ہم سے حسن بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق ازرق نے بیان کیا، کہا ہم سے عوف نے بیان کیا، ان سے حسن اور ابن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ایک فاحشہ عورت صرف اس وجہ سے بخشی گئی کہ وہ ایک کتے کے قریب سے گزر رہی تھی، جو ایک کنویں کے قریب کھڑا پیاسا ہانپ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ پیاس کی شدت سے ابھی مر جائے گا۔ اس عورت نے اپنا موزہ نکالا اور اس میں اپنا دوپٹہ باندھ کر پانی نکالا اور اس کتے کو پلا دیا، تو اس کی بخشش اسی (نیکی) کی وجہ سے ہو گئی۔“[صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3321]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3321
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ بڑے بڑے گناہوں کو معمولی سے کارخیر کی بنا پر معاف کردیتا ہے بشرط یہ کہ وہ کام خلوص سے کیا گیا ہوچنانچہ اس بدکار عورت کو اس کے خلوص کی بنا پر معاف کردیاگیا۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو مسلمان کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو اس کا کوئی چھوٹا سا عمل قبول ہوسکتا ہے جو اس کی مغفرت کا باعث ہو۔ 2۔ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سےمروی ایک آدمی سے متعلق بھی اس طرح کا واقعہ بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، المساقاة، حدیث: 2363) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مستقل طور پر یہ دو واقعات ہیں اور دونوں کی حیثیت الگ الگ ہے۔ 3۔ امام بخاری ؒ نے یہ حدیث صرف اس لیے بیان کی ہے کہ اس میں ایک حیوان کاذکر ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3321
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5861
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک کتا ایک کچے کنویں کے گرد چکر لگا رہا تھا، قریب تھا پیاس اسے مار ڈالے کہ اچانک اسے بنو اسرائیل کی ایک فاحشہ عورت نے دیکھ لیا تو اس نے اپنا موزا اتار، اس کے ذریعہ اس کے لیے پانی نکالا اور اسے پلا دیا، اس نیکی کے سبب اسے معاف کر دیا گیا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5861]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایک معمولی سی نیکی جو اخلاص اور ہمدردی و خیرخواہی کے جذبہ سے کی جاتی ہے۔ انسان کی کایا پلٹ دیتی ہے اور وہ غلط کاری کو چھوڑ کر نیکوکاری کا راستہ اختیار کر لیتا ہے، جس سے اس کی آخرت سنور جاتی ہے اور پچھلے گناہ ڈھل جاتے ہیں، لیکن یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سا عمل کب کایا پلٹ بنتا ہے یا نہیں بنتا، اس لیے اس قسم کی حدیثوں سے گناہ کی جسارت اور جراءت پر استدلال کرنا اور گناہوں کو حقیر یا معمولی خیال کرنا درست فکر نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5861
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3467
3467. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”ایک دفعہ کوئی کتا کسی کنویں کے چاروں طرف گھوم رہا تھا۔ قریب تھا کہ پیاس کی شدت سے اس کی جان نکل جائے۔ اچانک بنی اسرائیل کی ایک بدکارہ عورت نے اسے دیکھ لیا تو اس نے اپنا موزہ اتارا اور کتے کو پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسی عمل کی وجہ سے اسے معاف کر دیا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3467]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ جانور کوبھی پانی پلانے میں ثواب ہے۔ یہ خلوص کر برکت تھی کہ ایک نیکی سےوہ بدکارعورت بخش دی گئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3467
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3467
3467. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”ایک دفعہ کوئی کتا کسی کنویں کے چاروں طرف گھوم رہا تھا۔ قریب تھا کہ پیاس کی شدت سے اس کی جان نکل جائے۔ اچانک بنی اسرائیل کی ایک بدکارہ عورت نے اسے دیکھ لیا تو اس نے اپنا موزہ اتارا اور کتے کو پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسی عمل کی وجہ سے اسے معاف کر دیا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3467]
حدیث حاشیہ: ایک حدیث میں مزید وضاحت ہے کہ اس نے دوپٹہ اتارا اور موزے سے باندھ کر کنویں سے پانی نکال کر کتے کو پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3321) اسی طرح کا ایک واقعہ کسی مرد کے متعلق بھی حدیث میں آیا ہے کہ اس نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی قدر کی اور اسے معاف کردیا۔ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا: کیا ہمارے لیے جانوروں کی خدمت کرنے میں بھی اجرملتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہر زندہ جگر کی خدمت گزاری میں اجر ہے۔ “(صحیح البخاري، المساقاة، حدیث: 2363) ان متعدد واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور کو پانی پلانے میں بھی اجرو ثواب ہے۔ مذکورہ واقعات سے خلوص کی برکات کا پتہ چلتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3467