8. باب: جنت کا بیان اور یہ بیان کہ جنت پیدا ہو چکی ہے۔
حدیث نمبر: Q3240
قَالَ: أَبُو الْعَالِيَةِ مُطَهَّرَةٌ مِنَ الْحَيْضِ وَالْبَوْلِ وَالْبُزَاقِ كُلَّمَا رُزِقُوا سورة البقرة آية 25 أُتُوا بِشَيْءٍ ثُمَّ أُتُوا بِآخَرَ قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ سورة البقرة آية 25 أُتِينَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا سورة البقرة آية 25 يُشْبِهُ بَعْضُهُ بَعْضًا وَيَخْتَلِفُ فِي الطُّعُومِ قُطُوفُهَا سورة الحاقة آية 23 يَقْطِفُونَ كَيْفَ شَاءُوا دَانِيَةٌ سورة الحاقة آية 23 قَرِيبَةٌ الأَرَائِكِ سورة الكهف آية 31 السُّرُرُ، وَقَالَ الْحَسَنُ: النَّضْرَةُ فِي الْوُجُوهِ وَالسُّرُورُ فِي الْقَلْبِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ:سَلْسَبِيلا سورة الإنسان آية 18 حَدِيدَةُ الْجِرْيَةِ غَوْلٌ سورة الصافات آية 47 وَجَعُ الْبَطْنِ يُنْزَفُونَ سورة الصافات آية 47 لَا تَذْهَبُ عُقُولُهُمْ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: دِهَاقًا سورة النبأ آية 34 مُمْتَلِئًا وَكَوَاعِبَ سورة النبأ آية 33 نَوَاهِدَ الرَّحِيقُ الْخَمْرُ سورة المائدة آية 90 التَّسْنِيمُ يَعْلُو شَرَابَ أَهْلِ الْجَنَّةِ خِتَامُهُ سورة المطففين آية 26 طِينُهُ مِسْكٌ سورة المطففين آية 26 نَضَّاخَتَانِ سورة الرحمن آية 66 فَيَّاضَتَانِ يُقَالُ: مَوْضُونَةٌ مَنْسُوجَةٌ مِنْهُ وَضِينُ النَّاقَةِ وَالْكُوبُ مَا لَا أُذْنَ لَهُ وَلَا عُرْوَةَ وَالْأَبَارِيقُ ذَوَاتُ الْآذَانِ وَالْعُرَى عُرُبًا سورة الواقعة آية 37 مُثَقَّلَةً وَاحِدُهَا عَرُوبٌ مِثْلُ صَبُورٍ وَصُبُرٍ يُسَمِّيهَا أَهْلُ مَكَّةِ الْعَرِبَةَ وَأَهْلُ الْمَدِينَةِ الْغَنِجَةَ وَأَهْلُ الْعِرَاقِ الشَّكِلَةَ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ رَوْحِ سورة يوسف آية 87 جَنَّةٌ وَرَخَاءٌ وَالرَّيْحَانُ سورة الرحمن آية 12 الرِّزْقُ وَالْمَنْضُودُ الْمَوْزُ وَالْمَخْضُودُ الْمُوقَرُ حَمْلًا، وَيُقَالُ: أَيْضًا لَا شَوْكَ لَهُ وَالْعُرُبُ الْمُحَبَّبَاتُ إِلَى أَزْوَاجِهِنَّ، وَيُقَالُ: مَسْكُوبٌ جَارٍ وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ سورة الواقعة آية 34 بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ لَغْوًا سورة مريم آية 62 بَاطِلًا تَأْثِيمًا سورة الواقعة آية 25 كَذِبًا أَفْنَانٌ أَغْصَانٌ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ سورة الرحمن آية 54 مَا يُجْتَنَى قَرِيبٌ مُدْهَامَّتَانِ سورة الرحمن آية 64 سَوْدَاوَانِ مِنَ الرِّيِّ.
ابوالعالیہ نے کہا (سورۃ البقرہ میں) جو لفظ «مطهرة» آیا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ جنت کی حوریں حیض اور پیشاب اور تھوک اور سب گندگیوں سے پاک صاف ہوں گی اور جو یہ آیا ہے «كلما رزقوا منها من ثمرة رزقا» آخر آیت تک اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ان کے پاس ایک میوہ لایا جائے گا پھر دوسرا میوہ تو جنتی کہیں گے یہ تو وہی میوہ ہے جو ہم کو پہلے مل چکا ہے۔ «متشابها» کے معنی صورت اور رنگ میں ملے جلے ہوں گے لیکن مزے میں جدا جدا ہوں گے (سورۃ الحاقہ میں) جو لفظ «قطوفها دانية» آیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بہشت کے میوے ایسے نزدیک ہوں گے کہ بہشتی لوگ کھڑے بیٹھے جس طرح چاہیں ان کو توڑ سکیں گے۔ «دانية» کا معنی نزدیک کے ہیں، «أرائك» کے معنی تخت کے ہیں، امام حسن بصریٰ نے کہا لفظ «نضرة منه» کی تازگی کو اور سرور دل کی خوشی کو کہتے ہیں۔ اور مجاہد نے کہا «سلسبيلا» کے معنی تیز بہنے والی، اور لفظ «غول» کے معنی پیٹ کے درد کے ہیں۔ «ينزفون» کے معنی یہ کہ ان کی عقل میں فتور نہیں آئے گا۔ جیسا کہ دنیاوی شراب سے آ جاتا ہے) اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا (سورۃ نبا میں) جو «دهاقا» کا لفظ آیا ہے اس کے معنی لبالب بھرے ہوئے کہ ہیں۔ لفظ «كواعب» کے معنی پستان اٹھے ہوئے کے ہیں، لفظ «رحيق» کے معنی جنت کی شراب، «تسنيم» وہ عرق جو بہشتیوں کی شراب کے اوپر ڈالا جائے گا۔ بہشتی اس کو پئیں گے اور لفظ «ختام»(سورۃ المطففین میں) کے معنی مہر کی مٹی (جس سے وہاں کی شراب کی بوتلوں پر مہر لگی ہوئی ہو گی۔ «نضاختان»(سورۃ الرحمن میں) دو جوش مارتے ہوئے چشمے، لفظ «موضونة»(سورۃ الواقعہ میں) کا معنی جڑاو بنا ہوا، اسی سے لفظ «وضين الناقة.» نکلا ہے۔ یعنی اونٹنی کی جھول وہ بھی بنی ہوئی ہوتی ہے اور لفظ «كوب» کا معنی جس کی جمع «اكواب»(سورۃ الواقعہ میں) ہے، کوزہ جس میں نہ کان ہو نہ کنڈا اور لفظ «لأباريق» «ابريق» کی جمع وہ کوزہ جو کان اور کنڈہ رکھتا ہو۔ اور لفظ «عربا»(سورۃ الواقعہ میں) «عروب» کی جمع ہے جیسے «صبور» کی جمع «صبر» آتی ہے۔ مکہ والے «عروب» کو «عربة» اور مدینہ والے «غنجة» اور عراق والے «شكلة.» کہتے ہیں۔ ان سب سے وہ عورت مراد ہے جو اپنے خاوند کی عاشق ہو۔ اور مجاہد نے کہا لفظ «روح.»(سورۃ الواقعہ میں ہے) کا معنی بہشت اور فراخی رزق کے ہیں۔ «ريحان.» کا معنی (جو اسی سورۃ میں ہے) رزق کے ہیں اور لفظ «منضود»(سورۃ الواقعہ) کا معنی کیلے کے ہیں۔ «مخضود» وہ بیر جس میں کانٹا نہ ہو۔ میوے کے بوجھ سے لٹکا ہوا ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ لفظ عرب (جو سورۃ الواقعہ میں ہے) اس کے معنی وہ عورتیں جو اپنے خاوند کی محبوبہ ہوں، «مسكوب» کا معنی (جو اسی سورۃ میں ہے) بہتا ہوا پانی۔ اور لفظ «وفرش مرفوعة»(سورۃ الواقعہ) کا معنی بچھونے اونچے یعنی اوپر تلے بچھے ہوئے، لفظ «لغوا» جو اسی سورۃ میں ہے۔ اس کے معنی غلط جھوٹ کے ہیں۔ لفظ «تأثيما» جو اسی سورۃ میں ہے اس کا معنی بھی جھوٹ کے ہیں۔ لفظ «أفنان» جو سورۃ الرحمن میں ہے۔ اس کے معنی شاخیں ڈالیاں اور «وجنى الجنتين دان» کا معنی بہت تازگی اور شاداب کی وجہ سے وہ کالے ہو رہے ہوں گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: Q3240]
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب کوئی شخص مرتا ہے تو (روزانہ) صبح و شام دونوں وقت اس کا ٹھکانا (جہاں وہ آخرت میں رہے گا) اسے دکھلایا جاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت میں اگر وہ دوزخی ہے تو دوزخ میں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3240]
أحدكم إذا مات عرض عليه مقعده بالغداة والعشي إن كان من أهل الجنة فمن أهل الجنة وإن كان من أهل النار فمن أهل النار فيقال هذا مقعدك حتى يبعثك الله يوم القيامة
أحدكم إذا مات عرض عليه مقعده بالغداة والعشي إن كان من أهل الجنة فمن أهل الجنة وإن كان من أهل النار فمن أهل النار يقال هذا مقعدك حتى يبعثك الله إليه يوم القيامة
إذا مات الميت عرض عليه مقعده بالغداة والعشي فإن كان من أهل الجنة فمن أهل الجنة وإن كان من أهل النار فمن أهل النار ثم يقال هذا مقعدك حتى يبعثك الله يوم القيامة
إذا مات أحدكم عرض على مقعده بالغداة والعشي إن كان من أهل الجنة فمن أهل الجنة وإن كان من أهل النار فمن أهل النار فيقال هذا مقعدك حتى يبعثك الله يوم القيامة
أحدكم إذا مات عرض عليه مقعده بالغداة والعشي إن كان من أهل الجنة فمن الجنة وإن كان من أهل النار فمن النار فيقال هذا مقعدك حتى يبعثك الله إليه يوم القيامة
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3240
حدیث حاشیہ: حافظ ابن حجر ؓ فرماتے ہیں کہ یہ واضح تر دلیل ہے کہ جنت و دوزخ اس وقت موجود ہیں اور وہ ان کے اہل کو روزانہ دکھلائی جاتی ہیں، پورا دخول قیامت کے دن ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3240
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3240
حدیث حاشیہ: 1۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: مذکورہ حدیث واضح دلیل ہے کہ جنت اور دوزخ اس وقت موجود ہیں اور وہ ان کے اہل کو روزانہ صبح و شام دکھائی جاتی ہیں۔ جنت اور جہنم میں مکمل داخلہ تو قیامت کے دن حساب کے بعد ہوگا۔ ایک روایت میں ہے: یہاں تک کہ اسے قیامت کے دن اٹھایا جائے گا۔ (فتح الباري: 389/6) 2۔ فرعون اور آل فرعون کے متعلق قرآن کریم کی صراحت ہے: ”وہ صبح وشام آگ پر پیش کیے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی تو حکم ہوگا کہ آل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کرو۔ “(المؤمن: 40/46)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3240
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 225
´عذاب قبر حق ہے` «. . . 207- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إن أحدكم إذا مات عرض عليه مقعده بالغداة والعشي، إن كان من أهل الجنة فمن أهل الجنة، وإن كان من أهل النار فمن أهل النار، يقال له: هذا مقعدك حتى يبعثك الله إليه يوم القيامة.“ . . .» ”. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو اسے صبح و شام اس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے، اگر وہ جنتیوں میں سے تھا تو اسے جنت کا ٹھکانا اور اگر وہ جہنمیوں میں سے تھا تو اسے جہنم کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے: جب اللہ قیامت کے دن تجھے دوبارہ اٹھائے گا تو یہ تیرا ٹھکانا ہو گا . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 225]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1379، ومسلم 2866، دارلسلام 7211 من حديث مالك به] تفقه: ① عذاب قبر اور ثوابِ قبر برحق ہے۔ ② دونوں ٹھکانے دکھائے جانے میں مومن کے لئے رحمت ونعمت اور کافر و منافق اور گناہگار کے لئے عذاب ہے۔ ③ جسم اگر فنا بھی ہو جائے لیکن روح فنا نہیں ہوتی۔ ④ اس حدیث میں دلیل ہے کہ جنت اور جہنم دونوں (پیدا شدہ) مخلوق ہیں جیسا کہ اہل سنت کا قول ہے۔ [التمهيد 14/105] جو اہل بدعت کہتے ہیں کہ ابھی جنت اور جہنم دونوں پیدا نہیں ہوئیں اور قیامت کے موقع پر پیدا کی جائیں گی، یہ قول غلط اور باطل ہے۔ ⑤ موت کے بعد برزخی زندگی اور قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جانا برحق ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 207
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2072
´قبر پر کھجور کی ٹہنی رکھنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو! جب تم میں سے کوئی مر جاتا ہے تو اس پر صبح و شام اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے، اگر جنتی ہے تو جنت میں کا، اور اگر جہنمی ہے تو جہنم میں کا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے روز اٹھائے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2072]
اردو حاشہ: ابن عمر رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کی باب سے مناسبت واضح نہیں کیونکہ اس میں چھڑیوں کے قبر پر رکھنے کا ذکر نہیں۔ ممکن ہے نساخ سے ترجمۃ الباب ساقط ہوگیا ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں اس حدیث پر یہ باب باندھا ہے: [باب: المیت یعرض علیه مقعدہ بالغداة والعشي]”میت پر اس کا (ابدی) ٹھکانا صبح شام پیش کیا جاتا ہے۔“
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2072
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2073
´قبر پر کھجور کی ٹہنی رکھنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو اس پر صبح و شام اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے، چنانچہ اگر وہ جہنمی ہے تو جہنمیوں (کے ٹھکانوں) میں سے (پیش کیا جائے گا)، اور کہا جاتا ہے: یہ ہے تمہارا ٹھکانا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے روز اٹھائے۔“[سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2073]
اردو حاشہ: یہ بات ہر جنتی اور جہنمی میت سے کہی جاتی ہے۔ یہاں صرف جہنمی کا ذکر ہے۔ یہ غالباً کسی راوی کا اختصار ہے، ورنہ دوسری روایات میں اہل جنت اور اہل نار دونوں کا ذکر ہے۔ اس حدیث کی بھی باب سے مناسبت واضح نہیں ہے کیونکہ اس میں بھی چھڑیاں رکھنے کا ذکر مفقود ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2073
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2074
´قبر پر کھجور کی ٹہنی رکھنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو اس کا ٹھکانا اس پر صبح و شام پیش کیا جاتا ہے، اگر وہ جنتی ہے تو جنتیوں (کے ٹھکانوں) میں سے، اور اگر جہنمی ہے تو جہنمیوں (کے ٹھکانوں) میں سے، (اور اس سے) کہا جاتا ہے: یہ تمہارا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ اللہ عزوجل تمہیں قیامت کے روز اٹھائے۔“[سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2074]
اردو حاشہ: ”یہ تیرا ٹھکانا ہے“ اشارہ اصل ٹھکانے کی طرف ہے، یعنی تیرا اصل ٹھکانا تو یہی ہے (جو پیش کیا جاتا ہے) مگر فی الحال تو اس میں نہیں جا سکتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2074
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4270
´قبر اور مردے کے گل سڑ جانے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مر جاتا ہے، تو اس کے سامنے اس کا ٹھکانا صبح و شام پیش کیا جاتا ہے، اگر اہل جنت میں سے تھا تو اہل جنت کا ٹھکانا، اور اگر جہنمی تھا تو جہنمیوں کا ٹھکانا، اور کہا جائے گا کہ یہ تمہارا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4270]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) قبر کے ساتھ جنت اور جہنم کا جوتعلق قائم رہتا ہے۔ اس کی وجہ سے مرنے والے کو جنت یا جہنم کی ہوا مسلسل آتی رہتی ہے۔ اور ایک حد تک راحت یاعذاب بھی مسلسل ہوتا ہے لیکن دن رات میں دودفعہ اسے جنت یا جہنم میں موجود اس کا گھر بھی دیکھایا جاتا ہے۔ تاکہ اس کی خوشی یا رنج میں مزید اضافہ ہو۔
(2) یہ تیرا ٹھکانہ ہے اس میں اشارہ قبر کی طرف ہے۔ یعنی تو اس قبر میں رہے گا حتیٰ کہ قیامت آئے اور تو اس ٹھکانے پر پہنچے جو تجھے دیکھایا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے اشارہ اسی ابدی ٹھکانے کی طرف ہو جو اسے دیکھایا جاتا ہے۔ یعنی اسے قیامت تک جنت یا جہنم کا وہ مقام روزانہ دکھایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ قیامت کے دن تو اس مقام پر پہنچے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4270
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1072
´عذاب قبر کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی مرتا ہے تو اس پر صبح و شام اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے، اگر وہ جنتیوں میں سے ہے تو جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھتا ہے اور اگر وہ جہنمیوں میں سے ہے تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا دیکھتا ہے، پھر اس سے کہا جاتا ہے: یہ تیرا ٹھکانا ہے، یہاں تک کہ اللہ تجھے قیامت کے دن اٹھائے۔“[سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1072]
اردو حاشہ: وضاحت: 1 ؎: اس طرح کی مزید صحیح احادیث میں منکرین عذابِ قبر کا پورا پورا رد پایا جاتا ہے، اگر ایسے لوگ عالم برزخ کے احوال کو اپنی عقل پر پرکھیں اور اپنی عقلوں کو ہی دین کا معیار بنائیں تو پھر شریعتِ مطہرہ میں ایمانیات کے تعلق سے کتنے ہی ایسے بیسیوں مسائل ہیں کہ جن کا ادراک انسانی عقل کر ہی نہیں سکتی تو پھر کیا قرآن وسنت اور سلف صالحین کی وہی راہ تھی جو ”اس طرح کی عقل والوں“ نے اختیارکی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1072
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7211
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم میں سے کوئی جب مرجاتا ہے تو ہر صبح و شام اس کے سامنے اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے۔ اگر وہ جنتیوں میں سے ہے تو جنتیوں کے مقام سے اور اگر دوزخیوں میں سے ہے تو دوزخیوں کے مقام سے اور کہا جاتا ہے یہ تیرا ہونے والا ٹھکانا ہے حتی کہ قیامت کے دن اللہ تجھے اس کی طرف اٹھائے گا۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7211]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: قبر میں صبح و شام (روزانہ) جنتیوں کو اپنا مقام دیکھ کر، جو مسرت و شادمانی حاصل ہوگی اور دوزخیوں کو اپنی جگہ دیکھ کر جو رنج و کلفت ہو گی، اس کا اس دنیا میں کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا اور نہ اس کی کیفیت کو جاننا ہمارے لیے ممکن ہے، کیونکہ اس کا تعلق ایک ایسے جہاں (برزخ) سے ہے، جس کا مشاہدہ ہم نے نہیں کیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7211
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1379
1379. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جب تم میں سے کوئی مرجاتا ہے تو ہر صبح اور شام اسے اس کاٹھکانہ دیکھا دیاجاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت میں اوراگر دوزخی ہے تو جہنم میں۔ پھر اسے کہا جاتا ہے کہ یہی تیرا مقام ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تجھے اٹھائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1379]
حدیث حاشیہ: مطلب یہ ہے کہ اگر جنتی ہے تو صبح وشام اس پر جنت پیش کرکے اس کو تسلی دی جاتی ہے کہ جب تو اس قبر سے اٹھے گا تو تیرا آخری ٹھکانا یہ جنت ہوگی اور اسی طرح دوزخی کو دوزخ دکھلائی جاتی ہے کہ وہ اپنے آخری انجام پر آگاہ رہے۔ ممکن ہے کہ یہ عرض کرنا صرف روح پر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ روح اور جسم ہردو پر ہو۔ صبح اور شام سے ان کے اوقات مراد ہیں جب کہ عالم برزخ میں ان کے لیے نہ صبح کا وجود ہے نہ شام کا ویحتمل أن یقال إن فائدة العرض في حقهم تبشیر أرواحهم باستقرار هافي الجنة مقترنة بأجسادها (فتح) یعنی اس پیش کرنے کا فائدہ مومن کے لیے ان کے حق میں ان کی روحوں کو یہ بشارت دینا ہے کہ ان کا آخری مقام قرار ان کے جسموں سمیت جنت ہے۔ اسی طرح دوزخیوں کو ڈرانا کہ ان کا آخری ٹھکانا ان کے جسموں سمیت دوزخ ہے۔ قبرمیں عذاب وثواب کی صورت یہ بھی ہے کہ جنتی کے لیے جنت کی طرف ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے جس سے اس کو جنت کی تروتازگی حاصل ہوتی رہتی ہے اور دوزخی کے لیے دوزخ کی طرف ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے جس سے اس کو دوزخ کی گرم گرم ہوائیں پہنچتی رہتی ہیں۔ صبح وشام ان ہی کھڑکیوں سے ان کو جنت ودوزخ کے کامل نظارے کرائے جاتے ہیں۔ یا اللہ! اپنے فضل وکرم سے ناشر بخاری شریف مترجم اردو کو اس کے والدین واساتذہ وجملہ معاونین کرام وشائقین عظام کو قبر میں جنت کی طرف سے تروتازگی نصیب فرمائیو اور قیامت کے دن جنت میں داخل فرمائیو اور دوزخ سے ہم سب کو محفوظ رکھیو۔ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1379
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6515
6515. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو صبح وشام اس کا ٹھکانا اسے دکھایا جاتا ہے دوزخ یا جنت۔ پھر اسے کہا جاتا ہے: یہ تیرے رہنےکی جگہ ہے یہاں تک کہ تو اس کی طرف اٹھایا جائے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6515]
حدیث حاشیہ: موت کی سختیوں میں سے ایک سختی یہ بھی ہے کہ اسے صبح وشام اس کا ٹھکانا بتلا کر اسے رنج دیا جاتا ہے۔ البتہ نیک بندوں کے لئے خوشی ہے کہ وہ جنت کی بشارت پاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6515
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1379
1379. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جب تم میں سے کوئی مرجاتا ہے تو ہر صبح اور شام اسے اس کاٹھکانہ دیکھا دیاجاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت میں اوراگر دوزخی ہے تو جہنم میں۔ پھر اسے کہا جاتا ہے کہ یہی تیرا مقام ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تجھے اٹھائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1379]
حدیث حاشیہ: (1) صبح اور شام سے مراد حقیقت کے اعتبار سے صبح و شام نہیں ہیں کیونکہ عالم برزخ میں صبح اور شام کا کوئی تصور نہیں بلکہ اس کے معنی ہمارے اعتبار سے صبح و شام کا وقت ہیں۔ اور اس پیشی کا فائدہ اہل ایمان کی روحوں کو بشارت دینا ہے کہ ان کا آخری ٹھکانہ ان کے جسموں سمیت جنت اور اس کی بہاریں ہے اور دوزخیوں کو ڈرانا مقصود ہے کہ ان کا آخری ٹھکانہ ان کے جسموں سمیت دوزخ ہے۔ (فتح الباري: 308/3)(2) قبر میں عذاب و ثواب کی صورت یہ ہو گی کہ جنتی کے لیے جنت کی طرف سے ایک کھڑکی کھول دی جائے گی جس سے جنت کی تروتازگی اسے ملتی رہے گی اور دوزخ کے لیے جہنم کی طرف سے ایک کھڑکی کھول دی جائے گی جس سے جہنم کی گرم گرم ہوائیں اسے جھلساتی رہیں گی۔ ممکن ہے یہ پیشی اس کی روح پر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ جسم اور روح دونوں پر ہو۔ والله أعلم۔ اے رب کریم! اپنے فضل و کرم سے مترجم و ناشر اور نظرثانی کرنے والوں، نیز ان کے والدین و معاونین اور جملہ قارئین کو قبر میں سوال و جواب کے وقت ثابت قدمی عطا فرما اور انہیں جنت کی طرف سے تروتازگی سے ہمکنار کر، پھر قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کی معیت میں جنت الفردوس میں ٹھکانہ عنایت فرما۔ آمين يا رب العالمين
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1379
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6515
6515. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو صبح وشام اس کا ٹھکانا اسے دکھایا جاتا ہے دوزخ یا جنت۔ پھر اسے کہا جاتا ہے: یہ تیرے رہنےکی جگہ ہے یہاں تک کہ تو اس کی طرف اٹھایا جائے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6515]
حدیث حاشیہ: مومن اور کافر دونوں کو جنت اور دوزخ دکھائے جاتے ہیں۔ وہ قبر میں دونوں کو بیک وقت دیکھتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ مومن انتہائی خوش ہوتا ہے اور کافر انتہائی غمناک۔ موت کی سختیوں میں ایک سختی یہ بھی ہے کہ اسے صبح و شام اس کا ٹھکانا دکھا کر اسے رنج و الم سے دوچار کیا جاتا ہے، البتہ نیک بندے کے لیے خوشی ہوتی ہے کہ وہ جنت کی بشارت پاتا ہے۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6515