ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ‘ ان سے زید بن اسلم نے ‘ ان سے ان کے والد نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہنی نامی اپنے ایک غلام کو (سرکاری) چراگاہ کا حاکم بنایا ‘ تو انہیں یہ ہدایت کی ‘ اے ہنی! مسلمانوں سے اپنے ہاتھ روکے رکھنا (ان پر ظلم نہ کرنا) اور مظلوم کی بددعا سے ہر وقت بچتے رہنا ‘ کیونکہ مظلوم کی دعا قبول ہوتی ہے۔ اور ہاں ابن عوف اور ابن عفان اور ان جیسے (امیر صحابہ) کے مویشیوں کے بارے میں تجھے ڈرتے رہنا چاہئے۔ (یعنی ان کے امیر ہونے کی وجہ سے دوسرے غریبوں کے مویشیوں پر چراگاہ میں انہیں مقدم نہ رکھنا) کیونکہ اگر ان کے مویشی ہلاک بھی ہو جائیں گے تو یہ رؤسا اپنے کھجور کے باغات اور کھیتوں سے اپنی معاش حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن گنے چنے اونٹوں اور گنی چنی بکریوں کا مالک (غریب) کہ اگر اس کے مویشی ہلاک ہو گئے ‘ تو وہ اپنے بچوں کو لے کر میرے پاس آئے گا ‘ اور فریاد کرے گا: یا امیرالمؤمنین! یا امیرالمؤمنین! تو کیا میں انہیں چھوڑ دوں گا (یعنی ان کو پالنا) تمہارا باپ نہ ہو؟ اس لیے (پہلے ہی سے) ان کیلئے چارے اور پانی کا انتظام کر دینا میرے لیے اس سے زیادہ آسان ہے کہ میں ان کیلئے سونے چاندی کا انتظام کروں اور اللہ کی قسم! وہ (اہل مدینہ) یہ سمجھتے ہوں گے کہ میں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے کیونکہ یہ زمینیں انہیں کی ہیں۔ انہوں نے جاہلیت کے زمانہ میں اس کے لیے لڑائیاں لڑیں ہیں اور اسلام لانے کے بعد بھی ان کی ملکیت کو بحال رکھا گیا ہے۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر وہ اموال (گھوڑے وغیرہ) نہ ہوتے جن پر جہاد میں لوگوں کو سوار کرتا ہوں تو ان کے علاقوں میں ایک بالشت زمین کو بھی میں چراگاہ نہ بناتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 3059]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3059
حدیث حاشیہ: حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اور حضرت عثمان غنی ؓ ہر دو مالدار تھے‘ حضرت عمر ؓ کا مطلب یہ تھا کہ ان کے تمول سے مرعوب ہو کر ان کے جانوروں کو مقدم نہ کیا جائے بلکہ غریبوں کے جانوروں کا حق پہلے ہے۔ اگر غریبوں کے جانور بھوکے مر گئے تو بیت المال سے ان کو نقد وظیفہ دینا پڑے گا۔ آخر حدیث میں حضرت عمر ؓ کا جو قول مروی ہے اسی سے ترجمہ باب نکلتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے زمین کی نسبت فرمایا کہ اسلام کی حالت میں بھی ان ہی کی رہی‘ تو معلوم ہوا کہ کافر کی جائیداد غیر منقولہ بھی اسلام لانے کے بعد اسی کی ملک میں رہتی ہے گو وہ کافر دارالحرب میں رہے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3059
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3059
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3059 کا باب: «بَابُ إِذَا أَسْلَمَ قَوْمٌ فِي دَارِ الْحَرْبِ، وَلَهُمْ مَالٌ وَأَرَضُونَ، فَهْيَ لَهُمْ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اثر سے قبل جو مرفوع حدیث پیش کی ہے وہ بھی اس اثر سے مطابقت رکھتی ہے، دراصل امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود حنفیہ کا رد کرنا ہے، وہ کہتے ہیں: اگر حربی کافر مسلمان ہو کر دار الحرب میں رہے پھر مسلمان اس ملک کو فتح کریں تو تمام اس کی جائیداد وغیرہ مسلمانوں کو ملیں گی، اسے محروم کر دیا جائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جو مرفوع حدیث سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی ہے اس میں واضح طور پر یہ اشارہ ہے: «قلت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم اين تنزل غدا فى حجته؟ قال: ”وهل ترك لنا عقيل منزلا . . .“.»[صحيح البخاري، كتاب الجهاد، رقم الحديث: 3058] سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے حجۃ الوداع کے موقع پر عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل آپ (مکہ میں) کہاں قیام فرمائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عقیل نے ہمارے لئے کوئی گھر چھوڑا ہی کب ہے . . .۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے تشریف لائے تو عقیل اس وقت ایمان نہیں لائے تھے، وہ مکہ میں رہے، انہوں نے اپنی تمام جائیداد اور مکانات بیچ دیئے۔ اب ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہو گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح ہونے کے بعد بھی ان مکانوں اور جائیداد کی بیع قائم رکھی اور عقیل کی ملکیت تسلیم کر لی، لہذا جب عقیل کے تصرفات قبل اسلام ثابت ہوئے تو بعد اسلام بطریق اولی نافذ ہوئے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «أشار بذالك إلى الرد على من قال من الحنفية أن الحربي إذا أسلم فى دار الحرب و أقام بها غلب المسلمون عليها فهو أحق بجميع ماله إلا أرضه و عقاره فما تكون فينا للمسلمين، وقد خالفهم أبويوسف فى ذالك وافق الجمهور، و يوافق الترجمة حديث أخرجه أحمد عن صخر بن العيلة البجلي قال: فرقوم من بني سليم عن أرضهم فأخذتها، فأسلموا فارسلوني إلى النبى صلى الله عليه وسلم فردها عليهم و قال: إذا أسلم الرجل فهو أحق بأرضه وماله.»[فتح الباري، ج 6، ص: 316] امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا کہ ان لوگوں کا رد فرما رہے ہیں جو احناف میں سے ہیں جن کا کہنا ہے کہ حربی جب دار الحرب میں اسلام لے آئے اور وہیں اقامت پذیر ہو اور وہاں جب مسلمان غالب ہو جائیں تو ان کا حق ہے اس کے تمام اموال پر مگر زمین اور غیر منقول اشیاء (یعنی گھر، باغ وغیرہ) پس تحقیق وہ اشیاء مسلمانوں کے لئے مال غنیمت ہوا کرتی ہیں، اور ان کی مخالفت ابویوسف نے کی ہے اور موافقت کی ہے جمہور سے اور نکالا اس حدیث کو احمد نے بطریق صخر بن العیلہ البجلی، فرمایا کہ ایک قوم بنی سلیم کی اپنی زمین چھوڑ کر بھاگ گئی اور ایک شخص نے ان کی زمین لے لی، جب وہ مسلمان ہو گئے تو اپنی زمین کا مسئلہ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زمینیں انہیں واپس لوٹا دیں، اور ارشاد مبارک فرمایا: ”جب آدمی مسلمان ہو تو وہ لائق تر ہے اپنے مال اور زمین کے (کہ اسے لوٹا دی جائیں)“، لہذا یہاں سے حدیث اور ترجمۃ الباب کی وجہ مناسبت موجود ہے۔ اسی مسئلہ کے ساتھ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اثر بھی وابستہ ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اثر سے جو بات ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ مدینے کے باشندوں پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شفقت فرمائی کہ جب وہ اسلام لے آئے تو ان کی زمینوں پر ان کی ملکیت کو برقرار رکھا۔ امام الزرقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «قال مهلب: انما قال عمر رضي الله عنه ذالك لأن أهل المدينة أسلموا عفوا فكانت أموالهم لهم ولذا ساوم صلى الله عليه وسلم بني النجار بمكان مسجده . . .»[شرح الزرقاني، ج 4، ص: 555] یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اس لئے فرمایا تھا کہ مدینے والے عفو پر مسلمان ہوئے تھے اور ان کے اموال انہیں کے لئے تھے، اس سبب پر مول چکایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نجار سے مکان و مسجد کے اپنی اور جو مسلمان ہو اہل قبر سے پس ان کی زمین مسلمانوں کے لئے ہیں اس لئے کہ مسلمان غالب ہوئے ان کے شہروں پر جس طرح غالب ہوئے ان کے اموال پر بخلاف اہل صلح کے۔ لہذا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اثر سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے ان کے اموال کو انہی کی ملکیت میں رہنے دیا، پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ فائدہ: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وهذا الحديث ليس فى المؤطأ.»[فتح الباري، ج 6، ص: 218] ”یہ حدیث موطا میں نہیں ہے۔“ لیکن یہ حدیث موطا میں موجود ہے: «قال الاستاذ محمد فؤاد عبدالباقي: هذا الحديث فى الموطأ، كتاب الدعوة المظلوم 1، باب ما يتقى من دعوة المظلوم.» اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کیوں فرمایا کہ یہ حدیث مؤطا میں نہیں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے پاس جو نسخہ ہو گا اس نسخے میں یہ حدیث موجود نہیں ہو گی۔ صاحب اوجز المالک رقمطراز ہیں: «و يمكن الاعتذار عن الحافظ انه يمكن أن لا يكون فى نسخته من ”الموطأ“»[أوجز الماللك، ج 15، ص: 371] یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی طرف سے یہ عذر پیش کیا جا سکتا ہے کہ ان کے زیر نظر موطأ کا جو نسخہ تھا ممکن ہے اس میں یہ اثر نہ ہو۔ موجودہ دور میں کئی ایک نسخے موطأ امام مالک کے موجود ہیں، مثلا: ① «رواية يحيي بن يحيي.» ② «رواية عبدالرحمن بن القاسم.» ③ «رواية أبى مصعب الظاهري.» ④ «رواية عبدالله بن مسلمة القعنبي وغيره.»
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3059
حدیث حاشیہ: 1۔ حمی اس چراگاہ کو کہا جاتا ہے جسے حاکم صدقے کے جانوروں کے لیے مختص کردے،ایسی چراگاہ میں غریبوں کے جانوروں کا پہلے حق ہے کیونکہ اگر ان کے جانور بھوکے مر گئے تو بیت المال سے انھیں نقد وظیفہ دینا پڑے گا، اس کے برعکس اگر مال داروں کے جانور ہلاک ہو گئے تو وہ اپنے باغات اور زراعت کی طرف رجوع کرلیں گے۔ اور بیت المال سے نقد وظیفے کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی گاؤں کی شاملات جہاں لوگ مویشی وغیرہ چراتے ہیں وہ گاؤں والوں کا حق ہے حاکم وقت انھیں فروخت نہیں کر سکتا۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان حضرت عمر ؓ کے ارشاد سے ثابت کیا۔ ”وہ زمین انھی کی تھی زمانہ جاہلیت میں انھوں نے اس کے لیے لڑائیاں لڑیں اور اسلام لانے کے بعد انھی کی ملکیت میں رہی۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ کافر کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد اسلام لانے کے بعد اسی کی رہتی ہے اگرچہ وہ دارالحرب ہی میں رہے جبکہ کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ صرف منقولہ جائیداد کے حق دار ہیں لیکن غیر منقولہ جائیداد حکومت کی ملکیت ہوگی مذکورہ حدیث کی بنا پر یہ موقف محل نظر ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3059