فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1071
´رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی، آپ اس میں رعل، ذکوان اور عصیہ نامی قبائل ۱؎ پر جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تھی، بد دعا کرتے رہے۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1071]
1071۔ اردو حاشیہ:
➊ ان کے ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دھوکا کر کے کچھ مبلغین حاصل کیے جو سب قرآن کے قاری تھے اور انہیں اپنے علاقے میں لے جاکر ان قبائل سے قتل کرا دیا۔ ایک دوسرے حادثے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دس صحابہ شہید کر دیے گئے۔ یہ واقعات جنگ احد کے بعد قریب ہی پیش آئے تھے۔ جنگ احد میں بھی مسلمانوں کا خاصا نقصان ہوا تھا۔ ان مسلسل جانی نقصانات سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہوئے تو آپ نے قنوت نازلہ کا اہتمام فرمایا؎ (نازلہ عربی میں مصیبت کو کہتے ہیں اور قنوت وہ دعا جو کھڑے ہو کر کی جائے۔) آپ مختلف نمازوں میں آخری رکعت میں رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر بلند آواز سے دعا مانگتے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم بھی شریک دعا ہوتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض مشرکین مکہ، دھوکا دینے والے قبائل اور قاتلین قراء کے نام لے کر بددعا فرماتے تھے۔ ایک مہینے تک یہ عمل جاری رہا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مخصوص حالات میں کسی شخص یا قبیلے کا نام لے کر بددعا کرنا جائز ہے، تاہم اس سے پہلے جنگ احد کے بعد آپ نے قنوت نازلہ کا اہتمام فرمایا جس میں آپ کا سرزخمی ہو گیا تھا اور ایک رباعی دانت ٹوٹ گیا تھا، اس موقع پر آپ کو ان کی بابت قنوت سے روک دیا گیا۔ یہ دو الگ الگ واقعات اور الگ الگ قنوت ہیں۔ مختلف قبائل کا نام لے کر جو قنوت کی، وہ آیت: «لَيْسَ لَكَ مِنَ الأمْرِ شَيْءٌ» [آل عمران 128: 3] کے نزول کے بعد کا واقعہ ہے، اس لیے حسب ضرورت کسی شخص یا قبیلے کا نام لے کر قنوت نازلہ کرناجائز ہے۔ لیکن کبھی کبھار، نہ کہ ہمیشہ۔ امام حنیفہ رحمہ اللہ کسی معین شخص یا قبیلے کا نام لے کر اس کے حق میں یا اس کے خلاف دعا کرنے سے منع کرتے ہیں۔ یہ حدیث ان کے موقف کی تائید نہیں کرتی۔ امام شافعی رحمہ اللہ صبح کی نماز میں ہمیشہ قنوت کے قائل ہیں مگر یہ صحابہ میں مختلف فیہ مسئلہ رہا ہے، لہٰذا ایک آدھی روایت کی بنا پر اس پر دوام مناسب نہیں ہے، جب کہ اس کے خلاف بھی روایات موجود ہیں۔ جمہور اہل علم دوام کو غلط سمجھتے ہیں۔ صرف کسی اہم موقع پر جب کوئی خصوصی مصیبت نازل ہو، رکوع کے بعد فجر یا کسی اور نماز میں قنوت کرلی جائے۔ دلائل کو جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ جب دلائل متعارض معلوم ہوں تو درمیانی راہ نکالنی چاہیے نہ کہ کسی ایک جانب کو لازم کر لیا جائے۔ باقی رہی قنوت وتر تو اس کا ذکر وتر کی بحث میں مناسب ہے۔ ان شاء اللہ وہیں آئے گا۔
➋ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نماز میں غیر قرآن الفاظ کے ساتھ دعا کرنا ممنوع قرار دیتے ہیں۔ حدیث ان کے موقف کی تردید کرتی ہے۔
➌ کفار پر لعنت بھیجنا اور ان کے خلاف بددعا کرنا جائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1071
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1072
´نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
ابن سیرین سے روایت ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر میں قنوت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! (پڑھی ہے) پھر ان سے پوچھا گیا، رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد؟ رکوع کے بعد ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1072]
1072۔ اردو حاشیہ: یہی وہ قنوت ہے جسے امام شافعی رحمہ اللہ نے صبح کی قنوت سمجھا ہے جب کہ جمہور اہل علم اسے عارضی قنوت نازلہ سمجھتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1072
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1080
´قنوت (قنوت نازلہ) چھوڑ دینے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک دعائے قنوت پڑھی، آپ عرب کے ایک قبیلے پر بد دعا کر رہے تھے، پھر آپ نے اسے ترک کر دیا۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1080]
1080۔ اردو حاشیہ: ایک نہیں بلکہ کئی قبیلوں کے خلاف بددعا کرتے تھے۔ (دیکھیے، روایت: 1078)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1080
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1184
´رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
محمد (محمد بن سیرین) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دعائے قنوت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1184]
اردو حاشہ:
فائدہ:
یہاں حدیث میں اختصار ہے۔
اصل میں یہ وہی حدیث ہے جس میں یہ درج ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک مہینہ مسلسل پانچوں فرض نمازوں میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1184
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1243
´نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھتے رہے، اور عرب کے ایک قبیلہ (قبیلہ مضر پر) ایک مہینہ تک بد دعا کرتے رہے، پھر اسے آپ نے ترک کر دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1243]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قنوت نازلہ قبیلہ مضر کے خلاف پڑھی تھی۔
وہ لوگ اس وقت کافر تھے۔
اور مسلمانوں کے لئے بہت سی مشکلات کا باعث تھے۔
(2)
ترک کرنے کا مطلب یہ ہےکہ اس قبیلے کے خلاف بددعا کرنی بند کردی۔
کیونکہ جن کمزور مسلمانوں کے حق میں دعا کی جاتی تھی۔
انھیں نجات مل گئی۔
بعض نے اس جملے سے یہ سمجھا ہے۔
کہ بعد میں کبھی قنوت نازلہ نہیں پڑھی۔
یہ سمجھنا غلط ہے۔
اب بھی حسب ضرورت قنوت نازلہ پڑھی جا سکتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1243
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1545
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تیس دن ان لوگوں کے خلاف دعا کی، جنہوں نے بئر معونہ کے لوگوں کو قتل (شہید) کر دیا تھا، آپﷺ رعل، ذکوان، لحیان اور عصیہ کے لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی، کے خلاف دعا کرتے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بئر معونہ کے واقعہ میں شہید ہونے والے لوگوں کے بارے میں یہ آیت اتاری: ”ہماری قوم تک یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1545]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
صفر 4 ہجری میں ابوبراء عامر بن مالک جو ملاعب الاسنہ کے نام سے معروف تھا اور اپنی قوم کا سردار تھا۔
علاقہ نجد سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔
آپﷺ نے اسے اسلام کی دعوت دی مگر اس نے نہ اسے قبول کیا نہ رد،
اور آپﷺ کو بڑے مخلصانہ انداز میں یہ مشورہ دیا کہ آپ اپنے کچھ ساتھیوں کو میرے علاقہ میں بھیجیں امید ہے لوگ اسلام قبول کر لیں گے اور آپﷺ کے لوگ میری پناہ میں ہوں گے،
آپﷺ نے تعلیم وتبلیغ کے لیے ستر قاری بھیجے تاکہ وہ معلم اور داعی کا فریضہ سرانجام دیں،
آپﷺ نے ان کا امیر منذر بن عمرو کو مقرر فرمایا آپﷺ نے ابوبراء کے بھتیجے عامر بن طفیل کےنام خط دیا تھا جب یہ وفد بئر معونہ نامی جگہ پر پہنچا تو وہاں سے حرام بن ملحان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لے کر عامر بن طفیل کی طرف روانہ ہوئے،
اس نے خط دیکھے بغیر ہی اپنے آدمی کو اشارہ کر کے ان کو قتل کروا دیا۔
پھر اپنی قوم بنو عامرکو کہا کہ مدینہ سے آنے والے لوگوں پر حملہ کرو لیکن انہوں نے اپنے سردار ابوبراء کے عہد کو توڑنا گوارا نہیں کیا۔
تب اس نے بنو سلیم کی شاخوں یعنی رعل،
ذکوان،
لحیان اور عصیہ کو اس کام پر آمادہ کیا ان لوگوں نے مسلمان قاریوں کو شہید کر دیا صرف دو آدمی زندہ بچے،
آپ کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپﷺ کو بے حد دکھ ہوا اور آپﷺ نے ان قبائل کے خلاف ایک ماہ تک قنوت نازل فرمائی۔
ان شہداء کی خواہش پر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع دی اور ان کا پیغام پہنچا دیا جس کو وقتی طور پر پڑھا گیا پھر وہ منسوخ ہو گیا منسوخ شدہ آیات چونکہ اب قرآن میں نہیں ہیں اس لیے وہ تواتر سے ثابت نہیں ہیں۔
نوٹ۔
اس واقعہ بئیر معونہ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ کو علم غیب نہ تھا وگرنہ آپﷺ ابوبراء کے کہنے پر سترمنتخب افراد کو اس کے علاقہ میں نہ بھیجتے لیکن علامہ سعیدی اس کا انتہائی مضحکہ خیز جواب دیتے ہیں کہ آپﷺ کو ان کی شہادت کا علم تھا آپﷺ نے اہل نجد کے مطالبہ تبلیغ پر انہیں نجد بھیج دیا تاکہ کل قیامت کے دن وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم نے تو قبول اسلام کے لیے تیرے نبی سے مبلغ مانگتے تھے،
اس نے نہیں بھیجے۔
(شرح صحیح مسلم: 2/ 332)
حالانکہ اوپر یہ لکھا ہے کہ آپﷺ نے ابوبراء کے کہنے پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو بھیجا تھا اور اس نے ان کی حفاظت کی ضمانت دی تھی،
اس کی ضمانت پر بھیجا تھا۔
پھر اگر آپﷺ کو معلوم تھا تو آپﷺ نے اس قدر رنج وملال کا اظہار کیوں فرمایا اور ایک ماہ تک ان کے خلاف دعا کیوں فرمائی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو روک دیا،
مزید برآں یہ لوگ اہل نجد تک تو پہنچے ہی نہیں۔
بئرمعونہ تو مکہ اور عسفان کے درمیان ہذیل کا علاقہ ہے۔
عامر بن طفیل نے تو ان کو راستہ میں ہی روک لیا تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1545
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1549
عاصم بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قنوت کے بارے میں سوال کیا کہ وہ رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا، رکوع سے پہلے ہے تو میں نے کہا، کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قنوت رکوع کے بعد کی ہے؟ تو انہوں نے کہا، رسول اللہ ﷺ نے (رکوع کے بعد) ایک مہینہ قنوت کیا، ان لوگوں کے خلاف دعا کی، جنہوں نے آپ ﷺ کے کچھ ساتھیوں کو جنہیں قراء کہا جاتا تھا، قتل کر دیا تھا۔... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1549]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب سے معلوم ہوتا ہے آپﷺ قنوت ہمیشہ رکوع کے بعد نہیں کرتے تھے آپﷺ نے رکوع سے پہلے بھی قنوت کی ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ رکوع کے بعد دعائے قنوت کرنے کے قائل ہیں۔
صحیح روایات کی روشنی میں قنوت نازلہ رکوع کے بلند آوازسے ہے۔
اس میں ہاتھ اٹھائے جائیں گے اور مقتدی آمین کہیں گے۔
وتر میں قنوت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے لیکن نسائی اورابن ماجہ کی روایت ہے کہ آپﷺ وتر میں رکوع سے پہلے قنوت کرتے تھے۔
ابن حبان کی روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وتر میں رکوع کے بعد قنوت سکھایا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1549
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1554
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عرب کے کچھ قبائل کے خلاف ایک ماہ دعائے قنوت کی، پھر اسے چھوڑ دیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1554]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
اَحْيَاء:
حَیٌّ کی جمع ہے،
قبیلہ کو کہتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1554
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1001
1001. حضرت انس بن مالک ؓ سے دریافت کیا گیا کہ کیا نبی ﷺ نے نماز فجر میں قنوت پڑھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں۔ پھر پوچھا گیا: آیا آپ نے رکوع سے پہلے قنوت پڑھی تھی؟ انہوں نے جواب دیا رکوع کے بعد تھوڑے دنوں کے لیے ایسا کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1001]
حدیث حاشیہ:
صبح کی نماز میں قنوت پڑھنا شافعیہ کے ہاں ضروری ہے، اس لیے وہ اس کے ترک ہونے پر سجدہ سہو کرتے ہیں۔
حنفیہ کے ہاں صبح کی نماز میں قنوت پڑھنا مکروہ ہے، اہلحدیث کے ہاں گاہے بگاہے قنوت پڑھ لینا بھی جائز اور ترک بھی جائز۔
اسی لیے مسلک اہلحدیث افراط وتفریط سے ہٹ کر ایک صراط مستقیم کا نام ہے۔
اللہ پاک ہم کو سچا اہلحدیث بنائے۔
(آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1001
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1300
1300. حضرت انس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:جب قراء شہید ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ایک ماہ تک قنوت فرمائی۔ میں نےرسول اللہ ﷺ کو کبھی اس سے زیادہ غمناک نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1300]
حدیث حاشیہ:
یہ شہدائے کرام قاریوں کی ایک معزز ترین جماعت تھی جو سترنفوس پر مشتمل تھی۔
حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارکپوری ؒ کے لفظوں میں اس جماعت کا تعارف یہ ہے:
وكانوا من أوزاع الناس ينزلون الصفة يتفقهون العلم ويتعلمون القرآن، وكانوا ردءاً للمسلمين إذا نزلت بهم نازلة وكانوا حقاً عمار المسجد وليوث الملاحم، بعثهم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى أهل نجد من بني عامر ليدعوهم على الإسلام ويقرؤا عليهم القرآن، فلما نزلوا بئر معونة قصدهم عامر بن الطفيل في أحياء من بني سليم، وهو رعل وذكوان وعصية فقاتلوهم. (فأصيبوا)
أي فقتلوا جميعاً. قيل:
ولم ينج منهم إلا كعب بن زيد الأنصاري، فإنه تخلص وبه رمق وظنوا أنه مات، فعاش حتى استشهد يوم الخندق وأسر عمرو بن أمية الصغرى، وكان ذلك في السنة الرابعة من الهجرة أي في صفر على رأس أربعة أشهر من أحد، فحزن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حزناً شديداً، قال أنس:
ما رأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وجد على أحد ما وجد عليهم. (مرعاة ج: 2ص222)
یعنی بعض اصحاب صفہ میں سے یہ بہترین اللہ والے بزرگ تھے جو قرآن پاک اور دینی علوم میں مہارت حاصل کرتے تھے اور یہ وہ لوگ تھے کہ مصائب کے وقت ان کی دعائیں اہل اسلام کے لیے پشت پناہی کا کام دیتی تھی۔
یہ مسجد نبوی کے حقیقی طور پر آباد کرنے والے اہل حق لوگ تھے جو جنگ وجہاد کے مواقع پر بہادر شیروں کی طرح میدان میں کام کیا کرتے تھے۔
انہیں رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کے قبیلہ بنو عامر میں تبلیغ اسلام اور تعلیم قرآن مجید کے لیے روانہ فرمایا تھا۔
جب یہ بئر معونہ کے قریب پہنچے تو عامر بن طفیل نامی ایک غدار نے رعل اور ذکوان نامی قبائل کے بہت سے لوگوں کو ہمراہ لے کر ان پر حملہ کردیا اور یہ سب وہاں شہید ہوگئے۔
جن کا رسول کریم ﷺ کو اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ ﷺ نے پورے ایک ماہ تک قبائل رعل وذکوان کے لیے قنوت نازلہ پڑھی۔
یہ 4ھ کا واقعہ ہے۔
کہا گیا ہے کہ ان میں سے صرف ایک بزرگ کعب بن زید انصاری ؓ کسی طرح بچ نکلے۔
جسے ظالموں نے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔
یہ بعد تک زندہ رہے۔
یہاں تک کہ جنگ خندق میں شہید ہوئے۔
رضي اللہ عنهم آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1300
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2801
2801. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے بنو سلیم کے ستر آدمی بنو عامر کے ہاں روانہ کیے۔ جب یہ لوگ بنو عامر کے پاس آئے تو میرے ماموں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: میں تم سے پہلے وہاں جاتا ہوں، اگرانھوں نے مجھے امن دیا تاکہ میں ان تک رسول اللہ ﷺ کا پیغام پہنچا سکوں تو زہے قسمت!بصورت دیگر تم لوگوں نے میرے قریب ہی رہنا ہے، چنانچہ وہ ان کے پاس گئے، انھوں نے امن بھی دے دیا، ابھی وہ اہل قبیلہ کو نبی کریم ﷺ کی باتیں سناہی رہے تھے کہ قبیلے والوں نے اپنے ایک آدمی کو اشارہ کیا تو اس نے انھیں نیزا مار کرگھائل کردیا۔ اس وقت ان کی زبان سے نکلا: اللہ اکبر، رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔ پھر قبیلے والے اس کے باقی ساتھیوں کی طرف بڑھے اور حملہ کرکے سب کو ہلاک کردیا۔ صرف ایک لنگڑا ساتھی بچا جو پہاڑ پر چڑھ گیا تھا۔ (راوی حدیث) ہمام نے کہا: میرے خیال کے مطابق اس کے ساتھ ایک اور بھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2801]
حدیث حاشیہ:
حافظ ؒنے کہا اس میں حفص بن عمر امام بخاری ؒ کے شیخ سے سہو ہوگیا ہے اور صحیح یوں ہے کہ حضرت ﷺ نے ام سلیم کے ایک بھائی یعنی حرام بن ملحان ؓ کو ستر آدمیوں کے ساتھ بنی عامر کی طرف بھیجا تھا۔
یہ ستر آدمی انصار کے قاری تھے اور آپ نے دین کی تعلیم پھیلانے کے لئے قبیلہ بنی عامر کے ہاں بھیجے تھے جن کے لئے خود اس قبیلہ نے درخواست کی لیکن راستے میں بنو سلیم نے دغا کی اور ان غریب قاریوں کو ناحق قتل کردیا۔
بنو سلیم کا سردار عامر بن طفیل تھا۔
لعنت کے سلسلہ میں جن قبائل کا ذکر روایت میں آیا ہے یہ سب بنو سلیم کی شاخیں ہیں۔
آیت جس کا ذکر روایت میں آیا ہے ان آیتوں میں سے ہے جن کی تلاوت منسوخ ہوگئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2801
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3170
3170. حضرت عاصم الاحول س روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے قنوت کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: قنوت رکوع سے پہلے ہے۔ میں نے عرض کیا: فلاں صاحب کہتے ہیں کہ آپ نے رکوع کے بعد کہاہے۔ حضرت انس ؓ نےفرمایا کہ اس نے غلط کہا ہے۔ پھر انھوں نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم ﷺ نےایک مہینے تک رکوع کے بعد قنوت کی تھی، جس میں آپ بنو سلیم کے چند قبائل پر بددعا کرتے تھے۔ واقعہ یہ ہوا کہ آپ نے چالیس یا ستر قراء کو مشرکین کی تعلیم وتبلیغ کے لیے بھیجا تو ان لوگوں نےانھیں پکڑ کر قتل کردیا تھا، حالانکہ نبی کریم ﷺ سے ان کا معاہدہ تھا۔ (حضرت انس ؓنےفرمایا کہ) میں نے آپ ﷺ کو کسی معاملے میں اتنا غمگین اور رنجیدہ نہیں دیکھا جتنا ان (قراء) کی شہادت پر آپ غمناک ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3170]
حدیث حاشیہ:
کیوں کہ یہ لوگ قاری اور عالم تھے۔
اگر یہ زندہ رہتے تو ان سے ہزارہا لوگوں کو فائدہ پہنچتا۔
اسی لیے ایک سچے عالم کی موت کو عالم جہان کی موت کہاگیا ہے۔
قنوت قبل الرکوع اور بعدالرکوع کے متعلق شیخ الحدیث حضرت مولانا استاذ عبیداللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں۔
ورواه ابن المنذر عن حميد عن أنس بلفظ:
إن بعض أصحاب النبي - صلى الله عليه وسلم - قنتوا في صلاة الفجر قبل الركوع، وبعضهم بعد الركوع، وهذا كله يدل على اختلاف عمل الصحابة في محل القنوت المكتوبة فقنت بعضهم قبل الركوع وبعضهم بعده، وأما النبي - صلى الله عليه وسلم - فلم يثبت عنه القنوت في المكتوبة إلا عند النازلة، ولم يقنت في النازلة إلا بعد الركوع، هذا ما تحقق لي، والله أعلم. (مرعاة المفاتیح، جلد: 2ص: 224)
یعنی حضرت انس ؓ کی اسی روایت کو ابن منذر نے اس طرح روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ رسول ﷺ فجر میں قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے، بعض رکوع کے بعد پڑھتے اور ان سب سے معلوم ہوتاہے کہ فرض نمازوں میں محل قنوت کے بارے میں صحابہ میں اختلاف تھا اور نبی کریم ﷺ سے فرض نمازوں میں سوائے قنوت نازلہ کے اور کوئی قنوت ثابت نہیں ہوئی۔
آپ نے صرف قنوت نازلہ پڑھی اور وہ رکوع کے بعد پڑھی ہے میری تحقیق یہی ہے واللہ أعلم۔
امام نووی استحباب القنوت میں فرماتے ہیں:
و محل القنوت بعد رفع الراس فی الرکوع فی الرکعۃ الاخیرہ یعنی قنوت پڑھنے کا محل آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے۔
حدیث ہذا میں حضرت انس ؓ کے بیان متعلق قنوت کا تعلق ان کی اپنی معلومات کی حد تک ہے۔
واللہ أعلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3170
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4088
4088. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے ستر (70) آدمیوں کو کسی کام کے لیے بھیجا، جنہیں قراء کہا جاتا تھا۔ خاندان بنو سلیم کے دو قبیلے رعل اور ذکوان ایک کنویں کے پاس ان کے سامنے آئے، جسے بئر معونہ کہا جاتا تھا۔ صحابہ کرام ؓ نے ان لوگوں سے کہا: اللہ کی قسم! ہم تم سے لڑنے نہیں آئے بلکہ ہم تو نبی ﷺ کی کسی حاجت برآری کے لیے یہاں سے گزر رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے ایک نہ سنی بلکہ ان حضرات کو قتل کر دیا۔ نبی ﷺ نے مہینہ بھر صبح کی نماز میں ان کفار کے خلاف بددعا فرمائی۔ یہ دعائے قنوت کی ابتدا ہے۔ اس سے پہلے ہم قنوت نہیں کرتے تھے۔ (راوی حدیث) عبدالعزیز نے کہا: حضرت انس ؓ سے کسی شخص نے دعائے قنوت کے متعلق پوچھا کہ وہ رکوع کے بعد ہے یا قراءت سے فراغت کے بعد؟ انہوں نے فرمایا: رکوع کے بعد نہیں بلکہ قراءت سے فراغت کے وقت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4088]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے ان ستر قاریوں کو اس لیے بھیجا تھا کہ قبائل رعل اور ذکوان اور عصیہ اور بنو لحیان کے لوگو ں نے آنحضرت ﷺ کے پاس آکر کہا تھا کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں ہماری مدد کے لیے کچھ مسلمان بھیجئے۔
یہ بھی مروی ہے کہ ابو براء عامر بن مالک نامی ایک شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ﷺ! آپ چند مسلمانوں کو نجد کی طرف بھیج دیں تو مجھے امید ہے کہ نجد والے مسلمان ہوجائیں گے۔
آپ نے فرمایا میں ڈرتا ہوں نجد والے ان کو ہلاک نہ کر دیں۔
وہ شخص کہنے لگا میں ان لوگو ں کو اپنی پناہ میں رکھوںگا۔
اس وقت آپ نے یہ ستر صحابی روانہ کئے۔
صرف ایک صحابی کعب بن زید ؓ زخمی ہو کر بچ نکلے تھے۔
جنہوں نے مدینہ آکر خبر دی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4088
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4089
4089. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے رکوع کے بعد ایک مہینہ قنوت پڑھی۔ آپ عرب کے قبائل کے خلاف بددعا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4089]
حدیث حاشیہ:
فقہاء کی اصطلاح میں اس قسم کی قنوت کو قنوت نازلہ کہا گیا ہے اور ایسے مواقع پر قنوت نازلہ آج بھی پڑھنا مسنون ہے مگر صد افسوس کہ مسلمان بہت سی پریشانیوں کے باوجود قنوت نازلہ سے غافل ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4089
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4090
4090. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ قبیلہ رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے دشمن کے خلاف مدد مانگی تو آپ ﷺ نے ستر (70) انصار بھیج کر ان کی مدد فرمائی۔ اس زمانے میں ہم انہیں قراء کہا کرتے تھے۔ وہ دن کے وقت لکڑیاں چن کر لاتے اور رات کو شب خیزی میں گزارتے تھے۔ جب یہ حضرت بئر معونہ تک پہنچے تو انہوں نے ان قراء کو قتل کر دیا اور ان سے عہد شکنی کی۔ نبی ﷺ کو اس حادثے کی اطلاع ہوئی تو آپ نے مہینہ بھر قنوت نازلہ پڑھی۔ آپ رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان قبائل عرب پر صبح کی نماز میں بددعا فرماتے تھے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ان کے متعلق ہم قرآن مجید میں یہ آیات پڑھا کرتے تھے جنہیں بعد میں منسوخ کر دیا گیا: ”ہماری طرف سے ہماری قوم کو یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم اپنے رب کے پاس پہنچ گئے ہیں۔ وہ ہم سے راضی ہوا اور اس نے ہمیں بھی راضی کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4090]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ” نسخ قرآنا، سےمراد کتاب اللہ ہے، جیسا کہ عبدالاعلیٰ کی روایت میں ہے۔
ان قاریوں کی ایک خاص صفت یہ بیان کی گئی کہ یہ حضرات دن میں رزق حلال کےلیے لکڑیاں فروخت کیا کرتے تھے۔
آج کےقاریوں جیسے نہ تھے جو فن سےقرات کوشکم پروری کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں اورجگہ جگہ قرات پڑھ پڑھ کردست سوال دراز کرتے رہتے ہیں۔
الاماشاءاللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4090
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4091
4091. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ان کے ماموں، حضرت ام سلیم ؓ کے بھائی کو بھی ستر (70) سواروں کے ساتھ بھیجا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ مشرکین کے سردار عامر بن طفیل نے آپ ﷺ کے سامنے تین صورتیں رکھی تھیں۔ اس نے آپ سے کہا کہ دیہاتی آبادی پر آپ کی اور شہری آبادی پر میری حکومت ہو گی یا میں آپ کا جانشین ہوں گا یا پھر دو ہزار غطفانی لشکر سے آپ پر حملہ کروں گا، چنانچہ وہ ام فلاں کے گھر میں مرض طاعون میں مبتلا ہوا، کہنے لگا: فلاں قبیلے کی عورت کے گھر میں جوان اونٹ کی طرح مجھے بھی غدود نکل آیا ہے، میرا گھوڑا لاؤ، چنانچہ وہ اپنے گھوڑے کی پشت پر ہی مر گیا۔ بہرحال ام سلیم کے بھائی حرام بن ملحان، ایک اور صحابی جو لنگڑے تھے اور تیسرے صحابی جن کا تعلق بنو فلاں سے تھا آگے بڑھے۔ حضرت حرام ؓ نے ان سے کہا: تم میرے قریب رہو۔ میں ان کے پاس جاتا ہوں اگر انہوں نے مجھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4091]
حدیث حاشیہ:
ان قبائل کا جرم اتنا سنگین تھا کہ ان کے لیے بد دعا کرنا ضروری تھا۔
اللہ تعالی نے اپنے رسول کی بد دعا قبول کی اور یہ قبائل تباہ ہو گئے۔
الاما شاءاللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4091
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4096
4096. حضرت عاصم احول سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے نماز میں قنوت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ نماز میں قنوت مشروع ہے۔ میں نے پوچھا کہ رکوع سے پہلے یا اس کے بعد؟ حضرت انس ؓ نے فرمایا: رکوع سے پہلے ہے۔ میں نے کہا: فلاں شخص نے مجھے آپ کے حوالے سے بتایا کہ آپ نے رکوع کے بعد کہا ہے۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: اس نے غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ دراصل رسول اللہ ﷺ نے رکوع کے بعد صرف ایک مہینہ قنوت کی تھی جبکہ آپ نے ستر (70) قراء کو مشرکین کی طرف روانہ فرمایا، جبکہ رسول اللہ ﷺ اور ان مشرکین کے درمیان عہد و پیمان تھا لیکن ان لوگوں نے اس عہد کی پاسداری نہ کی اور وہ غالب آ گئے (اوران صحابہ کو شہید کر دیا)۔ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے مہینہ بھر قنوت فرمائی اور اس میں ان مشرکین کے خلاف بددعا کی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4096]
حدیث حاشیہ:
اس حادثہ میں ایک شخص عامر بن طفیل کا بڑا ہاتھ تھا۔
پہلے اس نے بنو عامر قبیلہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔
انہوں نے ان مسلمانوں سے لڑنا منظور نہ کیا پھر اس مردود نے رعل اور عصیہ اور ذکوان کو بنو سلیم کے قبیلے میں سے تھے بہکایا حالانکہ آنحضرت ﷺ سے اور بنو سلیم سے عہد تھا مگر عامر کے کہنے سے ان لوگوں نے عہد شکنی کی اور قاریوں کو ناحق مار ڈالا۔
بعضوں نے کہا آنحضرت ﷺ اور بنو عامر سے عہد تھا۔
جب عامر بن طفیل نے بنو عامر کو ان مسلمانوں سے لڑنے کے لیے بلایا تو انہوں نے عہدشکنی منظور نہ کی۔
آخر اس نے رعل اور عصیہ اور ذکوان کے قبیلوں کو بھڑکا یا جن سے عہد نہ تھا انہوں نے عامر کے بہکانے سے ان کو قتل کیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4096
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7341
7341. اور آپ ﷺ نے قبائل بنو سلیم کے خلاف مہینہ بھر قنوت کی جس میں ان پر بد دعا کی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7341]
حدیث حاشیہ:
یہ وہ بد باطن غدار تھے جو چند قراء قرآن کو مدعو کر کے اپنے پاس لے گئے تھے پھر ان کو دھوکا سے شہید کر ڈالا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7341
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1002
1002. عاصم بن سلیمان سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس ؓ سے قنوت کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا: بلاشبہ قنوت پڑھی جاتی تھی۔ میں نے پوچھا: رکوع سے پہلے یا بعد؟ انہوں نے کہا: قبل از رکوع پڑھی جاتی تھی۔ پھر ان سے پوچھا گیا کہ فلاں شخص تو آپ سے بیان کرتا ہے کہ آپ نے رکوع کے بعد فرمایا ہے۔ حضرت انس ؓ بولے: وہ غلط کہتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے صرف ایک مہینہ رکوع کے بعد قنوت پڑھی تھی۔ میرے خیال کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے مشرکین کی طرف تقریبا ستر آدمی روانہ کیے جنہیں قراء کہا جاتا تھا۔ (مشرکین نے انہیں قتل کر دیا۔) یہ (قتل کرنے والے) مشرک لوگ ان مشرکین کے علاوہ تھے جن کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان معاہدہ صلح تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے قنوت پڑھنے کا اہتمام کیا اور ایک ماہ تک ان کے خلاف بددعا کرتے رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1002]
حدیث حاشیہ:
ملحوظہ:
إلی قوم مشركين دون أولئك وكان بينهم و بين رسول الله صلي الله عليه وسلم عهد۔
۔
، یہ عبارت مبہم ہے۔
اس کا ترجمہ حدیث کے دیگر طرق کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے تاکہ فہم حدیث میں دقت پیش نہ آئے۔
اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:
(فتح الباري: 489/1و 496)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1002
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1300
1300. حضرت انس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:جب قراء شہید ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ایک ماہ تک قنوت فرمائی۔ میں نےرسول اللہ ﷺ کو کبھی اس سے زیادہ غمناک نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1300]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مصیبت کے وقت اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، نہ تو غم و پریشانی کے وقت اپنے چہرے کو نوچنا شروع کر دے جو شریعت کی خلاف ورزی پر مبنی ہے اور نہ اس کے متعلق قساوتِ قلبی ہی کا مظاہرہ کرے کہ پریشانی کے اثرات ہی چہرے پر نمایاں نہ ہوں۔
ایسے حالات میں پریشان انسان کو چاہیے کہ پروقار ہو کر اور اطمینان سے بیٹھے اور چہرے پر غمگینی اور پریشانی کے اثرات ہوں تاکہ پتہ چلے کہ واقعی یہ انسان کسی بڑی مصیبت سے دوچار ہے۔
(فتح الباري: 213/3) (2)
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کی طرف ستر (70)
قراء بھیجے جو بڑے بہادر اور فاضل تھے، انہیں دھوکے سے شہید کر دیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے مہینہ بھر ان قبائل کے لیے بددعا فرمائی جنہوں نے قراء حضرات کو قتل کیا تھا۔
اس وقت رسول الله ﷺ اس کیفیت سے دوچار ہوئے جس کا حدیث میں ذکر ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1300
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2801
2801. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے بنو سلیم کے ستر آدمی بنو عامر کے ہاں روانہ کیے۔ جب یہ لوگ بنو عامر کے پاس آئے تو میرے ماموں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: میں تم سے پہلے وہاں جاتا ہوں، اگرانھوں نے مجھے امن دیا تاکہ میں ان تک رسول اللہ ﷺ کا پیغام پہنچا سکوں تو زہے قسمت!بصورت دیگر تم لوگوں نے میرے قریب ہی رہنا ہے، چنانچہ وہ ان کے پاس گئے، انھوں نے امن بھی دے دیا، ابھی وہ اہل قبیلہ کو نبی کریم ﷺ کی باتیں سناہی رہے تھے کہ قبیلے والوں نے اپنے ایک آدمی کو اشارہ کیا تو اس نے انھیں نیزا مار کرگھائل کردیا۔ اس وقت ان کی زبان سے نکلا: اللہ اکبر، رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔ پھر قبیلے والے اس کے باقی ساتھیوں کی طرف بڑھے اور حملہ کرکے سب کو ہلاک کردیا۔ صرف ایک لنگڑا ساتھی بچا جو پہاڑ پر چڑھ گیا تھا۔ (راوی حدیث) ہمام نے کہا: میرے خیال کے مطابق اس کے ساتھ ایک اور بھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2801]
حدیث حاشیہ:
1۔
اصل واقعہ یوں ہے کہ بنوسلیم کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے خود کو مسلمان ظاہر کرکے درخواست کی کہ ہمارے ہمراہ کچھ قراء بھیج دیں تاکہ وہ ہمیں دین اسلام کی تعلیم دیں۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام سلیم ؓ کے بھائی حضرت حرام بن ملحان ؓ اور ستر آدمیوں کوان کے ہمراہ قبیلہ بنو عامر کی طرف روانہ کردیا۔
یہ ستر آدمی انصار کے قاری اور قرآن کریم کے ماہر تھے لیکن راستے میں بنوسلیم نے غداری کی اور بئر معونہ کے پاس انھیں ناحق قتل کر دیا۔
لغت کے سلسلے میں جن قبائل کا ذکر آیا ہے وہ سب بنوسلیم کی شاخیں ہیں۔
2۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے راستے میں جو زخمی ہوجائے یا اسے نیزاماراجائے اور وہ ایسی حالت میں فوت ہوجائے تو اسے بھی شہادت کا درجہ ملتا ہے جیسا کہ مذکورہ واقعے میں حضرت حرام بن ملحان ؒ کے ساتھ ہوا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2801
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2814
2814. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں پر ایک مہینہ بددعا کی جنھوں نے بئر معونہ کے پاس (ستر) قاریوں کو قتل کیا تھا۔ آپ نے رعل، ذکوان اورعصیہ پر بددعا کی کیونکہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی تھی۔ حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں کہ جو لوگ بئرمعونہ کے پاس قتل کیے گئے تھے ان کے متعلق قرآن نازل ہوا جو ہم پڑھا کرتے تھے، پھر وہ حصہ منسوخ ہوگیا اور وہ یہ ہے: ہماری قوم کو یہ بات پہنچا دو کہ ہم نے اپنے رب سے ملاقات کی ہے۔ وہ ہم سے خوش ہے، اور ہم اس سے راضی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2814]
حدیث حاشیہ:
بئرمعونہ بنوعامر اور بنو سلیم کی پتھریلی زمین کے درمیان نجد کی طرف واقع ہے۔
وہاں ستر قرآء کو دھوکے سے شہید کیا گیا۔
حدیث میں مذکور آیات عرصہ دراز تک پڑھی جاتی رہیں۔
پھر انھیں منسوخ کردیا گیا اور آل عمران کی درج بالا آیات نازل ہوئیں جیسا کہ امام ابن جریر طبری ؓنے اپنی تفسیر میں اس بات کی صراحت کی ہے۔
اس حدیث کی عنوان سے یہی مناسبت ہےکہ عنوان میں ذکر کردہ آیات کا پس منظر بئر معونہ کا واقعہ ہے۔
(عمدة القاري: 122/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2814
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3170
3170. حضرت عاصم الاحول س روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے قنوت کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: قنوت رکوع سے پہلے ہے۔ میں نے عرض کیا: فلاں صاحب کہتے ہیں کہ آپ نے رکوع کے بعد کہاہے۔ حضرت انس ؓ نےفرمایا کہ اس نے غلط کہا ہے۔ پھر انھوں نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم ﷺ نےایک مہینے تک رکوع کے بعد قنوت کی تھی، جس میں آپ بنو سلیم کے چند قبائل پر بددعا کرتے تھے۔ واقعہ یہ ہوا کہ آپ نے چالیس یا ستر قراء کو مشرکین کی تعلیم وتبلیغ کے لیے بھیجا تو ان لوگوں نےانھیں پکڑ کر قتل کردیا تھا، حالانکہ نبی کریم ﷺ سے ان کا معاہدہ تھا۔ (حضرت انس ؓنےفرمایا کہ) میں نے آپ ﷺ کو کسی معاملے میں اتنا غمگین اور رنجیدہ نہیں دیکھا جتنا ان (قراء) کی شہادت پر آپ غمناک ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3170]
حدیث حاشیہ:
1۔
جن قراء کو ان مشرکین نے شہید کیا وہ بڑے عالم اور قرآن کے عامل تھے۔
رسول اللہ ﷺ اس لیے غمناک ہوئے کہ یہ اگریہ زندہ رہتے تو ان کے ذریعے سے بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔
اسی لیے کہا جاتا ہے:
(مَوتُ العَالِمِ مَوتُ العَالَمِ)
یعنی ایک عالم کی موت پورے جہان کی موت ہے۔
2۔
اس حدیث کے مطابق مشرکین کا آپ سے عہد وپیمان تھا، جب انھوں نے عہد شکنی کرتے ہوئے ظلم اور بربریت کے ساتھ سترقرائے کرام کو شہید کردیا تو آپ نے ان کے خلاف بددعا کی اور پورا ایک مہینہ فرض نمازوں میں قنوت کرتے رہے۔
3۔
قنوت کے متعلق ہمارا موقف یہ ہے کہ قنوت نازلہ رکوع کے بعد اورقنوت وتررکوع سے پہلے ہے جیسا کہ سنن نسائی میں اس کی صراحت ہے۔
(سنن النسائي، التطبیق، حدیث: 1071 و کتاب قیام اللیل، حدیث: 1700)
اس مسئلے کے متعلق تفصیل پہلے گزرچکی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3170
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4089
4089. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے رکوع کے بعد ایک مہینہ قنوت پڑھی۔ آپ عرب کے قبائل کے خلاف بددعا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4089]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ نے جوستر70 قراء بھیجے تھے، وہ دن کے وقت لکڑیاں اکٹھی کرکے فروخت کرتے، پھر اس قیمت سے اہل صفہ کے لیے کھانا تیار کرتے اور رات کے وقت قرآن کریم پڑھتے اور پڑھاتے تھے۔
انھیں جس کام کے لیے روانہ فرمایا روایات میں اس کی وضاحت ہے کہ قبیلہ رعل اور ذکوان والوں نے رسول اللہ ﷺ سے فوجی مدد مانگی تو آپ نے ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ستر قاری ان کے ہمراہ روانہ کردیے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں دعوت دین اوراشاعت اسلام کے لیے بھیجا تھا۔
بہرحال یہ دونوں اغراض پیش نظر تھیں۔
تعلیم اسلام بھی مقصود تھی اور ان سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان کے ہمراہ کفار سے جہاد بھی کرنا ہے لہذا دونوں قسم کی روایات میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
بہرحال ان قراء کو قتل کرنے والے دوسرے لوگ تھے اگرچہ وہ ان کے قبیلے سے تھے۔
جو انھیں رسول اللہ ﷺ کے پاس لائے تھے وہ ان کے قاتل نہ تھے۔
اس سریے کو سریۃ القراء بھی کہا جاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ابوبراء عامر بن مالک رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، رسول اللہ ﷺ نے اسے اسلام کی دعوت دی لیکن مسلمان نہ ہوا بلکہ اس نے کہا کہ آپ میرے ساتھ کچھ لوگوں کو بھیج دیں جومیری قوم کو دین کی دعوت دیں، امید ہے کہ وہ اس دین کوقبول کرلیں گے۔
میں ان کی طرف سے ضمانت دیتا ہوں۔
آپ نے ستر قراء اس کے ہمراہ بھیج دیے۔
جب بئر معونہ کے پاس پہنچے تو انھوں نے حضرت حرام بن ملحان کو عامر بن طفیل کے پاس بھیجا جو ابوالبراء کا بھتیجا تھا۔
اس نےرعل اور ذکوان قبائل کو ساتھ ملا کر ان تمام قراء کو گھیر لیا۔
لڑائی ہوئی بالآخر یہ حضرات شہید ہوگئے۔
ابوبراء کو جب ان حضرات کی اطلاع ملی تو اس نے اظہار افسوس کیا۔
(فتح الباري: 483/7)
2۔
مصیبت، جنگ اور غلبہ دشمن کے وقت کی جانے والی دعا کو قنوت نازلہ کہا جاتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ جب کسی پر بددعا یاکسی کے لیے دعا کا ارادہ فرماتے توآخری رکعت کے رکوع کے بعد:
(سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ)
کہنے کے بعد اونچی آواز سے دعا فرماتے تھے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4559۔
4560)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4089
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4090
4090. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ قبیلہ رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے دشمن کے خلاف مدد مانگی تو آپ ﷺ نے ستر (70) انصار بھیج کر ان کی مدد فرمائی۔ اس زمانے میں ہم انہیں قراء کہا کرتے تھے۔ وہ دن کے وقت لکڑیاں چن کر لاتے اور رات کو شب خیزی میں گزارتے تھے۔ جب یہ حضرت بئر معونہ تک پہنچے تو انہوں نے ان قراء کو قتل کر دیا اور ان سے عہد شکنی کی۔ نبی ﷺ کو اس حادثے کی اطلاع ہوئی تو آپ نے مہینہ بھر قنوت نازلہ پڑھی۔ آپ رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان قبائل عرب پر صبح کی نماز میں بددعا فرماتے تھے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ان کے متعلق ہم قرآن مجید میں یہ آیات پڑھا کرتے تھے جنہیں بعد میں منسوخ کر دیا گیا: ”ہماری طرف سے ہماری قوم کو یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم اپنے رب کے پاس پہنچ گئے ہیں۔ وہ ہم سے راضی ہوا اور اس نے ہمیں بھی راضی کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4090]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خودرعل اور ذکوان قبائل عرب نے رسول اللہ ﷺ سے مدد مانگی تھی جبکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ خود عامر بن طفیل نے مجاہدین کے خلاف ان قبائل سے مدد مانگی تھی۔
ان روایات میں تضاد نہیں ہے کیونکہ ظاہری طور پررعل اور ذکوان نے اپنے اسلام کا اظہار کیا اور دشمنوں کے خلاف رسول اللہ ﷺ سے مدد مانگی لیکن باطن میں کفر چھپائے رکھا اور ان مجاہدین کے خلاف غداری کی اوردھوکے سے انھیں شہید کردیا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ قبیلہ بنو سلیم کے دوسرے لوگوں سے عامر بن طفیل نے مدد مانگی ہو تاکہ مجاہدین قراء کا مقابلہ کرکے ان کو شہید کردیاجائے۔
2۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس قصے میں بنولحیان کا ذکرکسی راوی کا وہم ہے کیونکہ ان کا ذکر غزوہ رجیع میں ہوا ہے جو حضرت خبیب ؓ کے قصے سے متعلق ہے وہ بئرمعونہ کے حادثے میں شامل تھے۔
(فتح الباري: 483/7)
ان قبائل کا جرم اتنا سنگین تھا کے ان کے لیے رسول اللہ ﷺ نے بددعا فرمائی اور ایسا کرنا ضروری تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی بددعا قبول فرمائی اور یہ قبائل صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔
الا ما شاء اللہ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4090
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4091
4091. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ان کے ماموں، حضرت ام سلیم ؓ کے بھائی کو بھی ستر (70) سواروں کے ساتھ بھیجا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ مشرکین کے سردار عامر بن طفیل نے آپ ﷺ کے سامنے تین صورتیں رکھی تھیں۔ اس نے آپ سے کہا کہ دیہاتی آبادی پر آپ کی اور شہری آبادی پر میری حکومت ہو گی یا میں آپ کا جانشین ہوں گا یا پھر دو ہزار غطفانی لشکر سے آپ پر حملہ کروں گا، چنانچہ وہ ام فلاں کے گھر میں مرض طاعون میں مبتلا ہوا، کہنے لگا: فلاں قبیلے کی عورت کے گھر میں جوان اونٹ کی طرح مجھے بھی غدود نکل آیا ہے، میرا گھوڑا لاؤ، چنانچہ وہ اپنے گھوڑے کی پشت پر ہی مر گیا۔ بہرحال ام سلیم کے بھائی حرام بن ملحان، ایک اور صحابی جو لنگڑے تھے اور تیسرے صحابی جن کا تعلق بنو فلاں سے تھا آگے بڑھے۔ حضرت حرام ؓ نے ان سے کہا: تم میرے قریب رہو۔ میں ان کے پاس جاتا ہوں اگر انہوں نے مجھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4091]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں عامر بن طفیل کی موت کا ذ کر ہے۔
حالانکہ اس کی موت کا سریہ قراء سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر عامر کی غداری کی وجہ سے قراء حضرات کی شہادت واقع ہوئی تھی، اس لیے اس کی موت کا ذکر بھی آگیا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کی غداری اور اپنے چچا ابوبراء کی امان کا لحاظ نہ کرنے پر اس کے خلاف بددعا فرمائی۔
بددعا کے الفاظ یہ ہیں:
اے اللہ!عامر کے شرسے مجھے کفایت فرما۔
اس پر بددعا کا اثر اس طرح ظاہر ہوا کہ طاعون کی گلٹی اس کے کان کے پیچھے نکل آئی جبکہ یہ ایک عورت کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔
چونکہ بہادر آدمی بستر پر موت پسند نہیں کرتا، اس لیے وہ فوراً گھوڑے پر سوار ہوا اور وہیں اسے موت نے آلیا۔
بہرحال اس کی موت کا واقعہ جملہ معترضہ کے طور پر ہے۔
سریہ قراء سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بئر معونہ کے حادثے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور مذکورہ گفتگو کی۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4091
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4096
4096. حضرت عاصم احول سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے نماز میں قنوت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ نماز میں قنوت مشروع ہے۔ میں نے پوچھا کہ رکوع سے پہلے یا اس کے بعد؟ حضرت انس ؓ نے فرمایا: رکوع سے پہلے ہے۔ میں نے کہا: فلاں شخص نے مجھے آپ کے حوالے سے بتایا کہ آپ نے رکوع کے بعد کہا ہے۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: اس نے غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ دراصل رسول اللہ ﷺ نے رکوع کے بعد صرف ایک مہینہ قنوت کی تھی جبکہ آپ نے ستر (70) قراء کو مشرکین کی طرف روانہ فرمایا، جبکہ رسول اللہ ﷺ اور ان مشرکین کے درمیان عہد و پیمان تھا لیکن ان لوگوں نے اس عہد کی پاسداری نہ کی اور وہ غالب آ گئے (اوران صحابہ کو شہید کر دیا)۔ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے مہینہ بھر قنوت فرمائی اور اس میں ان مشرکین کے خلاف بددعا کی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4096]
حدیث حاشیہ:
1۔
ان احادیث کو پیش کرنے کا مقصد کسی فقہی مسئلے کا بیان نہیں بلکہ صرف بئرمعونہ کے سانحہ کی مناسبت سے انھیں ذکر کیا گیا ہے۔
اس حادثے میں عامر بن طفیل کا بڑا ہاتھ تھا۔
پہلے اس نےبنو عامرقبیلے کو مسلمان قراء کے خلاف بھڑکایا۔
جب انھوں نے انکار کردیا قبیلہ رعل، ذکوان اور عصبہ کو جنگ پر آمادہ کیا۔
یہ قبائل بنو سلیم کے تھے اور ان سے بھی رسول اللہ ﷺ کا معاہدہ تھا مگر ان لوگوں نے عہد شکنی کی اور قراء کو ناحق مار ڈالا۔
رسول اللہ ﷺ کو اس درد ناک سانحے کا اس قدر رنج پہنچا اور اتنے غمگین ہوئے کہ جن قبائل نے قراء سے غداری کی تھی آپ ان پر مہینہ بھر بدعا کرتے رہے۔
2۔
بئر معونہ کے المیہ نے غزوہ احد کا چرچا تازہ کردیا اور یہ اس لحاظ سے زیادہ المناک تھا کہ شہدا ئے احد تو کھلی اور دو بدو جنگ میں شہید ہوئے تھے مگر یہ بے چارے ایک شرمناک غداری کی نذر ہوگئے۔
حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ میں نے آپ کو اس سے زیادہ غمگین کبھی نہیں دیکھا تھا۔
رضي اللہ عنهم أجمعین۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4096
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7341
7341. اور آپ ﷺ نے قبائل بنو سلیم کے خلاف مہینہ بھر قنوت کی جس میں ان پر بد دعا کی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7341]
حدیث حاشیہ:
1۔
انصار اور قریش کے درمیان ایک دوسرے کی مدد کرنے کا معاہدہ تھا۔
اسلام میں اس عقد حلف کی ممانعت ہے جو قتل وغارت کے لیے ایک دوسرے کی موافقت پر ہو۔
اس حدیث میں بھائی چارے کا ذکر ہے جسے اسلام نے جائز قرار دیا ہے۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس سے گھر کی عظمت بیان کرنا چاہتے ہیں جس میں یہ معاہدہ ہوا تھا۔
دوسری حدیث میں قبائل بنوسلیم پر بددعا کرنے کا ذکر ہے کیونکہ وہ بدباطن غدار تھے جنھوں نے چند قراء کو دھوکے سے اپنے پاس بلایا، پھر انھیں شہید کر ڈالا تھا۔
واضح رہے کہ ان کے درمیان بھی معاہدہ تھا لیکن انھوں نے عہد شکنی کی اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو شہید کیا۔
(صحیح البخاري، الوتر، حدیث: 1002)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7341