ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوحازم نے بیان کیا ‘ کہا کہ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے شاگردوں نے پوچھا کہ (جنگ احد میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کا علاج کس دوا سے کیا گیا تھا؟ سہل نے اس پر کہا کہ اب صحابہ میں کوئی شخص بھی ایسا زندہ موجود نہیں ہے جو اس کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہو۔ علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی بھربھر کر لا رہے تھے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے خون کو دھو رہی تھیں۔ اور ایک بوریا جلایا گیا تھا اور آپ کے زخموں میں اسی کی راکھ کو بھر دیا گیا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 3037]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3037
حدیث حاشیہ: باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ جنگ احد میں آنحضرتﷺ کو کافی زخم آئے تھے‘ ایک بوریا جلا کر آپ کے زخموں میں اس کی راکھ کو بھرا گیا‘ اور چہرہ مبارک سے خون کو دھویا گیا‘ سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ نے ان خدمتوں کو انجام دیا تھا‘ میدان جنگ میں عورتوں کا جنگی خدمات انجام دینا بھی ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3037
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3037
حدیث حاشیہ: 1۔ غزوہ اُحد کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے سر مبارک پر زخم آیا اور عتبہ بن ابی وقاص کے پتھر مارنے سے آپ کا چہرہ انور زخمی ہوا۔ جب زخم دھویاگیا توخون زیادہ بہنے لگا۔ بالآخر بوریاجلا کر اس کی راکھ سے زخم بھردیاگیا تو خون رک گیا۔ زخموں کو خشک کرنے کے لیے بوریا جلا کر اس کی راکھ استعمال کرنا زمانہ قدیم سے معمول چلاآرہا ہے۔ آج بھی مجاہدین کے لیے یہی ہدایت ہے۔ 2۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میدان جہاد میں اگرباپ زخمی ہوجائے تو اس کی بیٹی ہر ممکن اس کی خدمت کرسکتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3037
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 243
´عورت کا اپنے باپ کے چہرے سے خون دھونا جائز ہے` «. . . حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، سَمِعَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ وَسَأَلَهُ النَّاسُ، وما بيني وبينه أحد بأي شيء دووي جرح النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا بَقِيَ أَحَدٌ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، " كَانَ عَلِيٌّ يَجِيءُ بِتُرْسِهِ فِيهِ مَاءٌ، وَفَاطِمَةُ تَغْسِلُ عَنْ وَجْهِهِ الدَّمَ، فَأُخِذَ حَصِيرٌ فَأُحْرِقَ فَحُشِيَ بِهِ جُرْحُهُ " . . . .» ”. . . ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ابن ابی حازم کے واسطے سے نقل کیا، انہوں نے سہل بن سعد الساعدی سے سنا کہ لوگوں نے ان سے پوچھا، اور (میں اس وقت سہل کے اتنا قریب تھا کہ) میرے اور ان کے درمیان کوئی دوسرا حائل نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (احد کے) زخم کا علاج کس دوا سے کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا جاننے والا (اب) مجھ سے زیادہ کوئی نہیں رہا۔ علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی لاتے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے خون دھوتیں پھر ایک بوریا کا ٹکڑا جلایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم میں بھر دیا گیا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ غَسْلِ الْمَرْأَةِ أَبَاهَا الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ:: 243]
� تشریح: اس حدیث سے دوا اور علاج کرنے کا جواز ثابت ہوا اور یہ کہ یہ توکل کے منافی نہیں۔ نیز یہ کہ نجاست دور کرنے میں دوسروں سے مدد لینا درست ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 243
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5248
5248. سیدنا ابو حازم سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ لوگوں نے اس امر میں اختلاف کیا کہ غزوہ احد میں رسول اللہ ﷺ کے زخم کی مرہم پٹی کس چیز سے کی گئی تھی؟ انہوں نے اس سلسلے میں سیدنا سہل بن سعد ساعدی ؓ سے رابطہ کیا۔۔۔ وہ مدینہ طیبہ میں نبی ﷺ کے صحابہ کرام ؓم میں سے آخری صحابہ تھے جو باقی رہے۔۔ انہوں نے فرمایا: واقعی لوگوں میں کوئی بھی باقی نہیں رہا جو اس معاملے میں مجھ سے زیادہ جاننے والا ہو۔ سیدہ فاطمہ ؓ آپ ﷺ کے چہرہ انور سے خون صاف کرتے تھیں اور سیدنا علی ؓ اپنی ڈھال میں پانی لاتے تھے۔ (جب خون بند نہ ہوا تو) پھر ایک بوریا جلا کر اس کی راکھ سے زخم بھر دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5248]
حدیث حاشیہ: اس آیت میں پہلے اللہ پاک نے یوں فرمایا، (وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا) (النور: 31) یعنی جس زینت کے کھولنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً آنکھیں، ہتھیلیاں وہ سب پر کھول سکتی ہیں مگر باقی زینت جیسے گلا، سر، سینہ، پنڈلی وغیرہ یہ غیر مردوں کے سامنے نہ کھولیں مگر اپنے خاوند کے سامنے یا باپ یا سسر کے سامنے اخیر آیت تک۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس باب میں لائے۔ اس کی مطابقت یوں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والد یعنی آنحضرت کا زخم دھویا تو اس میں زینت کھولنے کی ضرورت ہوئی ہوگی۔ معلوم ہوا کہ باپ کے سامنے عورت اپنی زینت کھول سکتی ہے۔ اسی سے باب کا مطلب نکلتا ہے۔ فانھم ولا تکن من القاصرین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5248
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5722
5722. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا کہ جب نبی ﷺ کے سر مبارک پر خود ٹوٹ گیا اور آپ کا چہرہ مبارک خون آلود ہو گیا، نیز سامنے کے دو دانت بھی ٹوٹ گئے تو حضرت علی بن ابی طالب ؓ اپنی ڈھال میں پانی بھر بھر کر لاتے تھے اور سیدہ فاطمہ ؓ آپ کے چہرہ مبارک سے خون دھو رہی تھیں۔ پھر جب سیدہ فاطمہ ؓ نے دیکھا کہ خون پانی سے بھی زیادہ آ رہا ہے تو انہوں نے ایک چٹائی جلا کر اس کی راکھ رسول اللہ ﷺ کے ذخموں پر لگائی تو خون رک گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5722]
حدیث حاشیہ: خود لوہے کا سر کو ڈھانکنے والا کن ٹوپ یہ ٹوٹ کر چہرہ مبارک میں گھس گیا تھا اس وجہ سے چہرہ خون آلود ہو گیا تھا اس موقع کا ذکر ہے باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے یہ جنگ احد کا واقعہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5722
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 243
243. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے، لوگوں نے ان سے سوال کیا: نبی ﷺ کے زخم پر کون سی دوا استعمال کی گئی تھی؟ انھوں نے فرمایا: اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی شخص نہیں رہا۔ حضرت علی ؓ اپنی ڈھال میں پانی لاتے تھے اور سیدہ فاطمہ ؓ آپ کے چہرہ مبارک سے خون دھوتی تھیں۔ پھر ایک بوریا لایا گیا اور اسے جلانے کے بعد اس کی راکھ کو آپ کے زخم میں بھر دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:243]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے دوا اور علاج کرنے کا جواز ثابت ہوا اور یہ کہ یہ توکل کے منافی نہیں۔ نیز یہ کہ نجاست دورکرنے میں دوسروں سے مدد لینا درست ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 243
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5248
´اللہ کا سورۃ النور میں یہ فرمانا ”اور عورتیں اپنے زینت اپنے شوہر کے سوا کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں“` «. . . عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ:" اخْتَلَفَ النَّاسُ بِأَيِّ شَيْءٍ دُووِيَ جُرْحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ، فَسَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ وَكَانَ مِنْ آخِرِ مَنْ بَقِيَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ، فَقَالَ: وَمَا بَقِيَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، كَانَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام تَغْسِلُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ وعَلِيٌّ يَأْتِي بِالْمَاءِ عَلَى تُرْسِهِ، فَأُخِذَ حَصِيرٌ، فَحُرِّقَ، فَحُشِيَ بِهِ جُرْحُهُ . . .» ”. . . ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا کہ اس واقعہ میں لوگوں میں اختلاف تھا کہ احد کی جنگ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کون سی دوا استعمال کی گئی تھی۔ پھر لوگوں نے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، وہ اس وقت آخری صحابی تھے جو مدینہ منورہ میں موجود تھے۔ انہوں نے بتلایا کہ اب کوئی شخص ایسا زندہ نہیں جو اس واقعہ کو مجھ سے زیادہ جانتا ہو۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے خون دھو رہی تھیں اور علی رضی اللہ عنہ اپنے ڈھال میں پانی بھر کر لا رہے تھے۔ (جب بند نہ ہوا تو) ایک بوریا جلا کر آپ کے زخم میں بھر دیا گیا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5248]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5248 کا باب: «بَابُ: {وَلاَ يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلاَّ لِبُعُولَتِهِنَّ} إِلَى قَوْلِهِ: {لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ}:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنی زیبائش و زینت کی چیز اپنے خاوند یا محرم کے سوا کسی اور پر ظاہر نہیں کر سکتی اور اس مسئلے کی تائید کے لیے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ درج فرمایا ہے، لیکن بظاہر باب اور حدیث میں مناسبت دکھائی نہیں دیتی، شارحین نے اس مناسبت کو قائم کرنے کے لئے کچھ معروضات پیش کی ہیں۔
چنانچہ عبدالحق ہاشمی رحمہ اللہ راقم ہیں: «باشرت ذالك من أبيها مع حضرة بعلها، فيطابق الاية، وهى جواز ابداء زينتها لأبيها وبعلها.»[لب اللباب: 214/4] ”سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند کی موجودگی میں مرہم پٹی کی اپنے والد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی، پس مطابقت ترجمۃ الباب سے حدیث کا ہونا یہاں سے ثابت ہوا اور یہ جواز ہے کہ عورت اپنی زینت (چہرہ، ہتھیلیاں وغیرہ) اپنے خاوند اور والد کے سامنے کھول سکتی ہے۔“
عبدالحق ہاشمی رحمہ اللہ کے اس مفید قول سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود پتہ چلتا ہے کہ عورت اپنے مواقع زینت کو شوہر، اپنے والد اور اپنے بیٹے وغیرہ کے سامنے کھول سکتی ہے۔
محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض آیت اور حدیث سے یہ بتلانا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے لازماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرہم پٹی کے لیے اپنے ہاتھوں اور چہرے کو کھولا ہو گا، پس یہیں سے ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔“[الابواب و التراجم: 578/5]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:243
243. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے، لوگوں نے ان سے سوال کیا: نبی ﷺ کے زخم پر کون سی دوا استعمال کی گئی تھی؟ انھوں نے فرمایا: اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی شخص نہیں رہا۔ حضرت علی ؓ اپنی ڈھال میں پانی لاتے تھے اور سیدہ فاطمہ ؓ آپ کے چہرہ مبارک سے خون دھوتی تھیں۔ پھر ایک بوریا لایا گیا اور اسے جلانے کے بعد اس کی راکھ کو آپ کے زخم میں بھر دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:243]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک پر غزوہ احد کے وقت زخم لگا تھا۔ جب پانی ڈالنے سے خون بند نہ ہوا تو ایک پرانا بوریا جلا کر اس کی راکھ زخم میں بھر دی گئی۔ یہ راکھ اپنے اندر یہ خصوصیت رکھتی ہے کہ اس سے خون فوراً بند ہوجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کا ختنہ کرنے کے بعد اس مقام پر راکھ لگا دی جاتی ہے، لیکن آج کل ترقی یافتہ دور میں جدید سہولیات سے فائدہ اٹھایا جاتاہے۔ ڈاکٹر حضرات سے ختنہ کرانے میں دو فائدے ہیں: * بچے کوتکلیف نہیں ہوتی، کیونکہ وہ ختنے سے پہلے ٹیکہ لگا کرسن کردیتے ہیں۔ * ایسی ادویات استعمال کی جاتی ہیں جن سے زخم جلدی مندمل ہوجاتا ہے۔ 2۔ حضرت سہل ؓ نے فرمایا کہ اس وقت مجھ سے زیادہ جاننے والاکوئی نہیں، کیونکہ یہ واقعہ غزوہ احد کے موقع پر پیش آیا اور جب حضرت سہل نے یہ حدیث بیان کی تو اس وقت اس واقعے پر اسی سال سے زائد عرصہ بیت چکا تھا اورحضرت سہل مدینے میں سب سے آخری وفات پانے والے صحابی ہیں۔ انھوں نے 91 ہجری میں وفات پائی۔ جبکہ ان کی عمر سوسال ہوچکی تھی۔ (فتح الباري: 462/1) علامہ ابن بطال نے اس حدیث سے مندرجہ ذیل فوائد کا استخراج کیا ہے: ۔ * عورت اپنے باپ اور دیگر محارم کی خدمت اور تیمارداری کے پیش نظر ان کا بدن چھوسکتی ہے۔ * دوا اور علاج کا جواز معلوم ہوا اور ایسا کرنا توکل کے منافی نہیں۔ * علاج معالجے میں دوسروں سے مدد لینے کا جواز ثابت ہوا۔ * بوریا جلاکر اس کی راکھ زخموں پر لگانے کی افادیت معلوم ہوئی۔ * مصائب وآلام میں حضرات انبیاء علیہ السلام کو بھی مبتلا کیا جاتارہا ہے۔ * لوگ اگرکسی چیز سے واقف نہ ہوں تو اہل علم سے استفسار کاحق رکھتے ہیں۔ (شرح ابن بطال: 362/1 وعمدة القاري: 689/2) 4۔ عنوان میں (عَن وَجهِه) کا اضافہ صرف مطابقت واقعہ کی رعایت سے کیا گیا ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ اپنے دست مبارک سے رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک دھورہی تھیں۔ یہ مطلب نہیں کہ اگر چہرے کے علاوہ بدن کے کسی اور حصے کو ہاتھ لگائے تو اس کا الگ حکم ہوگا۔ اور اس روایت کو کتاب الوضوء میں لانے کی مناسبت یہ ہے کہ وضو لغوی لحاظ سے وضاءة سے مشتق ہے جس کے معنی حسن ونظافت ہیں، لہذا چہرسے سے خون کی آلائش کو دورکرنا اس میں داخل ہوگا، لیکن ارباب: ”تدبر“ نے توامام بخاری ؒ پر طعن کی ہے، چنانچہ اصلاحی صاحب کہتے ہیں: ” اس میں کسی شرعی حکم کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس باب پرباندھنے کی ضرورت نہ تھی۔ “(تدبرحدیث: 334/1) لیکن ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ کی یہ عظمت ہے کہ ان کے مخالفین بھی چاروناچار ان کی دقت نظر کا اعتراف کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں، چنانچہ اصلاحی صاحب امام بخاری کی باریک بینی بایں الفاظ بیان کرتے ہیں: ”اگرسیدہ فاطمہ ؓ نے نبی کریم ﷺ کا زخم دھویا تو یہ تاریخ کا بڑا اہم واقعہ ہے۔ دنیا کی تمام خواتین کے لیے اورلڑکیوں کے لیے یہ ایک نمونہ ہے۔ اس حوالے سے امام صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اعضائے وضو پر زخم وغیرہ کی صورت میں وضو میں کسی دوسرے سے مدد لی جاسکتی ہے۔ “(تدبر حدیث: 334/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 243
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4075
4075. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، ان سے رسول اللہ ﷺ کے زخموں کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زخموں کو کس نے دھویا تھا، ان پر کس نے پانی ڈالا تھا اور کس دوا سے آپ کا علاج کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: رسول اللہ ﷺ کی دختر حضرت فاطمہ ؓ خون دھو رہی تھیں اور حضرت علی ؓ ڈھال سے پانی ڈال رہے تھے۔ جب سیدہ فاطمہ ؓ نے دیکھا کہ پانی ڈالنے سے خون مزید بہہ رہا ہے تو انہوں نے چٹائی کا ایک ٹکڑا لیا اور اسے جلا کر اس کی راکھ سے زخم بھر دیا تو خون رک گیا۔ اس دن آپ ﷺ کے اگلے دو دانت بھی متاثر ہوئے۔ آپ کا چہرہ مبارک خون آلود ہوا اور آپ کے سر مبارک پر آپ کا خود ٹوٹ گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4075]
حدیث حاشیہ: 1۔ اُحد کے دن جب مشرکین میدان چھوڑ کر بھاگ گئے تو صحابیات زخمیوں کی تیمارداری کے لیے میدان اُحد میں آئیں، ان میں حضرت فاطمہ ؓ بھی تھیں۔ جب انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو زخمی حالت میں دیکھا توآپ سے چمٹ گئیں، پھر آپ کے زخموں کو پانی سے دھونے لگیں تو پانی سے خون اور زیادہ بہنے لگا، اس کے بعد چٹائی کاٹکڑا لیا اور اسے جلا کر راکھ کو زخم پر چپکا دیا، اس کے بعد خون بند ہوگیا، اس کےبعد آپ نے فرمایا: ”اس قوم پر اللہ کا غضب سخت ہوجاتاہے جو اپنے نبی کے چہرے کو خون آلود کردیتی ہے۔ “ 2۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیائے کرام ؑ کو بھی عوارضات لاحق ہوئے ہیں، انھیں بیماریاں بھی لگتی ہیں تاکہ ان کے درجات بلند ہوں اور قوم انھیں دیکھ کر صبر واستقامت کا مظاہرہ کرے۔ اس سے بیماری کے وقت علاج کرنے کا بھی ثبوت ملتا ہے۔ (فتح الباري: 466/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4075
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5248
5248. سیدنا ابو حازم سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ لوگوں نے اس امر میں اختلاف کیا کہ غزوہ احد میں رسول اللہ ﷺ کے زخم کی مرہم پٹی کس چیز سے کی گئی تھی؟ انہوں نے اس سلسلے میں سیدنا سہل بن سعد ساعدی ؓ سے رابطہ کیا۔۔۔ وہ مدینہ طیبہ میں نبی ﷺ کے صحابہ کرام ؓم میں سے آخری صحابہ تھے جو باقی رہے۔۔ انہوں نے فرمایا: واقعی لوگوں میں کوئی بھی باقی نہیں رہا جو اس معاملے میں مجھ سے زیادہ جاننے والا ہو۔ سیدہ فاطمہ ؓ آپ ﷺ کے چہرہ انور سے خون صاف کرتے تھیں اور سیدنا علی ؓ اپنی ڈھال میں پانی لاتے تھے۔ (جب خون بند نہ ہوا تو) پھر ایک بوریا جلا کر اس کی راکھ سے زخم بھر دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5248]
حدیث حاشیہ: اس آیت کریمہ میں باپ کے سامنے اپنی زینت کھولنے کی اجازت کا بھی ذکر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس سلسلے میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث لائے ہیں کہ انھوں نے اپنے والد گرامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زخم دھویا اور اس میں بوریا جلا کر اس کی راکھ بھری۔ اس کام میں زینت کھولنے کی ضرورت پڑی۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورت اپنے باپ کے سامنے زینت کھول سکتی ہے۔ (فتح الباري: 426/9) لیکن اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کتاب النکاح میں میاں بیوی کے مسائل بیان ہو رہے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان میں ذکر کیا ہے کہ عورت اپنے خاوند کے سامنے اپنی زینت کا اظہار کرسکتی ہے۔ اس حدیث کے مطابق سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کے شوہر نامدار حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے جو پانی لانے کی خدمت سرانجام دے رہے تھے۔ اس سلسلے میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی زینت، یعنی چہرہ اور ہاتھ وغیرہ چھپانے کا کوئی اہتمام نہیں کیا۔ اسی سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنا مدعا ثابت کیا ہے۔ والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5248
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5722
5722. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا کہ جب نبی ﷺ کے سر مبارک پر خود ٹوٹ گیا اور آپ کا چہرہ مبارک خون آلود ہو گیا، نیز سامنے کے دو دانت بھی ٹوٹ گئے تو حضرت علی بن ابی طالب ؓ اپنی ڈھال میں پانی بھر بھر کر لاتے تھے اور سیدہ فاطمہ ؓ آپ کے چہرہ مبارک سے خون دھو رہی تھیں۔ پھر جب سیدہ فاطمہ ؓ نے دیکھا کہ خون پانی سے بھی زیادہ آ رہا ہے تو انہوں نے ایک چٹائی جلا کر اس کی راکھ رسول اللہ ﷺ کے ذخموں پر لگائی تو خون رک گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5722]
حدیث حاشیہ: (1) حصیر، عربوں میں کھجور کے پتوں سے بنائی جاتی تھی۔ راکھ کھجور کے پتوں کی ہو یا پٹ سن کے بورے کی یا سوتے کپڑے کی، خون بند کر دیتی ہے۔ اس سے خون کی رگیں بند کرنا مقصود تھا، انہیں بند کرنے سے خون خود بخود بند ہو جاتا ہے۔ (2) راکھ کی یہ خصوصیت ہے کہ جب اسے زخم پر چپکا دیا جاتا ہے تو یہ خون بند کر دیتی ہے اور اس کے جاری ہونے کی جگہ کو بھی خشک کر دیتی ہے، چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے: (باب التداوي بالرماد) ”راکھ سے علاج کرنا۔ “ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ پانی کے ساتھ خون کو اس وقت دھویا جائے جب زخم گہرا نہ ہو لیکن جب زخم گہرا ہو تو اس میں پانی پڑ جانے سے نقصان کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ (فتح الباري: 215/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5722