ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی کے موقع پر مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے جدا ہو گئے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ بنت ابی بکر اور ام سلیم رضی اللہ عنہا (انس رضی اللہ عنہ کی والدہ) کو دیکھا کہ یہ اپنے ازار سمیٹے ہوئے تھیں اور (تیز چلنے کی وجہ سے) پانی کے مشکیزے چھلکاتی ہوئی لیے جا رہی تھیں اور ابومعمر کے علاوہ جعفر بن مہران نے بیان کیا کہ مشکیزے کو اپنی پشت پر ادھر سے ادھر جلدی جلدی لیے پھرتی تھیں اور قوم کو اس میں سے پانی پلاتی تھیں، پھر واپس آتی تھیں اور مشکیزوں کو بھر کر لے جاتی تھیں اور قوم کو پانی پلاتی تھیں، میں ان کے پاؤں کی پازیبیں دیکھ رہا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2880]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2880
حدیث حاشیہ: زندہ قوموں کی عورتوں میں بھی جذبہ آزادی بدرجۂ اتم موجود ہوتا ہے جس کے سہارے وہ بعض دفعہ میدان جنگ میں ایسے کارہائے نمایاں کر گزرتی ہیں کہ ان کو دیکھ کر ساری دنیا حیرت زدہ ہو جاتی ہے جیسا کہ آج کل یہودیوں کے خلاف مجاہدین فلسطین بہت سے مسلمانوں کے مجاہدانہ کارناموں کی شہرت ہے۔ حضرت ام سلیم مشہور صحابیہ ملحان کی بیٹی ہیں جو مالک بن نضر کے نکاح میں تھیں۔ ان ہی کے بطن سے مشہور صحابی حضرت انسؓ پیدا ہوئے۔ مالک بن نضر حالت کفر ہی میں وفات پاگئے تھے۔ بعد میں ان کا نکاح ابو طلحہ سے ہوا۔ ان سے بہت سے صحابہ نے احادیث روایت کی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2880
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2880
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2880 کا باب: «بَابُ غَزْوِ النِّسَاءِ وَقِتَالِهِنَّ مَعَ الرِّجَالِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں خواتین کا جنگ میں شرکت کرنے کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور حدیث میں سرے سے ہی قتال کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «بوّب على غذوهن وقتالهن، وليس فى الحديث أنهن قاتلن فإما أن يريد أن إعانتهن للغزاة غذو، واما أن يريد إنهن ما ثبتن للمداوة و يسقى الجرحى فى حالة الهذيمة و الا هن يدافعن عن أنفسهن، هذا هو الغالب، فأضاف إليهن القتال لذالك.»[المتواري، ص: 161] ابن المنیر رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب تو قائم کیا ہے ”عورتوں کا قتال کر نا مردوں کے ساتھ“ اور دلیل کے طور پر جو حدیث ذکر فرمائی ہے اس میں سرے سے غزوے یا قتال کا ذکر ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باب اور حدیث میں مناسبت نہیں ہے۔ پھر ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ترجمۃ الباب میں اور حدیث میں مناسبت یہ ہے: عورتیں مجاہدین اور غازیوں کی جو اعانت و مدد وغیرہ کرتی ہیں وہی ان کا غزوہ و جہاد تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ متعدد احادیث میں خواتین کے حج کو ان کا جہاد قرار دیا گیا ہے کیوں کہ اس میں ان کے لیے مشقت کا پہلو ہوتا ہے، بعین اسی طرح سے مجاہدین کی مرہم پٹی وغیرہ، ان کو پانی پلانا، یہ ساری بھاگ دوڑ عورتوں کے لیے جہاد کی مشقت بن جاتی ہے۔ اس مسئلہ کی تائید میں امام ابوداؤد رحمہ اللہ اپنی سنن میں حدیث ذکر فرماتے ہیں: «أنها خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى غزوة خيبر سادس ست نسوة، فبلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم فبعث إلينا، فرأينا، فرأينا فيه الغضب، فقال: ”مع من خرجتن وبإذن من خرجتن؟“ فقال: يا رسول الله! خرجنا نغزل الشعر و نعين به فى سبيل الله، و معنا دواء للجرحى، و تناول السهام و نسقي السويق.»[سنن أبى داؤد، كتاب الجهاد، رقم الحديث: 2729 - مسند أحمد، ج 5، ص: 271 - النسائي فى الكبرى، رقم: 8879، و أسناده ضعيف] ”سیدہ ام زیاد اشجعیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ خیبر میں شریک ہوئی تھیں اور وہ چھ میں سے چھٹی عورت تھیں، کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلوا بھیجا۔ ہم حاضر خدمت ہوئیں تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصے میں دیکھا۔ فرمایا: ”تم کس کے ساتھ اور کس کی اجازت سے آئی ہو؟“ پس ہم نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم اس لیے آئیں ہیں کہ سوت کاٹیں گی اور اس سے جہاد میں مدد کرتی ہیں، ہمارے پاس زخمیوں کے لیے دوا وغیرہ بھی ہے، ہم تیر اکھٹے کر کے دیتی ہیں اور ستو پلاتی ہیں۔“ مذکورہ بالا حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ عورتوں کا جہاد یہی ہے کہ وہ عورتیں جو جہاد میں شامل ہوں وہ صرف مرہم پٹی یا مجاہدین کے اصلحہ کی درستگی میں ہاتھ بٹائیں۔ کیوں کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ غازی کو کچھ دینے والے کو اس کے مثل اجر و ثواب ملے گا۔ [عمدة القاري، ج 14، ص: 246] یعنی خواتین کافروں سے قتال نہیں کرتی تھیں، وہ صرف غزوہ میں شامل ہو کر مجاہدین کے ساتھ تعاون کیا کرتی تھیں، اس بات کی طرف ایک اور حدیث بھی اشارہ کرتی ہے۔ بخرہ حروری نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا اور پوچھا کہ کیا عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں جایا کرتی تھیں؟ اور کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں غنیمت سے کچھ حصے دیا کرتے تھے؟ . . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جنگ میں شریک ہوا کرتی تھیں اور یہ کہ انہیں غنیمت سے کچھ حصہ دیا جائے . . . یہ نہیں ہوتا تھا، تاہم انہیں عطیہ اور انعام ضرور دیا جاتا۔ مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ عورتیں جہاد میں شریک ہوتیں مگر لڑتی نہ تھیں، انھیں اسباب کی بناء انہیں مال غنیمت میں حصہ دار نہیں بنایا گیا اور انہیں صرف عطیہ یا انعامات دے دیا گیا۔ صحیح مسلم، کتاب الجہاد میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوات میں عورتوں کو بھی ساتھ لے جاتے تھے جو زخمیوں کی دیکھ بھال اور مرہم پٹی وغیرہ کرتی تھیں۔ [صحيح مسلم، كتاب الجهاد والسير، رقم: 4682] دوسری مناسبت باب اور حدیث میں یہ بھی ہے کہ صحابیات زخمی مجاہدین کا دفاع کا فریضہ بھی سر انجام دیا کرتی تھیں اور اپنا بچاؤ بھی کرتی تھیں، اسی وجہ سے ان کی طرف قتال کی نسبت کی گئی ہے۔ اس مسئلے کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ: «أن ام سليم اتخذت يوم حنين خنجرا، فكان معها، فرآها أبوطلحة، فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم! هذه أم سليم، معها خنجر، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ما هذا الخنجر؟“ قالت: اتخذته إن دنا مني أحد من المشركين بقرت به بطنه.»[صحيح مسلم، كتاب الجهاد والسير، باب غزوة النساء مع الرجل، رقم: 4680] ”سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا حنین کے روز ایک خنجر لی ہوئی تھیں، جو ان کے پاس ہی تھا، سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ (جو ان کے خاوند ہیں) نے انہیں دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ ام سلیم ہیں، جن کے پاس خنجر ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”یہ خنجر تم نے کیوں لیا ہوا ہے؟“ تو انہوں نے کہا کہ اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو خنجر کے ذریعہ میں اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی۔“ امام قسطلانی رحمہ اللہ نے اپنی شرح میں ذکر فرمایا کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں جنگ یرموک میں خواتین نے بھی لڑائی کی تھی حتی کہ دشمنوں کو بھگا دیا۔ [إرشاد الساري، ج 5، ص: 84] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «ويحتمل أن يكون غرض البخاري بالترجمة أن يبين أنهن لا يقاتلن و أن خرجن فى الغزو فالتقدير بقوله: ”و قتالهن مع الرجال“ أى هل هو سائغ أو إذا خرجن مع الرجال فى الغزو.»[فتح الباري، ج 6، ص: 98] اس بات کا احتمال ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض ترجمۃ الباب سے یہ بیان کرنی ہے کہ خواتین اگرچہ غزوے کے لیے نکلیں لیکن وہ قتال نہیں کریں گی۔ چنانچہ تقدیری عبارت اس طرح ہو گی: «و قتالهن مع الرجال، أى هو . . .»، یعنی عورتوں کا مردوں کے ساتھ قتال کرنا یہ شائع ہے، یا اگر عورتیں مردوں کے ساتھ غزوے کے لیے نکلیں تو زخمیوں کی مرہم پٹی یا اس طرح کسی خدمت پر ہی اقتصار کریں گی۔ ابن الملقن رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں کہ عورتوں پر غزوہ نہیں ہے، اور اس میں شک نہیں کہ خواتین کا غزوہ کرنے والوں کے لیے پانی پلانا، مرہم پٹی وغیرہ کرنا، ان کی مدد کرنا ہے۔ ایک اشکال؟ مذکورہ بالا حدیث پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے لئے غیر محرم تھیں تو پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پنڈلیوں کی طرف دیکھنا ان کے لیے کس طرح جائز ہوا؟ جواب: اس اعتراض کا جواب اہل علم نے دو طریقوں سے دیا ہے: ➊ یہ دیکھنا ان کا حجاب سے قبل کا ہے۔ ➋ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا دیکھنا جان بوجھ کر نہ تھا بلکہ ان کی نظر غلطی سے پڑ گئی تھی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وهذه كانت قبل الحجاب و يحتمل أنها كانت من غير قصد النظر.»[فتح الباري، ج 6، ص: 98] ”یہ واقعہ حجاب سے قبل کا ہے اور (دوسرا) احتمال یہ ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا دیکھنا بغیر قصد کے تھا (یعنی ان کا ارادہ نہ تھا، اچانک نظر پڑ گئی تھی)۔“ امام نووی رحمہ اللہ شارح صحیح مسلم فرماتے ہیں: «لأن يوم أحد كان قبل أمر النساء بالحجاب، أو لأنه لم يقصد النظر إلى بعض الساق، فهو محمول على أن تلك النظرة وقعت فجأة بغير قصد إليها.»[عمدة القاري، ج 14، ص: 246] ① یعنی احد کے دن کا واقعہ حجاب کے قبل کا ہے۔ ② یا پھر سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے قصدا و ارادۃ ان کی پنڈلیوں کی طرف نہیں دیکھا تھا بلکہ یہ اس چیز پر محمول ہے کہ ان کی نگاہ اچانک غیر ارادی طور پر پڑ گئی تھی۔ امام خطابی رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ یا تو قبل الحجاب ہے، یا پھر بغیر ارادے کے ان کی نظر پڑ گئی تھی۔ [الكواكب الدراري، ج 13، ص118] ابویحیی زکریا الشافعی رحمہ اللہ بھی اس طرف گئے ہیں کہ یہ واقعہ حجاب سے قبل کا ہے یا سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی نگاہ ان کی پنڈلیوں کی طرف غیر ارادۃ پڑ گئی تھی۔ [منحة الباري، ج 6، ص: 24] اس مختصر سی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ یہ واقعہ یا تو قبل الحجاب ہو گا یا پھر سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا دیکھنا بغیر قصد کے تھا۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2880
حدیث حاشیہ: 1۔ زندہ قوموں کی عورتوں میں بھی جذبہ آزادی بدرجہ اتم موجودہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ میدان جنگ میں بھی ایسے نمایاں کار نامے کر گزرتی ہیں کہ انھیں دیکھ کر دوسری قومیں حیرت زدہ ہو جاتی ہیں چنانچہ غزوہ اُحد میں خواتین اسلام نے ایسے کار نامے دکھائے جو آئندہ عورتوں کے لیے قابل تقلید نمونہ بن گئے۔ وہ مدینہ طیبہ سے اپنے کندھوں پر مشکیزے اٹھا کر لاتیں اور زخموں سے چور مجاہدین کے مونہوں میں پانی ڈالتیں۔ دوسری روایات میں ہے کہ کچھ خواتین زخمی مجاہدین کی مراہم پٹی کرنے پر مامور تھیں۔ (صحیح البخاري، الجهاد و السیر، حدیث 1775) خواتین کے یہ کام لڑائی کے حکم میں تھے نیز یہ عورتیں اپنا دفاع بھی کرتی تھیں۔ اسے خواتین کے لیے قتال کا درجہ دیا گیا۔ 2۔ بہر حال خواتین کا جہاد کے لیے نکلنا جائز ہے تو ان کے لیے قتال بھی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2880