ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عمر بن محمد بن جبیر بن مطعم نے خبر دی کہ میرے باپ محمد بن جبیر نے کہا اور انہیں جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ کے ساتھ اور بھی صحابہ تھے۔ حنین کے جہاد سے واپسی ہو رہی تھی۔ راستے میں کچھ بدو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے (لوٹ کا مال) آپ سے مانگتے تھے۔ وہ آپ سے ایسا لپٹے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ببول کے درخت کی طرف دھکیل لے گئے۔ آپ کی چادر اس میں اٹک کر رہ گئی۔ اس وقت آپ ٹھہر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”(بھائیو) میری چادر تو دے دو۔ اگر میرے پاس ان کانٹے دار درختوں کی تعداد میں اونٹ ہوتے تو وہ بھی تم میں تقسیم کر دیتا۔ تم مجھے بخیل، جھوٹا اور بزدل ہرگز نہیں پاؤ گے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3148]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3148
حدیث حاشیہ: ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ امام کو اختیار ہے مال غنیمت جن لوگوں کو چاہے مصلحت کے مطابق تقسیم کرسکتا ہے۔ عینی نے کہا: ومطابقة للترجمة تستأنس من قوله لقسمه بینکم
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3148
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3148
حدیث حاشیہ: 1۔ اس وقت حالات کا تقاضا تھا کہ رسول اللہﷺ اپنی ذات شریفہ سے بخل کی نفی کرتے، پھر آپ نے فرمایا: میں بخل کی نفی کرنے میں جھوٹا نہیں ہوں۔ نیز میں تم سے ڈر کریہ نفی نہیں کر رہا۔ ان بری صفات کی نفی سے بربادی سخاوت اور شجاعت کو ثابت کرنا مقصود ہے جو اصول اخلاق میں سے ہیں۔ 2۔ امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے اور امام وقت کو اختیارہے کہ وہ مال غنیمت جن لوگوں کو چاہے مصلحت کی خاطر تقسیم کر سکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3148
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2821
2821. حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ چل رہے تھے اور آپ کے ساتھ اور لوگ بھی تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ غزوہ حنین سے واپس ہوئے۔ لوگوں نے آپ کوگھیر لیا وہ آپ سے کچھ مانگ رہے تھے حتیٰ کہ آپ کو مجبوراً ایک ببول کے درخت کے پاس جانا پڑا۔ وہاں آپ کی چادر مبارک اس کے کانٹوں سے الجھ گئی تو نبی کریم ﷺ نے کھڑے ہوکر فرمایا: ”میری چادر تو مجھے واپس کردو۔ اگر میرے پاس اس (درخت) کے کانٹوں کے برابر بھی اونٹ ہوتے تو میں سب کے سب تم میں تقسیم کردیتا۔ مجھے تو کسی وقت بھی بخیل، جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤ گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2821]
حدیث حاشیہ: یہ اس لیے فرمایا کہ بخیلی کے نتائج میں جھوٹ اور بزدلی اور سخاوت کے نتائج میں صداقت اور بہادری لازم ہیں‘ یہ جنگ حنین سے واپسی کا واقعہ ہے۔ مزید تفصیلات کتاب المغازی میں آئیں گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2821
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2821
2821. حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ چل رہے تھے اور آپ کے ساتھ اور لوگ بھی تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ غزوہ حنین سے واپس ہوئے۔ لوگوں نے آپ کوگھیر لیا وہ آپ سے کچھ مانگ رہے تھے حتیٰ کہ آپ کو مجبوراً ایک ببول کے درخت کے پاس جانا پڑا۔ وہاں آپ کی چادر مبارک اس کے کانٹوں سے الجھ گئی تو نبی کریم ﷺ نے کھڑے ہوکر فرمایا: ”میری چادر تو مجھے واپس کردو۔ اگر میرے پاس اس (درخت) کے کانٹوں کے برابر بھی اونٹ ہوتے تو میں سب کے سب تم میں تقسیم کردیتا۔ مجھے تو کسی وقت بھی بخیل، جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤ گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2821]
حدیث حاشیہ: 1۔ بخیل کذوب اور جبان مبالغے کے صیغے ہیں۔ جن سے جنس کی نفی کرنا مقصود ہے۔ 2۔ اس حدیث میں آپ ﷺکے اخلاق کریمانہ کا بیان ہے۔ اصول اخلاق تین ہیں حلم کرم اور شجاعت۔ اس میں بڑی عمدگی کے ساتھ ان تینوں کو بیان کیا گیا ہے عدم کذب سے قوت عقلیہ کے کمال کی طرف اشارہ ہے جو حکمت و دانائی سے عبارت ہے عدم بخل سے کمال قوت شہویہ کی طرف اشارہ فرمایا جو سخاوت ہے اور عدم جبن سے کمال قوت غضبیہ کی طرف اشارہ کیا جو شجاعت ہے۔ یہ تینوں صفات اعلیٰ اخلاق کی بنیاد ہیں بہر حال رسول اللہ ﷺ بہت بہادر انتہائی سخی اور بہت مدبر و بردبار تھے واضح رہے کہ مذکورہ واقعہ جنگ حنین کا ہے اور حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک راوی کا نام ہے۔ 3۔ مال طلب کرنے والے وہ نو مسلم تھے جو ابھی تک آپ کی صحبت سے فیض یاب نہیں ہوئے تھے ورنہ جنھیں آپ کی تربیت میں چند دن گزارنے کا موقع ملا وہ ادب و احترام کا پیکربن گئے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2821