(امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا) کہ ابن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابن ابی نعیم نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے (یمن سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، اقرع بن حابس حنظلی ثم المجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید طائی بنی نبہان والے اور علقمہ بن علاثہ عامری بنو کلاب والے، اس پر قریش اور انصار کے لوگوں کو غصہ آیا اور کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے بڑوں کو تو دیا لیکن ہمیں نظر انداز کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں صرف ان کے دل ملانے کے لیے انہیں دیتا ہوں (کیونکہ ابھی حال ہی میں یہ لوگ مسلمان ہوئے ہیں) پھر ایک شخص سامنے آیا، اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، کلے پھولے ہوئے تھے، پیشانی بھی اٹھی ہوئی، ڈاڑھی بہت گھنی تھی اور سر منڈا ہوا تھا۔ اس نے کہا اے محمد! اللہ سے ڈرو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر میں ہی اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر اس کی فرمانبرداری کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے روئے زمین پر دیانت دار بنا کر بھیجا ہے۔ کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ اس شخص کی اس گستاخی پر ایک صحابی نے اس کے قتل کی اجازت چاہی، میرا خیال ہے کہ یہ خالد بن ولید تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے روک دیا، پھر وہ شخص وہاں سے چلنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نسل سے یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) اس شخص کے بعد اسی کی قوم سے ایسے لوگ جھوٹے مسلمان پیدا ہوں گے، جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے، لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے، یہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میری زندگی اس وقت تک باقی رہے تو میں ان کو اس طرح قتل کروں گا جیسے قوم عاد کا (عذاب الٰہی سے) قتل ہوا تھا کہ ایک بھی باقی نہ بچا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3344]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3344
حدیث حاشیہ: اس حدیث کے آخر میں قوم عاد کے عذاب الٰہی سے ہلاک ہونے کا ذکر ہے اس مناسبت سے یہ حدیث یہاں درج کی گئی، جس بدبخت گروہ کا یہاں ذکر ہوا ہے۔ یہ خارجی تھے جنہوں نے حضرت علی ؓ کے خلاف خروج کیا ان پر کفر کا فتویٰ لگایا، خود اتباع قرآن کا دعویٰ کیا، آخر حضرت علی ؓ سے مقابلہ میں یہ لوگ مارے گئے، دینداری کا دعویٰ کرنے اور دوسرے مسلمانوں کو بنظر حقارت دیکھنے والے آج بھی بہت سے لوگ موجود ہیں، لمبے لمبے کرتے پہنے ہوئے ہاتھوں میں تسبیح لٹکائے ہوئے، بغلوں میں قرآن دبائے ہوئے مگر ان کے دلوں کو دیکھو تو بھیڑيے معلوم ہوتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3344
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3344
حدیث حاشیہ: 1۔ قبیلہ بنو تمیم کے اس نامراد انسان کو ذوالخوبصرہ کہا جاتا تھا حرقوص بن زہیر کے نام سے موسوم اور ذوالثدیہ اس کا لقب تھا۔ اس نے رسول اللہ ﷺ کے حضور تباہ و برباد کر دینے والی انتہائی ذلیل اور گھٹیا حرکت کی جسارت کی تھی۔ اس وقت بعض مصلحتوں کی بنا پر آپ نے اسے قتل کرنے سے منع فرمادیا۔ یہی شخص بعد میں خارجیوں کا سر پرست بنا اور اس نے مسلمانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا پھر حضرت علی ؓ نے اسے قتل کیا۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ انھیں ایسا قتل عاد کا ذکر ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3344