19. باب: (یوسف علیہ السلام کا بیان) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں“۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیت کے متعلق پوچھا «حتى إذا استيأس الرسل وظنوا أنهم قد كذبوا»(تشدید کے ساتھ «كُذِّبُوا») ہے یا «كُذِبُوا»(بغیر تشدید کے) یعنی یہاں تک کہ جب انبیاء ناامید ہو گئے اور انہیں خیال گزرنے لگا کہ انہیں جھٹلا دیا گیا تو اللہ کی مدد پہنچی تو انہوں نے کہا کہ (یہ تشدید کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہے کہ) ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر معنی کیسے بنیں گے ‘ پیغمبروں کو یقین تھا ہی کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا رہی ہے۔ پھر قرآن میں لفظ «ظن.» گمان اور خیال کے معنی میں استعمال کیوں کیا گیا؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے چھوٹے سے عروہ! بیشک ان کو تو یقین تھا۔ میں نے کہا تو شاید اس آیت میں بغیر تشدید کے «كذبوا» ہو گا یعنی پیغمبر یہ سمجھے کہ اللہ نے جو ان کی مدد کا وعدہ کیا تھا وہ غلط تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: معاذاللہ! انبیاء اپنے رب کے ساتھ بھلا ایسا گمان کر سکتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا مراد یہ ہے کہ پیغمبروں کے تابعدار لوگ جو اپنے مالک پر ایمان لائے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی ان پر جب مدت تک اللہ کی آزمائش رہی اور مدد آنے میں دیر ہوئی اور پیغمبر لوگ اپنی قوم کے جھٹلانے والوں سے ناامید ہو گئے (سمجھے کہ اب وہ ایمان نہیں لائیں گے) اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ جو لوگ ان کے تابعدار بنے ہیں وہ بھی ان کو جھوٹا سمجھنے لگیں گے ‘ اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ «استيأسوا»، «افتعلوا» کے وزن پر ہے جو «يئست. منه» سے نکلا ہے۔ «اى من يوسف.»(سورۃ یوسف کی آیت کا ایک جملہ ہے یعنی زلیخا یوسف علیہ السلام سے ناامید ہو گئی۔) «لا تيأسوا من روح الله» » (سورۃ یوسف: 87) یعنی اللہ سے امید رکھو ناامید نہ ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3389]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3389
حدیث حاشیہ: 1۔ آیت کریمہ میں ﴿فَقَدْ كَذَّبُوا﴾ کو دو طرح سے پڑھا گیا ہے تشدید سے اس کے معنی ہیں۔ ”انبیائے کرام کی تکذیب کی گئی۔ “ دوسرا تشدید کے بغیرجس کے معنی ہیں، ”ان سے عدہ خلافی کی گئی۔ “ حضرت عائشہ ؓنے اسے تشدید کے ساتھ پڑھا اور حدیث میں اس کے معنی متعین کیے کہ انبیائے کرام کو ان کی قوم نے جھٹلایا تھا۔ حضرت عروہ نے عرض کیا: اگر اس کے معنی قوم کا جھٹلانا ہے تو اس میں ظن و گمان کی کیا بات ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا اس مقام پر ظن یقین کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دوسری قراءت سے انکار نہیں کیا بلکہ ان کے نزدیک اس صورت میں یہ معنی ہوں گےکہ حضرات انبیائے کرام ؑ کو اپنے پیروکاروں کے متعلق یہ گمان ہوا کہ شاید وہ بھی وہ انھیں جھوٹا خیال کریں گے یعنی کذب بیانی یا وعدہ خلافی کی نسبت اللہ کی طرف نہیں بلکہ انبیائے کرام ؑ کے متبعین کی طرف ہوگی دراصل اس آیت کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف ہے جب رسول مایوس ہو گئے اور انھوں نے گمان کیا کہ ان سے جھوٹا وعدہ کیا گیا تھا تو اس وقت ان کے پاس اللہ کی مدد آپہنچی۔ حضرت عروہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مذکورہ موقف جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کیا تو آپ نے وضاحت فرمائی۔ یہ کوئی فقہی اختلاف نہیں بلکہ قرآءت کے اختلاف کی وجہ سے اس آیت کے معنی میں اختلاف ہوا ایک نظریاتی موقف کی وضاحت مطلوب ہے۔ اس کی تفصیل ہم کتاب التفسیر میں بیان کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔ 2۔ حضرت یوسف ؑ بلاوجہ سات سال تک جیل میں پڑے رہے ایسے حالات میں انسان مایوس ہو جاتا ہے۔ پھر اللہ کی مدد آئی اور ان کی رہائی کا سبب پیدا ہواچونکہ مذکورہ آیت سورہ یوسف میں ہے اور خود ان کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش آیا اس لیے امام بخاری ؒ نے اس روایت کو یہاں ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري: 509/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3389