الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
7. بَابُ إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ آمِينَ. وَالْمَلاَئِكَةُ فِي السَّمَاءِ، فَوَافَقَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ:
7. باب: اس حدیث کے بیان میں کہ جب ایک تمہارا (جہری نماز میں سورۃ فاتحہ کے ختم پر باآواز بلند) آمین کہتا ہے تو فرشتے بھی آسمان پر (زور سے) آمین کہتے ہیں اور اس طرح دونوں کی زبان سے ایک ساتھ (با آواز بلند) آمین نکلتی ہے تو بندے کے گزرے ہوئے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
حدیث نمبر: 3224
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا مَخْلَدٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّ نَافِعًا حَدَّثَهُ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَدَّثَهُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: حَشَوْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِسَادَةً فِيهَا تَمَاثِيلُ كَأَنَّهَا نُمْرُقَةٌ فَجَاءَ، فَقَامَ بَيْنَ الْبَابَيْنِ وَجَعَلَ يَتَغَيَّرُ وَجْهُهُ، فَقُلْتُ: مَا لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" مَا بَالُ هَذِهِ الْوِسَادَةِ، قَالَتْ: وِسَادَةٌ جَعَلْتُهَا لَكَ لِتَضْطَجِعَ عَلَيْهَا، قَالَ: أَمَا عَلِمْتِ أَنَّ الْمَلَائِكَةَ لَا تَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ وَأَنَّ مَنْ صَنَعَ الصُّورَةَ يُعَذَّبُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُولُ: أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہیں اسماعیل بن امیہ نے، ان سے نافع نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک تکیہ بھرا، جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ وہ ایسا ہو گیا جیسے نقشی تکیہ ہوتا ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور آپ کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم سے کیا غلطی ہوئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تکیہ کیسا ہے؟ میں نے عرض کیا، یہ تو میں نے آپ کے لیے بنایا ہے تاکہ آپ اس پر ٹیک لگا سکیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر ہوتی ہے اور یہ کہ جو شخص بھی تصویر بنائے گا، قیامت کے دن اسے اس پر عذاب دیا جائے گا۔ اس سے کہا جائے گا کہ جس کی مورت تو نے بنائی، اب اسے زندہ بھی کر کے دکھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3224]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريأصحاب هذه الصور يعذبون يوم القيامة يقال لهم أحيوا ما خلقتم الملائكة لا تدخل بيتا فيه الصورة
   صحيح البخاريلا تدخل بيتا فيه صورة من صنع الصورة يعذب يوم القيامة يقول أحيوا ما خلقتم
   صحيح البخاريالبيت الذي فيه الصور لا تدخله الملائكة
   صحيح البخاريالبيت الذي فيه الصور لا تدخله الملائكة
   صحيح مسلملا ندخل بيتا فيه كلب ولا صورة
   سنن ابن ماجهلا ندخل بيتا فيه كلب ولا صورة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسمإن اصحاب هذه الصور يوم القيامة يعذبون بها، يقال لهم: احيوا ما خلقت

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3224 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3224  
حدیث حاشیہ:
جانداروں کی صورت بنانا اس سے ناجائز ہونا ثابت ہوا اور یہی ٹھیک ہے اور فرشتوں کا وجود بھی ثابت ہوا اور یہ بھی کہ وہ نیکی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور بدی دیکھ کر ناخوش ہوتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3224   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 589  
´تصویر کی حرمت کا بیان`
«. . . 260- مالك عن نافع عن القاسم بن محمد عن عائشة أم المؤمنين أنها اشترت نمرقة فيها تصاوير. فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم قام على الباب فلم يدخل، فعرفت فى وجهه الكراهية وقالت: يا رسول الله، أتوب إلى الله ورسوله، فماذا أذنبت؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما بال هذه النمرقة؟ قالت: اشتريتها لك تقعد عليها وتتوسدها. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن أصحاب هذه الصور يوم القيامة يعذبون بها، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم، ثم قال: إن البيت الذى فيه الصور لا تدخله الملائكة. . . .»
. . . ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک تکیہ نما چھوٹا کمبل خریدا جس پر تصویریں تھیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور اندر تشریف نہ لائے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناپسندیدگی کے اثرات دیکھے اور کہا: یا رسول اللہ! میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرتی ہوں، مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نمرقہ (چھوٹا تکیہ) کیا ہے؟ میں نے کہا: میں نے اسے آپ کے لیے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور تکیہ لگائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان تصویر والوں کو قیامت کے دن عذاب ہو گا، انہیں کہا جائے گا کہ تم نے جو بنایا ہے اسے زندہ کرو۔، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس گھر میں تصویریں ہوں وہاں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 589]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاي 2105، ومسلم 2107/96، من حديث مالك به وفي روايته يحي بن يحي: «وتوسدها» ]
تفقہ:
➊ کپڑا ہو یا کاغذ وغیرہ، جانداروں کی تصاویر بنانا حرام ہے۔
➋ کتاب و سنت کے خلاف کاموں پر غصہ کرنا جائز ہے۔
➌ جس گھر میں تصویریں ہوں وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
➍ اگر لاعملی میں غلطی ہوجائے تو معاف ہے لیکن صاحبِ علم کو چاہئے کہ اس شخص کو جو انجانے میں غلطی کر رہا ہے دلیل سے سمجھا دے۔
➎ نیز دیکھئے ح 125
➏ جن کپڑوں پر جانداروں کی تصویریں ہوں ان کا استعمال حرام ہے۔
➐ جس کپڑے پر تصویریں تھیں اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھاڑ دیا تھا۔ دیکھئے صحیح بخاری (2479) [وصحيح مسلم 2107]
➑ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے۔ پھر وہاں ایک پردہ لٹکا ہوا دیکھ کر واپس چلے گئے [مسند أحمد 221، 220/5 ح 21922 و سنده حسن، سنن ابي داود: 3755 وصححه ابن حبان مختصرا: 6320 و الحاكم 186/1 ح 2758 ووافقه الذهبي، نيز ديكهئے صحيح بخاري: 2613]
➒ ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدنا ابومسعود عقبہ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ نے اس گھر میں دعوت کھانے سے انکار کردیا تھا جہاں تصویر لگی ہوئی تھی۔ دیکھئے [السنن الكبريٰ للبيهقي 7/368 وسنده حسن وصححه الحافظ ابن حجر رحمه الله فى فتح الباري 9/249 قبل ح5181]
➓ تمام امور میں الله اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور یہ اہل حق کا امتیاز ہے۔
◈ اگر شوہر کی اجازت ہو تو بیوی شرعی حدود اور پردے کے احکام کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خرید وفروخت کرسکتی ہے۔
◈ بیوی اپنے مال میں شوہر کی اجازت کے بغیر اور شوہر کے مال میں اس کی اجازت کے ساتھ تصرف کرسکتی ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 260   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3651  
´گھر میں تصاویر رکھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسے وقت میں آنے کا وعدہ کیا جس میں وہ آیا کرتے تھے، لیکن آنے میں دیر کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے، دیکھا تو جبرائیل علیہ السلام دروازے پر کھڑے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: آپ کو اندر آنے سے کس چیز نے باز رکھا؟ فرمایا: گھر میں کتا ہے، اور ہم لوگ ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتے اور تصویریں ہوں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3651]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت جبرئیل ؑ وعدے کے مطابق تشریف لے آئے تھے لیکن گھر کے اندر تشریف نہ لا سکے۔

(2)
رسول اللہ ﷺ کو علم غیب حاصل نہ تھا ورنہ پہلے ہی کتے کو نکال دیتے اور جبرئیل ؑ کو باہر انتظار نہ کرنا پڑتا۔

(3)
گھروں میں بزرگوں یا بچوں کی تصویریں فریم کر کے سجانا یا محض سجاوٹ کے لیے انسانوں اور حیوانوں کی تصویریں رکھنا یا ٹیلی ویژن اور وی سی آر میں فلمیں دیکھنا گھر سے رحمت و برکت ختم ہو جانے کا باعث ہے لہٰذا ایسی چیزوں سے اجتناب لازم ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3651   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2105  
2105. اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے ایک ایسا تکیہ خریدا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہوگئے اندر تشریف نہ لائے۔ میں نے آپ کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھے تو عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میں اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کرتی ہوں، مجھ سے کیا گناہ سر زد ہوا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "یہ تکیہ کیسا ہے؟"میں نے عرض کیا: میں نے یہ آپ کے لیے خریدکیا ہے تاکہ آپ اس پر ٹیک لگا کر بیٹھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "یہ تصویریں بنانے والے قیامت کے دن عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا: جو صورتیں تم نے بنائی ہیں انھیں زندہ کرو۔ " نیز آپ نے فرمایا: "جس گھر میں تصویریں ہوں اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2105]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
اس حدیث سے صاف نکلتا ہے کہ جاندار کی مورت بنانا مطلقاً حرام ہے، نقشی ہو یا مجسم۔
اس لیے کہ تکئے پر نقشی صورتیں بنی ہوئی تھیں۔
اور باب کا مطلب اس حدیث سے اس طرح نکلتا ہے کہ باوجود یکہ آپ نے مورت دار کپڑا عورت مرد دونوں کے لیے مکروہ رکھا مگر اس کا خریدنا جائز سمجھا۔
اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ حکم نہیں دیا کہ بیع کو فسخ کریں۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2105   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5181  
5181. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ انہوں نے ایک چھوٹا سا تصویروں والا قالین خریدا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اسے (گھر میں لٹکتے) دیکھا تو دروازے ہی پر کھڑے ہو گئے اور اندر نہ گئے مجھے آپ کے چہرہ انور پر کراہت کے آثار محسوس ہوئے تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اللہ اور اس کے رسول کے حضور توبہ کرتی ہوں! میں نے کون سا گناہ کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ قالین کیساہے؟ میں نے عرض کی: یہ تو میں نے آپ کے لیے خریدا ہے تا کہ کبھی آپ اس کو بچھا کر بیٹھیں اور کبھی اسکا تکیہ بنالیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ تصویریں بنانے والے قیامت کے دن عذاب دیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا۔ جو تم نے بنایا ہے اس میں روح ڈالو اور اسے زندہ کرو۔ پھر فرمایا: جس گھر میں یہ تصویریں ہوں وہاں رحمت کے فرشتے یقیناً نہیں آتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5181]
حدیث حاشیہ:
بے جان چیزوں کی تصویریں اس سے مستثنیٰ ہیں۔
فتح الباری میں ہے کہ جس دعوت میں حرام کام ہوتا ہو تو اگر اس کے دور کرنے پر قادر ہو تو اس کو دور کر دے ورنہ لوٹ کر چلا جائے، کھانا نہ کھائے اور طبرانی نے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ فاسقوں کی دعوت قبول کرنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔
مثلاً وہ لوگ شراب پیتے ہوں یا فاحشہ عورتوں کا ناچ رنگ ہو رہا ہو تو اس دعوت میں شرکت نہ کرنا بہتر ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاری کا یہ کمال ورع تھا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مکان میں دیوار پر کپڑا دیکھ کر اس میں بیٹھنا اور کھانا گوارا نہ کیا۔
قسطلانی نے کہا کہ جمہور شافعیہ اس کی کراہت کے قائل ہیں کیونکہ اگر حرام ہوتا تو دوسرے صحابہ بھی وہاں نہ بیٹھتے نہ کھانا کھاتے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرے صحابہ کو حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی رائے سے اتفاق نہ ہو اگر حضرت ابو ایوب آج کی بدعات کو دیکھتے تو کیا کہتے، جبکہ بیشتر اہل بدعت نے قبروں اور مزاروں پر اس قدر زیب و زینت کر رکھی ہے کہ بت خانوں کو بھی مات کر رکھا ہے ایک مقام پر ایک بزرگ اجالا شاہ نامی کا مزار ہے جہاں صبح اجالا ہوتے ہی روزانہ کمخواب کی ایک نئی چادر چڑھائی جاتی ہے اس پر مٹھائی کی ٹوکری ہوتی ہے اور صندل سے ان کی قبر کو لیپا جاتا ہے۔
صد افسوس کہ ایسی حرکتوں کو عین اسلام سمجھا جاتا ہے اور اصلاح کے لئے کوئی کچھ کہہ دے تو اسے وہابی کہہ کر معیوب قرار دیا جاتا ہے اور اس سے سخت دشمنی کی جاتی ہے۔
اللہ پاک ایسے نام نہاد مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کر ے، آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5181   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2105  
2105. اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے ایک ایسا تکیہ خریدا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہوگئے اندر تشریف نہ لائے۔ میں نے آپ کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھے تو عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میں اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کرتی ہوں، مجھ سے کیا گناہ سر زد ہوا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "یہ تکیہ کیسا ہے؟"میں نے عرض کیا: میں نے یہ آپ کے لیے خریدکیا ہے تاکہ آپ اس پر ٹیک لگا کر بیٹھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "یہ تصویریں بنانے والے قیامت کے دن عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا: جو صورتیں تم نے بنائی ہیں انھیں زندہ کرو۔ " نیز آپ نے فرمایا: "جس گھر میں تصویریں ہوں اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2105]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں مکروہ چیز کی اس قسم کو بیان کیا گیا ہے جو مرد اور عورت دونوں کے لیے مکروہ ہے جبکہ پہلی حدیث میں اس مکروہ کا ذکر تھا جو صرف مردوں کے لیے ناجائز تھی۔
(2)
حدیث کی باب سے مطابقت اس طرح ہے کہ تصویر والا کپڑا مرد اور عورت دونوں کے لیے مکروہ ہے اس کے باوجود آپ نے اس کی خریدوفروخت کو برقرار رکھا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کو یہ حکم نہیں دیا کہ وہ اس بیع کو فسخ کردیں۔
(3)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تصویر کشی اور فوٹو گرافی ہر قسم کی حرام ہے،خواہ عکس ہویا مجسم،دیوار پر بنائی جائے یا کپڑے پر نقش ہو۔
حدیث میں مذکور وعید صرف بنانے والے ہی کے لیے نہیں بلکہ استعمال کرنے والے کو بھی شامل ہے۔
الغرض حدیث ابن عمر عنوان کے ایک جز پر دلالت کرتی ہے،یعنی اس چیز کی خریدوفروخت جائز ہے جسے مرد حضرات استعمال نہیں کرسکتے اور حدیث عائشہ عنوان کے تمام اجزاء پر دلالت کرتی ہے،اس لیے کہ تصویر والے کپڑے کا استعمال مرد اور عورت دونوں کے لیے منع ہے،اس کے باوجود اس کی خریدوفروخت کو جائز قرار دیا گیا ہے کیونکہ تصویروں کو ختم کرکے اسے بھی استعمال کرنا درست ہے۔
والله اعلم.w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2105   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5181  
5181. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ انہوں نے ایک چھوٹا سا تصویروں والا قالین خریدا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اسے (گھر میں لٹکتے) دیکھا تو دروازے ہی پر کھڑے ہو گئے اور اندر نہ گئے مجھے آپ کے چہرہ انور پر کراہت کے آثار محسوس ہوئے تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اللہ اور اس کے رسول کے حضور توبہ کرتی ہوں! میں نے کون سا گناہ کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ قالین کیساہے؟ میں نے عرض کی: یہ تو میں نے آپ کے لیے خریدا ہے تا کہ کبھی آپ اس کو بچھا کر بیٹھیں اور کبھی اسکا تکیہ بنالیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ تصویریں بنانے والے قیامت کے دن عذاب دیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا۔ جو تم نے بنایا ہے اس میں روح ڈالو اور اسے زندہ کرو۔ پھر فرمایا: جس گھر میں یہ تصویریں ہوں وہاں رحمت کے فرشتے یقیناً نہیں آتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5181]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اس لیے داخل نہ ہوئے کہ اس میں تصاویر تھیں اور یہ ان منکرات شرعیہ میں سے ہے جن کے ہوتے ہوئے وہاں جانا منع ہے کیونکہ تصاویر کی موجودگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور فرشتوں کے دخول کے لیے رکاوٹ کا باعث تھی، لہٰذا ایسی دعوت میں بھی شریک نہیں ہونا چاہیے جہاں خلاف شرع کام ہوں۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جس دعوت میں حرام کام ہوتا ہو اگر اس کے ازالے پر قادر ہو تو شریک ہو کر اسے دور کرے اگر اس کے ازالے پر قدرت نہ ہو تو واپس آ جائے اور کھانا نہ کھائے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاسقوں کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا ہے، (المعجم الکبیر للطبراني: 275/1، رقم: 444، طبع مکتبة المعارف)
مثلاً:
وہاں لوگ شراب پیتے ہوں یا فاحشہ عورتوں کا ناچ گانا ہو تو ایسی دعوت میں شرکت نہ کرنا بہتر ہے۔
(فتح الباري: 310/9)
لیکن یہ سب کچھ حاضری کے بعد ہے اور اگر حاضری سے پہلے ہی علم ہو جائے تو دعوت قبول ہی نہ کرے۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5181   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5957  
5957. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے ایک چھوٹا سا گدا خریدا جس تصویریں تھیں۔ نبی ﷺ (اسے دیکھ کر) دروازے ہی پر کھڑے رہے۔ اندر داخل نہ ہوئے۔ میں نے کہا: (اللہ کے رسول!) میں اللہ کے حضور اس غلطی سے توبہ کرتی ہوں جس کا میں نے ارتکاب کیا ہے آپ نے فرمایا: یہ گدا کس لیے ہے؟ میں نے عرض کی: یہ آپ کے بیٹھنے اور اس پر ٹیک لگانے کے لیے ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یقیناً اس قسم کی تصاویر بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا۔ جو تم نے بنایا تھا اسے زندہ کر کے دکھاؤ۔ اور جس میں تصویر ہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5957]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گدے پر بیٹھنا پسند نہیں کیا جس پر تصویریں تھیں جبکہ قبل ازیں حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تصویر والے پردے کو پھاڑ کر دو تکیے بنائے تھے جس پر آپ بیٹھا کرتے تھے۔
ان احادیث میں قطعاً کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ جب پردہ پھاڑ کر دو گدے بنائے گئے تو تصویریں بھی پھٹ گئیں اور وہ اپنی اصلی حالت میں نہ رہیں، اس لیے آپ ان پر بیٹھتے اور آرام فرماتے تھے اور بازار سے خریدے ہوئے گدے پر تصاویر جوں کی توں تھیں، اس لیے آپ نے ان پر بیٹھنا پسند نہیں فرمایا۔
جب تصویر اپنی صورت پر باقی ہو گی تو گھر میں فرشتوں کے داخل ہونے کے لیے رکاوٹ کا باعث ہے اور جب تصویر پھٹی ہو تو فرشتوں کے داخلے کے لیے مانع نہیں ہے۔
(2)
بہرحال تصویر ہر حال میں ممنوع ہے، خواہ اس کا سایہ ہو یا نہ ہو، وہ کپڑا بنتے وقت دھاگوں سے بنائی جائے یا نقش کی جائے دونوں صورتوں میں تصویر حرام اور ناجائز ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مذکورہ وعید بنانے والے اور استعمال کرنے والے دونوں کے لیے ہے کیونکہ تصویر استعمال کے لیے بنائی جاتی ہے، تصویر بنانے والا تو محض ایک سبب ہے اور اسے استعمال کرنے والا براہ راست اس سے استفادہ کرتا ہے۔
اگر بنانے والے کے لیے یہ وعید ہے تو استعمال کرنے والے کے لیے تو بالاولیٰ ہونی چاہیے۔
(فتح الباري: 478/10)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5957