الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
127. بَابُ الرِّدْفِ عَلَى الْحِمَارِ:
127. باب: ایک گدھے پر دو آدمیوں کا سوار ہونا۔
حدیث نمبر: 2988
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ يُونُسُ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَقْبَلَ يَوْمَ الْفَتْحِ مِنْ أَعْلَى مَكَّةَ عَلَى رَاحِلَتِهِ مُرْدِفًا أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، وَمَعَهُ بِلَالٌ، وَمَعَهُ عُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ مِنَ الْحَجَبَةِ حَتَّى أَنَاخَ فِي الْمَسْجِدِ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَأْتِيَ بِمِفْتَاحِ الْبَيْتِ فَفَتَحَ وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ أُسَامَةُ، وَبِلَالٌ، وَعُثْمَانُ فَمَكَثَ فِيهَا نَهَارًا طَوِيلًا، ثُمَّ خَرَجَ فَاسْتَبَقَ النَّاسُ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَوَّلَ مَنْ دَخَلَ فَوَجَدَ بِلَالًا وَرَاءَ الْبَابِ قَائِمًا، فَسَأَلَهُ أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَأَشَارَ لَهُ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي صَلَّى فِيهِ، قَالَ: عَبْدُ اللَّهِ فَنَسِيتُ أَنْ أَسْأَلَهُ كَمْ صَلَّى مِنْ سَجْدَةٍ؟".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، انہیں نافع نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے بالائی علاقے سے اپنی سواری پر تشریف لائے۔ اسامہ رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر پیچھے بٹھا دیا تھا اور آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ بھی جو کعبہ کے کلید بردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد الحرام میں اپنی سواری بٹھا دی اور عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بیت اللہ الحرام کی کنجی لائیں۔ انہوں نے کعبہ کا دروازہ کھول دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسامہ، بلال اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافی دیر تک اندر ٹھہرے رہے۔ اور جب باہر تشریف لائے تو صحابہ نے (اندر جانے کے لیے) ایک دوسرے سے آگے ہونے کی کوشش کی سب سے پہلے اندر داخل ہونے والے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تھے۔ انہوں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دروازے کے پیچھے کھڑا پایا اور ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کہاں پڑھی ہے؟ انہوں نے اس جگہ کی طرف اشارہ کیا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ مجھے یہ پوچھنا یاد نہیں رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2988]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2988 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2988  
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ رسول کریمﷺ نے اونٹنی پر اپنے پیچھے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو بھی بٹھلا رکھا تھا۔
اونٹنی بھی ایک جانور ہے جب اس پر دو آدمیوں کا سوار ہونا ثابت ہوا تو گدھے کو بھی اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔
حضرت امام بخاری ؒ اس حدیث کو کئی جگہ لائے ہیں اور اس سے بہت سے مسائل کا استنباط فرمایا ہے جیسا کہ اپنے اپنے مقام پر بیان ہوا ہے۔
یہی آپ کے مجتہد مطلق ہونے کی اہم دلیل ہے اور یہ امر روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ ایک مجتہد مطلق کے لئے جن شرائط کا ہونا ضروری ہے وہ سب آپ کی ذات گرامی میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔
اللہ سارے مجتہدین کرام کو جزائے خیر دے جنہوں نے خدمت اسلام کے لئے اپنے آپ کو کلیۃً وقف کردیا تھا‘ رضي اللہ عنهم و رضوا عنه۔
حدیث میں لفظ حجبة حاجب کی جمع ہے جو دربان کے لئے بولا جاتا ہے۔
کعبہ شریف کے کلید بردار اور دربان یہی خاندان چلا آرہا ہے۔
علاقہ بھوج کچھ کے تاریخی دورہ از ۲۰ مئی تا ۸ جون ۷۱ء کے دوران اس پارے کی حدیث ۲۹۴۸ اور ۲۹۸۸ تک تسوید و تبیض کی گئی‘ اللہ پاک کی خدمت حدیث کو جملہ برادران شائقین بخاری شریف کے حق میں بطور صدقہ جاریہ قبول فرمائے آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2988   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2988  
حدیث حاشیہ:

پہلی حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گدھے پر سواری کی اور حضرت اسامہ ؓ کو اپنے پیچھے بٹھایا۔
اس حدیث سے رسول اللہ ؓ کی تواضع ظاہر ہوتی ہے کیونکہ گدھے پر سواری کرنا پالان پر سوار ہو جانا یا کسی چھوٹے بچے کو سواری پر اپنے پیچھے بٹھا نا بہت بڑی تواضع ہے۔

امام بخاری ؒ کا مقصد مطلق طور پر کسی کو اپنے پیچھے بٹھانے کو ثابت کرنا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے کسی کو سواری پر اپنے پیچھے بٹھانے کو عار خیال نہیں کیا۔
یہ بات دونوں احادیث سے ثابت ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2988