک اور پارسا عورت تھی، اس لیے بچے نے، اس کی نیکی اور پارسائی کی خواہش کی، کیونکہ تشبیہ میں کسی ایک صفت میں تشبیہ مقصود ہوتی ہے، ہر حیثیت میں مشابہت نہیں ہوتی کہ یہ کہا جا سکے، بچے نے یہ خواہش کی، مجھے بھی مار پیٹ سے دوچار ہونا پڑے اور مجھ پر بھی الزامات لگیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6509
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6509
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں،آپ نے فرمایا:"پنگھوڑے میں صرف تین افراد نے گفتگو کی ہے، ایک عیسیٰ ؑ دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج نامی ایک شخص عابد تھا، اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اور اسی میں رہتا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے بلایا کہ اے جریج! تو وہ (دل میں) کہنے لگا کہ یا اللہ میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں (میں نماز پڑھے جاؤں یا اپنی ماں کو جواب دوں)؟ آخر وہ نماز ہی میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6509]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) يتمثل بحسنها: اس کا حسن و جمال ضرب المثل تھا۔ (2) دابة فارهة: چاک و چوبند اور تیز رفتار جانور۔ (3) شارة: اچھی شکل و صورت اور عمدہ لباس والا۔ (4) لاتجعلني مثله: مجھے اس جیسا نہ بنانا، بچہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو نمایاں کیا کہ محض کسی کے ظاہر سے متاثر نہیں ہونا چاہیے، اس کے باطن اور اصلیت کو بھی جاننے کی کوشش کرنا چاہیے، گھوڑ سوار انسان بظاہر اچھی شکل و صورت والا اور مالدار تھا، اس لیے ماں نے، بیٹے کے لیے اس جیسا بنانے کی دعا کی، حالانکہ وہ درحقیقت بہت خود پسند اور جابر و سرکش تھا اور لونڈی جس کو لوگ لعن طعن کر کے مار پیٹ رہے تھے اور ماں نے اسی وجہ سے اس جیسا نہ بنانے کی دعا کی تھی، درحقیقت ایک نیک اور پارسا عورت تھی، اس لیے بچے نے، اس کی نیکی اور پارسائی کی خواہش کی، کیونکہ تشبیہ میں کسی ایک صفت میں تشبیہ مقصود ہوتی ہے، ہر حیثیت میں مشابہت نہیں ہوتی کہ یہ کہا جا سکے، بچے نے یہ خواہش کی، مجھے بھی مار پیٹ سے دوچار ہونا پڑے اور مجھ پر بھی الزامات لگیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6509
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2482
2482. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بنی اسرائیل میں ایک جریج نامی شخص اپنی گرجے میں نماز پڑھ رہا تھا۔ اس کی ماں آئی اور اس نے اسے آواز دی، لیکن جریح نے جواب نہ دیا۔ اس نے(دل میں)کہا: ماں کو جواب دوں یا نماز پڑھوں؟ پھر دوبارہ اس کی ماں آئی تو اس نے بایں الفاظ بددعادی: اے اللہ!اسے اس وقت تک موت نہ آئے جب تک بازاری عورتوں سے اس کاسامنا نہ ہوجائے۔ جریج اپنے گرجے میں تھا کہ ایک عورت نے کہا: میں اسے فتنے ڈال کر رہوں گی۔ وہ (بن ٹھن کر) اس کے پاس آئی اور اس سے گفتگو کی لیکن اس نے اسے منہ نہ لگایا۔ اس دوران میں وہ ایک چرواہے کے پاس گئی اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کردیا، جس کے نتیجے میں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ اس نے اعلان کردیا کہ یہ بچہ جریج کا ہے، لوگ جریج کے پاس آئے اور اس کے عبادت خانے کو توڑدیا۔ پھر اسےنیچے اتار کر خوب گالی گلوچ دیں۔ اب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2482]
حدیث حاشیہ: حدیث جریج حضرت امام بخاری ؒ کئی جگہ لائے ہیں۔ اور اس سے مختلف مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔ یہاں آپ یہ ثابت فرمانے کے لیے یہ حدیث لائے کہ جب کوئی شخص یا اشخاص کسی کی دیوار ناحق گراد یں تو ان کو وہ دیوار پہلی ہی دیوار کے مثل بنانی لازم ہوگی۔ جریج کا واقعہ مشہور ہے۔ ان کے دین میں ماں کی بات کا جواب دینا بحالت نماز بھی ضروری تھا۔ مگر حضرت جریج نماز میں مشغول رہے، حتی کہ ان کی والدہ نے خفا ہو کر ان کے حق میں بددعا کر دی، آخر ان کی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے اللہ پاک نے اسی ولد الزنا بچے کو گویائی دے۔ حالانکہ اس کے بولنے کی عمر نہ تھی۔ مگر اللہ نے حضرت جریج کی دعا قبول کی اور اس بچے کو بولنے کی طاقت بخشی۔ قسطلانی نے کہا کہ اللہ نے چھ بچوں کو کم سنی میں بولنے کی قوت عطا فرمائی۔ ان میں حضرت یوسف ؑ کی پاکدامنی کی گواہی دینے والا بچہ اور فرعون کی بیٹی کی مغلانی کا لڑکا اور حضرت عیسیٰ ؑ اور صاحب جریج اور صاحب اخدود اور بنی اسرائیل کی ایک عورت کا بیٹا جس کو وہ دوھ پلا رہی تھی۔ اچانک ایک شخص جاہ وحشم کے ساتھ گزرا اور عور ت نے بچے کے لیے دعا کی کہ اللہ میرے بچے کو بھی ایسی قسمت والا بنائیو۔ اس شیر خوار بچے نے فوراً کہا کہ الٰہی! مجھے ایسا نہ بناؤ۔ کہتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام ؑ نے بھی کم سنی میں باتیں کی ہیں۔ تو کل سات بچے ہوں گے۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ حضرت جریج نے اپنا گھر مٹی ہی کی پہلی حالت کے مطابق بنوانے کا حکم دیا۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ ماں کی دعا اپنی اولاد کے لیے ضرور قبول ہوتی ہے۔ ماں کا حق باپ سے تین حصے زیادہ ہے۔ جو لڑکے لڑکی ماں کو راضی رکھتے ہیں وہ دنیا میں بھی خوب پھلتے پھولتے ہیں اور آخرت میں بھی نجات پاتے ہیں اور ماں کو ناراض کرنے والے ہمیشہ دکھ اٹھاتے ہیں۔ تجربہ اور مشاہدہ سے اس کا بہت کچھ ثبوت موجود ہے۔ جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ماں کے بعد باپ کا درجہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں عبادت الٰہی کے لیے حکم صادر فرمانے کے بعد ﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾(البقرة: 83) کے لفظ استعمال کئے گئے ہیں۔ کہ اللہ کی عبادت کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو، یہاں تک کہ ﴿فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا (23) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾(بني إسرائیل: 24) یعنی ماں باپ زندہ موجود ہوں تو ان کے سامنے اف بھی نہ کرو اور نہ انہیں ڈانٹو ڈپٹو بلکہ ان سے نرم نرم میٹھی میٹھی باتیں جو رحم و کرم سے بھر پور ہوں کیا کرو اور ان کے لیے رحم و کرم والے بازو بچھا دیا کرو وہ بازو جو ان کے احترام کے لیے عاجزی انکساری کے لیے ہوئے ہوں اوران کے حق میں یوں دعا کیا کرو کہ پروردگار! ان پر اسی طرح رحم فرمائیو جیسا کہ بچپن میں انہوں نے مجھ کو اپنے رحم و کرم سے پروان چڑھایا۔ ماں باپ کی خدمت، اطاعت، فرمانبردرای کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں جن کا نقل کرنا طوالت ہے۔ خلاصہ یہی ہے کہ اولاد کا فرض ہے کہ والدین کی نیک دعائیں ہمیشہ حاصل کرے۔ حضرت جریج کے واقعہ میں اور بھی بہت سی عبرتیں ہیں۔ سمجھنے کے لیے نور بصیرت درکار ہے، اللہ والے دنیا کے جھمیلوں سے دور رہ کر شب و روز عبادت الٰہی میں مشغول رہنے والے بھی ہوتے ہیں اور وہ دنیا کے جھمیلوں میں رہ کربھی یاد خدا سے غافل نہیں ہوتے۔ نیز جب بھی کوئی حادثہ سامنے آئے صبر و استقلال کے ساتھ اسے برداشت کرتے اور اس کا نتیجہ اللہ کے حوالے کرتے ہیں۔ ہماری شریعت کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر کوئی شخص نفل نماز کی نیت باندھے ہوئے ہو اور حضرت رسول کریم ﷺ اسے پکار دیں تو وہ نماز توڑ کر خدمت میں حاضری دے۔ آج کل اولاد کے لیے یہی حکم ہے نیز بیوی کے لیے بھی کہ وہ خاوند کی اطاعت کو نفل نمازوں پر مقدم جانے۔ و باللہ التوفیق
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2482
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2482
2482. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بنی اسرائیل میں ایک جریج نامی شخص اپنی گرجے میں نماز پڑھ رہا تھا۔ اس کی ماں آئی اور اس نے اسے آواز دی، لیکن جریح نے جواب نہ دیا۔ اس نے(دل میں)کہا: ماں کو جواب دوں یا نماز پڑھوں؟ پھر دوبارہ اس کی ماں آئی تو اس نے بایں الفاظ بددعادی: اے اللہ!اسے اس وقت تک موت نہ آئے جب تک بازاری عورتوں سے اس کاسامنا نہ ہوجائے۔ جریج اپنے گرجے میں تھا کہ ایک عورت نے کہا: میں اسے فتنے ڈال کر رہوں گی۔ وہ (بن ٹھن کر) اس کے پاس آئی اور اس سے گفتگو کی لیکن اس نے اسے منہ نہ لگایا۔ اس دوران میں وہ ایک چرواہے کے پاس گئی اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کردیا، جس کے نتیجے میں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ اس نے اعلان کردیا کہ یہ بچہ جریج کا ہے، لوگ جریج کے پاس آئے اور اس کے عبادت خانے کو توڑدیا۔ پھر اسےنیچے اتار کر خوب گالی گلوچ دیں۔ اب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2482]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ جب کوئی شخص کسی کی ناحق دیوار گرا دے تو اسے پہلی دیوار کی طرح بنا کر دینی چاہیے جبکہ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ دیوار گرانے والے کو قیمت ادا کرنا ہو گی۔ استدلال کی بنیاد اس بات پر ہے کہ پہلی امتوں کے احکام ہمارے لیے مشروع ہیں بشرطیکہ ہماری شریعت میں ان کے خلاف کوئی حکم نہ ہو۔ چونکہ لوگوں نے حضرت جریج سے کہا تھا کہ ہم تمہارا عبادت خانہ ایسا بنا دیتے ہیں۔ اس سے امام بخاری ؒ نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ اگر گرانے والا اس کے اعادے کا التزام کرے اور اس کا مالک راضی ہو جائے تو بالاتفاق ایسا کرنا جائز ہے۔ اکثر محدثین کا یہی موقف ہے کہ جس نے کسی کی دیوار گرائی تو اس جیسی دوبارہ بنا دے۔ اگر اس جیسی بنانا ممکن نہ ہو تو پھر قیمت ادا کر دی جائے۔ (2) اس حدیث سے والدہ کے حقوق کا پتہ چلتا ہے۔ ماں کا حقِ خدمت باپ سے تین حصے زیادہ ہے۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 5971) جو لوگ اپنی ماں کو راضی رکھتے ہیں وہ دنیا میں خوب پھلتے پھولتے ہیں اور آخرت میں بھی سرخرو ہوں گے۔ ماں کو ناراض کرنے والے دنیا و آخرت میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ مشاہدے سے بھی اس حقیقت کو ثابت کیا جا سکتا ہے جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2482