ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا ‘ ان سے معمر نے ‘ ان سے ہمام بن منبہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے ایک نبی (یوشع علیہ السلام) نے غزوہ کرنے کا ارادہ کیا تو اپنی قوم سے کہا کہ میرے ساتھ کوئی ایسا شخص جس نے ابھی نئی شادی کی ہو اور بیوی کے ساتھ رات بھی نہ گزاری ہو اور وہ رات گزارنا چاہتا ہو اور وہ شخص جس نے گھر بنایا ہو اور ابھی اس کی چھت نہ رکھی ہو اور وہ شخص جس نے حاملہ بکری یا حاملہ اونٹنیاں خریدی ہوں اور اسے ان کے بچے جننے کا انتظار ہو تو (ایسے لوگوں میں سے کوئی بھی) ہمارے ساتھ جہاد میں نہ چلے۔ پھر انہوں نے جہاد کیا ‘ اور جب اس آبادی (اریحا) سے قریب ہوئے تو عصر کا وقت ہو گیا یا اس کے قریب وقت ہوا۔ انہوں نے سورج سے فرمایا کہ تو بھی اللہ کا تابع فرمان ہے اور میں بھی اس کا تابع فرمان ہوں۔ اے اللہ! ہمارے لیے اسے اپنی جگہ پر روک دے۔ چنانچہ سورج رک گیا ‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح عنایت فرمائی۔ پھر انہوں نے اموال غنیمت کو جمع کیا اور آگ اسے جلانے کے لیے آئی لیکن جلا نہ سکی ‘ اس نبی نے فرمایا کہ تم میں سے کسی نے مال غنیمت میں چوری کی ہے۔ اس لیے ہر قبیلہ کا ایک آدمی آ کر میرے ہاتھ پر بیعت کرے (جب بیعت کرنے لگے تو) ایک قبیلہ کے شخص کا ہاتھ ان کے ہاتھ سے چمٹ گیا۔ انہوں نے فرمایا ‘ کہ چوری تمہارے قبیلہ ہی والوں نے کی ہے۔ اب تمہارے قبیلے کے سب لوگ آئیں اور بیعت کریں۔ چنانچہ اس قبیلے کے دو تین آدمیوں کا ہاتھ اس طرح ان کے ہاتھ سے چمٹ گیا ‘ تو آپ نے فرمایا کہ چوری تمہیں لوگوں نے کی ہے۔ (آخر چوری مان لی گئی) اور وہ لوگ گائے کے سر کی طرح سونے کا ایک سر لائے (جو غنیمت میں سے چرا لیا گیا تھا) اور اسے مال غنیمت میں رکھ دیا ‘ تب آگ آئی اور اسے جلا گئی ‘ پھر غنیمت اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے جائز قرار دے دی ‘ ہماری کمزوری اور عاجزی کو دیکھا۔ اس لیے ہمارے واسطے حلال قرار دے دی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3124]
غزا نبي من الأنبياء فقال لقومه لا يتبعني رجل ملك بضع امرأة وهو يريد أن يبني بها ولما يبن بها ولا أحد بنى بيوتا ولم يرفع سقوفها ولا أحد اشترى غنما أو خلفات وهو ينتظر ولادها فغزا فدنا من القرية صلاة العصر أو قريبا من ذلك فقال للشمس إنك مأمورة وأنا مأمور الل
غزا نبي من الأنبياء فقال لقومه لا يتبعني رجل قد ملك بضع امرأة وهو يريد أن يبني بها ولما يبن ولا آخر قد بنى بنيانا ولما يرفع سقفها ولا آخر قد اشترى غنما أو خلفات وهو منتظر ولادها قال فغزا فأدنى للقرية حين صلاة العصر أو قريبا من ذلك فقال للشمس أنت مأمورة وأ
غزا نبي من الأنبياء فقال للقوم لا يتبعني رجل قد كان ملك بضع امرأة يريد أن يبني بها ولما يبني ولا آخر بنى بناء له ولما يرفع سقفها ولا آخر قد اشترى غنما أو خلفات وهو ينتظر ولادها فغزا فدنا القرية حين صلى العصر أو قريبا من ذلك فقال للشمس أنت مأمورة وأنا مأمو
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3124
حدیث حاشیہ: حدیث میں اسرائیل نبی یوشع ؑ کا ذکر ہے جو جہاد کو نکلے تھے کہ نماز عصر کا وقت ہوگیا۔ انہوں نے دعا کی‘ اللہ نے ان کی دعا کو قبول ک، یہی وہ چیز ہے جسے معجزہ کہا جاتا ہے۔ جس کا ہونا حق ہے پہلے زمانے میں اموال غنیمت مجاہدین کے لئے حلال نہ تھا بلکہ آسمان سے آگ آتی اوراسے جلادیتی جو عند اللہ قبولیت کی دلیل ہوتی تھی۔ اموال غنیمت میں خیانت کرنا پہلے بھی گناہ عظیم تھا اور اب بھی یہی حکم ہے۔ مگر امت مسلمہ کے لئے اللہ نے اموال غنیمت کو حلال کردیا ہے۔ وہ شریعت کے حکم کے مطابق تقسیم ہوں گے۔ کم طاقتی اور عاجزی سے یہ مراد ہے کہ مسلمان مفلس اور نادار تھے اور خدا کی بارگاہ میں عاجزی اور فروتنی سے حاضر ہوتے تھے پروردگار کو ان کی عاجزی پسند آئی اور یہ سرفرازی ہوئی کہ غنیمت کے مال ان کے لئے حلال کردیئے گئے۔ ہم ان بے وقوف پادریوں سے پوچھتے ہیں جو غنیمت کا مال لینا بڑا عیب جانتے ہیں کہ تمہارے مذہب والے نصاریٰ تو دوسروں کے ملک کے ملک اور خزانے ہضم کرجاتے ہیں۔ ڈکار تک نہیں لیتے۔ جس ملک کو فتح کرتے ہیں وہاں سب معزز کاموں پر اپنی قوم والوں کو مامور کرتے ہیں‘ اہل ملک کا ذرا لحاظ نہیں رکھتے پھر یہ لوٹ نہیں تو کیا ہے۔ لوٹ سے بھی بدتر ہے۔ لوٹ تو گھڑی بھر ہوتی ہے۔ اور ظلمی انتظام تو صدہا برس تک ہوتا رہتا ہے۔ معاذ اللہ! انجیل شریف کی وہی مثال ہے کہ اپنی آنکھ کا تو شہتیر نہیں دیکھتے اور دوسرے کی آنکھ کا تنکا دیکھتے ہیں۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3124
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3124
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ نبی حضرت یوشع بن نون ؑ تھے۔ انھوں نے اللہ کے حضور درخواست کی کہ وہ سورج کو چلنے سے روک دے تاکہ وہ بستی کو فتح کرلیں، چنانچہ وہ رکارہاحتی کہ وہ بستی فتح ہوگئی۔ (فتح الباري: 268/6) اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ جمعے کا دن تھا۔ اگرسورج نہ رکتا اور غروب ہوجاتا تو ہفتے کا دن شروع ہوجاتا۔ اس دن میں اس کی عظمت کے پیش نظر جنگ کرنا حرام تھا۔ ممکن تھا کہ دشمن کو فوجی مدد پہنچ جاتی اور اسے فتح کرنے میں مشکل پیش آتی۔ 2۔ پہلے انبیاء ؑ کے لیے مال غنیمت سے متعلق یہ ضابطہ تھا کہ وہ مال غنیمت میدان جنگ میں ایک جگہ جمع کردیتے تھے۔ آسمان سے آگ آتی اور اسے کھا جاتی تھی۔ اگر اس میں کسی نے خیانت کی ہوتی تو اس کو آگ نہ کھاتی تھی، نیز قربانیوں کی قبولیت معلوم کرنے کے لیے بھی یہی قاعدہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر بہت فضل وکرم فرمایا کہ اس کے لے غنیمتوں کو حلال قراردیا، البتہ مال غنیمت میں خیانت کی سنگینی کو برقراررکھا۔ اس امت کے مسلمانوں کی اللہ کے حضور عاجزی اور مسکینی اس قدر رنگ لائی کہ مال غنیمت ان کے لیے حلال کردیاگیا۔ یہ اس امت کا خاصا ہے جو دوسری امتوں کو نہیں ملا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3124
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4555
ھمام بن منبہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیں بہت سی روایات سنائیں، ان میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انبیاء میں سے ایک نبی نے غزوہ (جنگ) کا ارادہ کیا تو اپنی قوم سے فرمایا: کوئی ایسا آدمی میرے ساتھ نہ جائے، جس نے کسی عورت سے شادی کی ہے اور اب وہ اس کی رخصتی چاہتا ہے اور ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی اور نہ وہ انسان جائے، جس نے ایک عمارت بنوائی ہے، اور ابھی تک اس پر چھتیں نہیں ڈالیں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4555]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) مَلَكَ بُضعَ إمراة: ایک عورت سے شادی کی اور اس سے تعلقات کا جواز پیدا ہوا ہے۔ (2) وَلَمَّا يَبن: تعلقات کے قیام کا جواز پیدا ہوا ہے، لیکن ابھی تک اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ (3) سُقْفٌ: سَقْفٌ کی جمع ہے، چھت، خلفات، خلفة کی جمع ہے، گابھن، حاملہ۔ فوائد ومسائل: یہ نبی حضرت یوشع بن نون علیہ السلام تھے، جو جمعہ کے دن، عصر کے وقت جبکہ سورج کے غروب میں تھوڑا سا وقت باقی تھا، لشکر لے کر اریحا نامی بستی کے قریب پہنچے اور انہوں نے سورج کو مخاطب کیا اور اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اس کی رفتار سست کر دی جائے یا اس کو روک لیا جائے، تاکہ میں سورج کے غروب سے پہلے پہلے اس بستی کو فتح کر لوں تو اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ ان کے لیے سورج کی رفتار سست کر دی یا رفتار کو روک لیا، پہلی امتوں کے لیے غنیمت کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں تھا، اس کو یکجا کر دیا جاتا، آسمان سے آگ اترتی تھی اور اسے کھا جاتی تھی۔ اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ ذمہ داری اس کے سپرد کرنی چاہیے، جو اس کو فارغ البال ہو کر ادا کر سکے، اس کا دل کسی اور کام میں اٹکا ہوا نہ ہو، کیونکہ وہ اس صورت میں پوری توجہ اور ہمت کام میں نہیں لا سکے گا، اس لیے کام صحیح طور پر انجام نہیں پا سکے گا۔ نوٹ: ۔ ۔ ۔ سورج کو روکنے کا واقعہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی نماز کا وقت نکل رہا تھا، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ران پر سر رکھ کر سو گئے تھے تو سورج کو واپس لایا گیا، جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھ لی تو غروب ہو گیا، سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی، اگر کسی وجہ سے رہ گئی تھی تو جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ران پر سر رکھ کر سونا چاہتے تھے تو انہوں نے آپﷺ کو یہ نہ بتایا کہ میں نے ابھی نماز پڑھنی ہے، پھر اگر مجبوری کی وجہ سے تاخیر ہو جائے تو ایک رکعت کا وقت بھی باقی ہو تو نماز پڑھی جا سکتی ہے، غروب کے بعد بھی پڑھی جا سکتی ہے، جیسا کہ غزوہ خندق میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سورج کے غروب ہونے کے بعد نماز پڑھی، آپﷺ کے لیے سورج کو واپس کیوں نہیں لایا گیا اور حضور کا فرمان ہے کہ سورج صرف حضرت یوشع بن نون کے لیے روکا گیا، کسی اور انسان کے لیے نہیں روکا گیا، اس لیے اس حدیث کی صحت میں اختلاف ہے، کچھ ائمہ اس کو موضوع قرار دیتے ہیں اور کچھ صحیح، لیکن اگر صحیح سند سے ثابت ہو جائے تو یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء کے نتیجہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہو گا اور معجزہ اللہ کا فعل ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، سوال صرف صحت سند کا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4555
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5157
5157. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: سابقہ انبیاء علیہم السلام اجمعین میں سے ایک نبی نے جنگ کا ارادہ کیا تو اپنی قوم سے کہا: ”جس شخص نے نکاح کیا ہے اور ابھی تک بیوی سے صحبت نہیں کی وہ میرے ساتھ جنگ کے لیے نہ جائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5157]
حدیث حاشیہ: (1) جہاد میں شرکت کے لیے اس کا دل ہر قسم کی آلائش سے پاک ہونا چاہیے، اس بنا پر اگر کسی نے نکاح کیا اور بیوی کی رخصتی نہیں ہوئی اور میاں بیوی دونوں اکٹھے نہیں ہوئے تو اسے چاہیے کہ جنگ میں جانے سے پہلے پہلے اپنی بیوی کو گھر لے آئے اور اس سے مباشرت کرے تاکہ ہر قسم کے خیالات سے اس کا دل جہاد کے لیے فارغ ہو جائے۔ (2) علامہ ابن منیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: اس سے عام لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو یہ ذہن رکھتے ہیں کہ نکاح سے پہلے حج کرنا چاہیے تاکہ عفت و عصمت کی حفاظت یقینی ہو جائے، حالانکہ اسے حج کرنے سے پہلے نکاح کرنا چاہیے تاکہ اس کا دل برے خیالات سے پاک ہو جائے، پھر حج کرنے سے اس کی روحانیت میں اضافہ ہو۔ (فتح الباري: 279/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5157