ہم سے اسحاق بن یزید دمشقی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ثور بن یزید نے بیان کیا، ان سے خالد بن معدان نے اور ان سے عمیر بن اسود عنسی نے بیان کیا کہ وہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کا قیام ساحل حمص پر اپنے ہی ایک مکان میں تھا اور آپ کے ساتھ (آپ کی بیوی) ام حرام رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ عمیر نے بیان کیا کہ ہم سے ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو دریائی سفر کر کے جہاد کے لیے جائے گا، اس نے (اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت) واجب کر لی۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے کہا تھا یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، تم بھی ان کے ساتھ ہو گی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر (رومیوں کے بادشاہ) کے شہر (قسطنطنیہ) پر چڑھائی کرے گا ان کی مغفرت ہو گی۔ میں نے کہا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2924]
أول جيش من أمتي يغزون البحر قد أوجبوا قالت أم حرام قلت يا رسول الله أنا فيهم قال أنت فيهم أول جيش من أمتي يغزون مدينة قيصر مغفور لهم فقلت أنا فيهم يا رسول الله قال لا
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2924
حدیث حاشیہ: پہلا جہاد حضرت عثمان ؓکے زمانۂ میں (حضرت معاویہ ؓ کی قیادت میں) ۲۸ھ میں ہوا جس پر جزیرہ قبرص کے نصاریٰ پر چڑھائی کی گئی‘ اسی میں حضرت ام حرام ؓ شریک تھیں‘ واپسی میں یہ راستہ پر سواری سے گر کر شہید ہوگئیں۔ دوسرا جہاد ۵۵ھ میں بزمانہ حضرت معاویہ ؓ ہوا جس میں قسطنطنیہ پر حملہ کیا گیا تھا۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ نے اسی میں شہادت پائی اور قسطنطنیہ ہی میں دفن کئے گئے۔ یہ لشکر یزید بن معاویہ کے زیر قیادت تھا۔ مگر خلافت حضرت معاویہ ؓ ہی کی تھی اس لئے اس سے یزید کی خلافت کی صحت پر دلیل پکڑنا غلط ہوا اور لشکر والوں کی بخشش کی جو بشارت دی گئی اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ لشکر کا ہر ہر فرد بخشا جائے۔ خود آنحضرتﷺ کے ساتھ ایک آدمی خوب بہادری سے لڑا تھا۔ آپ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ وہ دوزخی ہے پس بہشتی اور دوزخی ہونے میں خاتمہ کا اعتبار ہے۔ (وحیدی) نوٹ: یہاں علامہ وحید الزماں کو ایک زبردست غلط فہمی ہوئی ہے۔ اور نبیﷺ کی پیشین گوئی کی بے جا تاویل کر ڈالی ہے۔ حالانکہ نبی ﷺ کو کہی ہوئی بات حرف بحرف پوری ہوتی ہے۔ نبیﷺ کے ساتھ جو لشکر لڑ رہا تھا‘ ان سب کے جنتی ہونے کی پیشین گوئی آپ نے نہیں فرمائی تھی اور اس کے برعکس قسطنطنیہ کے سارے لشکریوں کے جنتی ہونے کی آپﷺ نے پیشین گوئی فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو محدود کرنے کا اختیار کسی انسان کے پاس نہیں ہے۔ (محمود الحسن اسد)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2924
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2924
حدیث حاشیہ: 1۔ پہلا جہاد حضرت عثمان ؓکے دور میں حضرت امیر معاویہ ؓکے زیر کمان تھا۔ انھوں نے بحری بیڑا تیار کیا اور 28ہجری میں جزیره قبرص کے عیسائیوں پر چڑھائی کی۔ اس میں اُم حرام ؓشریک تھیں۔ واپسی پر اپنی سواری سے گر کر شہید ہو گئیں۔ اس کی تفصیل گزشتہ احادیث میں دیکھی جا سکتی ہے دوسرا جہاد حضرت امیر معاویہ ؓ کے دور حکومت میں ہوا۔ یزید بن معاویہ کے زیر کمان روم کے دارالحکومت قسطنطنیہ پر مسلمانوں نے حملہ کیا۔ اس لشکر کے تمام سپاہی اللہ کے ہاں مغفرت یافتہ ہیں اور اسی لشکر میں حضرت ابن عباس ؓحضرت ابن عمر ؓ، حضرت ابو ایوب انصاری ؓ جیسے اکابر صحابہ شامل تھے۔ اس حملے میں حضرت ایوب انصاری ؓشہید ہوئے۔ انھوں نے شہادت کے وقت وصیت کی کہ انھیں قسطنطنیہ کے دروازے کے پاس دفن کیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ 2۔ حضرت محمود بن ربیع ؓ کے بیان کے مطابق اس لشکر کے سر براہ یزید بن معاویہ تھے۔ اور ان میں حضرت ابو ایوب انصاری ؓ بھی شامل تھے۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1186) 3۔ علامہ مہلب کہتے ہیں اس حدیث میں حضرت امیر معاویہ ؓ کی تعریف ہے کیونکہ انھوں نے سب سے پہلے سمندری جہاد کیا نیز ان کے بیٹے یزید بن معاویہ کی بھی تعریف ہے کیونکہ انھوں نے سب سے پہلے روم کے دارالحکومت قسطنطنیہ پر حملہ کیا۔ (فتح الباري: 125/6) علامہ مہلب ؒکے بیان پر ابن تین اور ابن منیر کا تبصرہ محل نظر ہے۔ جس کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2924