ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے (دوسری سند) مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ انہیں معمر نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں ابن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے متعلق جو اپنے کو مسلمان کہتا تھا ‘ فرمایا کہ یہ شخص دوزخ والوں میں سے ہے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو وہ شخص (مسلمانوں کی طرف) بڑی بہادری کے ساتھ لڑا اور وہ زخمی بھی ہو گیا۔ صحابہ نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ! جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ دوزخ میں جائے گا۔ آج تو وہ بڑی بے جگری کے ساتھ لڑا ہے اور (زخمی ہو کر) مر بھی گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اب بھی وہی جواب دیا کہ جہنم میں گیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ ممکن تھا کہ بعض لوگوں کے دل میں کچھ شبہ پیدا ہو جاتا۔ لیکن ابھی لوگ اسی غور و فکر میں تھے کہ کسی نے بتایا کہ ابھی وہ مرا نہیں ہے۔ البتہ زخم کاری ہے۔ پھر جب رات آئی تو اس نے زخموں کی تاب نہ لا کر خودکشی کر لی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ‘ اور انہوں نے لوگوں میں اعلان کر دیا کہ مسلمان کے سوا جنت میں کوئی اور داخل نہیں ہو گا اور اللہ تعالیٰ کبھی اپنے دین کی امداد کسی فاجر شخص سے بھی کرا لیتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 3062]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3062
حدیث حاشیہ: کہتے ہیں اس شخص کا نام فرمان تھا جو بظاہر مسلمان ہو گیا تھا‘ اس کی مجاہدانہ کیفیت دیکھ کر شیطان نے بظاہر تو لوگوں کو یوں بہکایا کہ ایسا شخص جو اللہ کی راہ میں اس طرح لڑ کر مارا جائے کیونکر دوزخی ہو سکتا ہے۔ یہ حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں ہے کہ ہم مشرک سے مدد نہ لیں گے۔ کیونکہ وہ ایک موقع کے ساتھ خاص ہے اور جنگ حنین میں صفوان بن امیہ آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔ حالانکہ وہ مشرک تھے‘ دوسرے یہ کہ یہ شخص بظاہر تو مسلمان تھا۔ مگر آپ کو وحی سے معلوم ہو گیا کہ یہ منافق ہے اور اس کا خاتمہ برا ہو گا۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3062
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3062
حدیث حاشیہ: 1۔ وہ شخص جس کے جہادی کار ناموں کا مسلمانوں میں خوب چرچا ہوا اس کی مجاہدانہ کیفیت کو دیکھ کر شیطان نے کچھ لوگوں کو یوں بہکایا کہ ایسا شخص جو اللہ کی راہ میں بے جگری سے لڑتا ہوا مارا جائے کیونکر دوزخی ہو سکتا ہے؟ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اس کی وضاحت فرمائی۔ 2۔ یہ حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں کہ جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ”ہم مشرک سے جنگ میں مدد نہیں لیتے“(صحیح مسلم، الجھاد والسیر، حدیث: 4700(1817) کیونکہ وہ ایک موقع کے ساتھ خاص ہے یا فاجر سے مراد غیر مشرک ہے۔ پہلا جواب زیادہ وزنی ہے کیونکہ جنگ حنین میں صفوان بن امیہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا اور وہ اس وقت مشرک تھا نیز وہ شخص بظاہر مسلمان تھا مگر رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی معلوم ہوا کہ یہ منافق ہے اور اس کا خاتمہ برا ہو گا۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3062
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6606
6606. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ خیبر میں تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کے متعلق، جو آپ کے ساتھ شریک جہاد اور اسلام کا دعوایدار تھا فرمایا: ”یہ جہنمی ہے۔“ جب جنگ شروع ہوئی تو اس آدمی نے بہت جم کر لڑائی میں حصہ لیا اور بہت زیادہ زخمی ہو گیا لیکن پھر بھی وہ ثابت قدم رہا۔ نبی ﷺ کے صحابہ کرام ؓ میں سے ایک صحابی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اللہ کے رسول! اس شخص کے بارے میں آپ کو معلوم ہے جس کے متعلق ابھی آپ نے فرمایا تھا کہ وہ دوزخی ہے؟َ وہ اللہ کے راستے میں بہت جم کر لڑا ہے اور بہت زیادہ زخمی ہوگیا ہے۔ نبی ﷺ نے اب بھی یہی فرمایا: ”وہ جہنمی ہے۔“ ممکن تھا کہ کچھ مسلمان شبے میں پڑ جاتے لیکن اس دوران میں اس شخص نے زخموں کی تاب نہ لا کر اپنا ترکش کھولا اور اس سے ایک تیر نکالا پھر اس سے خود کو ذبح کر لیا۔ اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:6606]
حدیث حاشیہ: بظاہر وہ شخص جہاد کر رہا تھا، مگر بعد میں اس نے خودکشی کر کے اپنے سارے اعمال کو ضائع کر دیا۔ باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔ فی الواقع عملوں کا اعتبار خاتمہ پر ہے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو توحید و سنت اور اپنی اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر خاتمہ نصیب کرے اور دم آخریں کلمہ طیبہ پر جان نکلے۔ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6606