ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا ‘ انہیں حصین بن عبدالرحمٰن نے ‘ ان سے عمرو بن میمون نے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے (وفات سے تھوڑی دیر پہلے) فرمایا کہ میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو اس کی وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا (ذمیوں سے) جو عہد ہے اس کو وہ پورا کرے اور یہ کہ ان کی حمایت میں ان کے دشمنوں سے جنگ کرے اور ان کی طاقت سے زیادہ کوئی بوجھ ان پر نہ ڈالا جائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 3052]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3052
حدیث حاشیہ: ذمی ان غیر مسلموں کو کہتے ہیں جو اسلامی حکومت کے حدود میں رہتے ہیں۔ اسلام میں ایسے تمام غیر مسلموں کی جان و مال عزت و آبرو مسلمانوں کی طرح ہے اور اگر ان پر کسی طرف سے کوئی آنچ آتی ہو تو حکومت اسلامی کا فرض ہے کہ ان کی حفاظت کے لئے ان کے دشمنوں سے اگر جنگ بھی کرنی پڑے تو ضرور کریں اور ان سے کوئی بد عہدی نہ کریں۔ آخر میں جزیہ کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اسی قدر لگایا جائے جسے وہ بخوشی برداشت کر سکیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3052
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3052
حدیث حاشیہ: ذمی اس غیر مسلم کو کہا جاتا ہے۔ جو ٹیکس ادا کرکے اسلامی حکومت کی حدود میں رہتا ہو۔ اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ذمیوں کی حفاظت کرے اور ان سے بد عہدی نہ کی جائے ان کے حق میں وصیت کرنے کا تقاضا ہے کہ عہد توڑنے کی صورت میں انھیں غلام نہ بنایا جائے جبکہ ابن قاسم کا موقف ہے کہ عہد توڑنے کی صورت میں انھیں غلام بنایا جا سکتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے ان کی تردید کرتے ہوئے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ آئمہ اربعہ کا اس امر پر اجماع ہے کہ انھیں غلام بنانا جائز نہیں بلکہ اگر ان پر کسی طرف سے کوئی حملہ ہو تو ان کا دفع کرتے ہوئے ان کے دشمنوں سے جنگ کرنا ضروری ہے نیز ان سے کسی قسم کی بدعہدی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3052