اور عبداللہ بن وہب نے کہا کہ مجھ کو عمرو بن حارث نے خبر دی، انہیں بکیر نے، انہیں سلیمان بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک فوج میں بھیجا اور ہدایت فرمائی کہ اگر فلاں فلاں دو قریشی (ہبا بن اسود اور نافع بن عبد عمر) جن کا آپ نے نام لیا تم کو مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہونے کی اجازت کے لیے حاضر ہوئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں پہلے ہدایت کی تھی کہ فلاں فلاں قریشی اگر تمہیں مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ آگ کی سزا دینا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے سزاوار نہیں ہے۔ اس لیے اگر وہ تمہیں مل جائیں تو انہیں قتل کر دینا (آگ میں نہ جلانا)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2954]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2954
حدیث حاشیہ: ان ہر دو مردودوں نے آنحضرتﷺ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کو راستے میں بحالت حمل ایسا برچھا مارا تھا کہ آپ کا حمل ساقط ہوگیا۔ اس لئے آپ نے پہلے ان کو ملنے پر آگ میں جلانے کا حکم دیا۔ پھر بعد میں قتل کا حکم دیا۔ معلوم ہوا کہ آگ میں جلانا حرام ہے‘ پہلے آپﷺ نے رائے سے حکم دیا تھا۔ پھر وحی الٰہی سے اس کو منسوخ فرما دیا۔ قسطلانی نے کہا پسو اور کھٹمل وغیرہ کا بھی آگ میں جلانا مکروہ ہے۔ اور بعض ڈاکوؤں کے لئے جو آپﷺ نے آنکھوں میں گرم سلائیاں ڈالنے کا حکم دیا تھا وہ قصاصاً تھا‘ کیونکہ ان ظالموں نے اصحاب رسولﷺ کے ساتھ یہی حرکت کی تھی۔ ارشاد باری ہے ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَى بِالْأُنْثَى﴾ یعنی قصاص میں آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت قتل کی جائے گی بلکہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت توڑے جائیں گے۔ اسی قانون الٰہی کے تحت ان ڈاکوؤں کو یہ سنگین سزا دی گئی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2954
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2954
حدیث حاشیہ: 1۔ ان دونوں نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب ؓ کو دوران سفر میں برچھا ماراجس سے ان کا حمل ساقط ہوگیا تھا،اس لیے آپ نے پہلے انھیں جلادینے کا حکم دیا،پھر بعد میں انھیں قتل کردینے کا فرمایا۔ 2۔ بوقت سفر الوداع کہنا سنت ہے،خواہ مسافر،مقیم کو کہے یا اس کے برعکس مقیم،مسافر سے کہے۔ حدیث میں پہلی صورت کا بیان ہے۔ دوسری صورت کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں دوسری صورت ہی عام ہے،یعنی مقیم آدمی مسافر کو الوداع کہتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2954