مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے باپ (یزید بن شریک تیمی) نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے سامنے خطبہ دیا، جس میں فرمایا کہ کتاب اللہ اور اس ورق میں جو کچھ ہے، اس کے سوا اور کوئی کتاب (احکام شریعت کی) ایسی ہمارے پاس نہیں جسے ہم پڑھتے ہوں، پھر آپ نے فرمایا کہ اس میں زخموں کے قصاص کے احکام ہیں اور دیت میں دئیے جانے والے کی عمر کے احکام ہیں اور یہ کہ مدینہ حرم ہے عیر پہاڑی سے فلاں (احد پہاڑی) تک۔ اس لیے جس شخص نے کوئی نئی بات (شریعت کے اندر داخل کی) یا کسی ایسے شخص کو پناہ دی تو اس پر اللہ، ملائکہ اور انسان سب کی لعنت ہے، نہ اس کی کوئی فرض عبادت قبول ہو گی اور نہ نفل۔ اور یہ بیان ہے جو لونڈی غلام اپنے مالک کے سوا کسی دوسرے کو مالک بنائے اس پر بھی اس طرح (لعنت) ہے۔ اور مسلمان مسلمان سب برابر ہیں ہر ایک کا ذمہ یکساں ہے۔ پس جس شخص نے کسی مسلمان کی پناہ میں (جو کسی کافر کو دی گئی ہو) دخل اندازی کی تو اس پر بھی اسی طرح لعنت ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ/حدیث: 3172]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3172
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ حضرت علی ؓ بھی اسی مروجہ قرآن مجید کو پڑھتے تھے، سورتوں کی کچھ تقدیم و تاخیر اور بات ہے۔ اب جو کوئی یہ سمجھے کہ حضرت علی ؓ یا دوسرے اہل بیت کے پاس کوئی اور قرآن تھا جو کامل تھا اور مروجہ قرآن مجید ناقص ہے، اس پر بھی اللہ اور فرشتوں اور سارے انبیاءکرام ؑ کی طرف سے پھٹکار اور لعنت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3172
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3172
حدیث حاشیہ: 1۔ مطلب یہ ہے کہ جس نے کسی کو پناہ دی تو اس کی امان تمام مسلمانوں کی طرف سے سمجھی جائے گی۔ امان دینے والا بڑا ہو چھوٹا، آزاد ہو یا غلام مرد ہو یا عورت، کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کی دی ہوئی امان کو ختم کرسکے۔ عورت کی پناہ کا ذکر پہلی حدیث میں آچکاہے۔ غلام کی پناہ کو بھی جمہور علماء نے جائز قراردیا ہے، خواہ وہ لڑائی میں حصہ لے یا نہ لے۔ بچےکے متعلق جمہور کا اجماع ہے کہ اس کی پناہ کا کوئی اعتبار نہیں۔ اسی طرح دیوانے اورکافر کی پناہ بھی ناجائز ہے۔ (فتح الباري: 329/6) 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت علی ؓ کے پاس بھی یہی مروجہ قرآن مجید تھا۔ بعض لوگوں کا یہ موقف غلط ہے کہ حضرت علیؓ یا دوسرے اہل بیت کے پاس کوئی قرآن کامل تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3172