ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا امام مالک سے ‘ انہوں نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ بیان کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لے جایا کرتے تھے (یہ انس رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں جو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں) ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر سے جوئیں نکالنے لگیں ‘ اس عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے ‘ جب بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کس بات پر آپ ہنس رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کے راستے میں غزوہ کرنے کے لیے دریا کے بیچ میں سوار اس طرح جا رہے ہیں جس طرح بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں یا جیسے بادشاہ تخت رواں پر سوار ہوتے ہیں یہ شک اسحاق راوی کو تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ دعا فرمایئے کہ اللہ مجھے بھی انہیں میں سے کر دے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر رکھ کر سو گئے ‘ اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کس بات پر آپ ہنس رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کی راہ میں غزوہ کے لیے جا رہے ہیں پہلے کی طرح ‘ اس مرتبہ بھی فرمایا انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ سے میرے لیے دعا کیجئے کہ مجھے بھی انہیں میں سے کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تو سب سے پہلی فوج میں شامل ہو گی (جو بحری راستے سے جہاد کرے گی) چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ام حرام رضی اللہ عنہا نے بحری سفر کیا پھر جب سمندر سے باہر آئیں تو ان کی سواری نے انہیں نیچے گرا دیا اور اسی حادثہ میں ان کی وفات ہو گئی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2789]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2789
حدیث حاشیہ: حضرت معاویہ ؓ اس وقت مصر کے گورنر تھے اور عثمان ؓ کی خلافت کا دور تھا‘ جب معاویہ ؓ نے آپؐ سے روم پر لشکر کشی کی اجازت مانگی اور اجازت مل جانے پر مسلمانوں کا سب سے پہلا بحری بیڑا تیار ہوا جس نے روم کے خلاف جنگ کی۔ ام حرام ؓ بھی اپنے شوہر کے ساتھ اس لڑائی میں شریک تھیں اور اس طرح آنحضرتؐ کی پیشین گوئی کے مطابق مسلمانوں کی سب سے پہلی بحری جنگ میں شریک ہو کر شہید ہوئیں۔ فرضي اللہ عنها۔ شہادت کا وقوع اس وقت ہوا جب مسلمان جہاد سے لوٹ کر آرہے تھے‘ گو ام حرام خود نہیں لڑیں مگر اللہ کی راہ میں نکلی اور نص قرآن و حدیث کی رو سے جو کوئی جہاد کے لئے نکلے اور راہ میں اپنی موت سے مر جائے وہ بھی شہید ہے۔ پس ام حرام کو شہادت نصیب ہوئی اور اس طرح دعائے نبوی کا ظہور ہوا۔ حضرت ام حرام ؓ آپ ﷺ کی دودھ کی خالہ ہوتی ہیں‘ اسی لئے آپؐ ان کے ہاں آیا جایا کرتے تھے‘ وہ بھی آپؐ کے لئے ماں سے بھی زیادہ شفیق تھیں‘ (رضي اللہ عنها) روایت سے عورتوں کا جہاد میں شریک ہونا ثابت ہوا۔ حضرت امام بخاریؒ کا مطلب یہ ہے کہ جیسے مرد یہ دعا کرسکتا ہے یا اللہ مجھ کو تو مجاہدین میں کر‘ مجھ کو شہادت نصیب کر‘ ایسے ہی عورت بھی یہ دعا کرسکتی ہے۔ آنحضرتﷺ کے زمانے میں اور اس کے بعد خلفائے راشدین کے زمانوں میں بھی عورتیں مجاہدین کے ہمراہ رہی ہیں۔ ان کے کھانے پینے‘ زخم پٹی کرنے کی خدمات عورتوں نے انجام دی ہیں۔ حضرت عمر ؓ کی یہ دعا قبول ہوئی اور آپ مدینہ میں ابولولو مجوسی کے ہاتھ سے شہید ہوئے تھے (رضي اللہ عنه وأرضاہ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2789
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2789
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں حضرت معاویہ ؓ نے روم پر لشکر کشی کی اجازت مانگی۔ اجازت ملنے پر مسلمانوں کا سب سے پہلا بحری بیڑا تیار ہوا جس نے روم کےخلاف جنگ لڑنے کے لیے سمندری سفرکیا۔ اس لشکر میں حضرت ابوذرغفاری ؓ، حضرت عبادہ بن صامت ؓ،ان کی زوجہ محترمہ حضرت ام حرام بنت ملحان ؓاور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین شامل تھے۔ اس غزوے میں حضرت ام حرام شہید ہوئیں۔ شہادت کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب مسلمان جہاد سے لوٹ کر آرہے تھے۔ 2۔ امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مرد جہاد میں شریک اورشہادت کی دعا کرسکتا ہے اسی طرح عورت بھی یہ دعا کرسکتی ہے کہ اللہ مجھے مجاہدین میں شامل فرما،اللہ!مجھے شہادت کی موت عطا فرما۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم أجمعین کے دور خلافت میں بھی عورتیں مجاہدین کے ہمراہ جہاد کے لیے جاتی تھیں اور ان کے کھانے،پینے اور مرہم پٹی کرنے کی خدمات سرانجام دیتی تھیں۔ 4۔ رسول اللہ ﷺ اس خوشی میں مسکرائے تھے کہ آپ کے بعد آپ کی امت کو بھی جہاد کے ذریعے سے غلبہ نصیب ہوگا،چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی اور حدیث میں مذکور یہ بحری سفر فتح افریقہ کا سبب بنا۔ 5۔ واضح رہے کہ حضرت ام حرام ؓ رسول اللہ ﷺ کی رضاعی خالہ تھیں،اس لیے آپ ان کے گھر اکثر آیا جایا کرتے تھے۔ وہ بھی آپ کے لیے ماں جیسی شفقت سے پیش آتی تھیں۔ ۔ ۔ رضي اللہ تعالیٰ عنها۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2789
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2788
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا شہادت کی دعا کرنا، اور ساتھ ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کا ذکر فرمایا جو کہ بعین باب سے مطابقت رکھتا ہے مگر سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ایک اشکال وارد ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ باب میں شہادت کی تمنا کا ذکر ہے اور حدیث سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا میں غزوہ کی تمنا کا ذکر ہے، اسی لیے علامہ ابن التین رحمہ اللہ نے یہ اشکال وار د کیا ہے کہ:
یہ حدیث اور ترجمۃ الباب کے در میان مناسبت نہیں ہے، کیوں کہ باب میں تمنائے شہادت وارد ہوا ہے اور حدیث میں تمنائے غزوہ کا ذکر ہے۔ [فتح الباري، ج 4، ص: 12]
علامہ العینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «بأن الثمرة العظمى من الغذو هي الشهادة، وقيل: حاصل الدعا بالشهادة أن يدعو الله . . . . .»[عمدة القاري، ج، 14، ص: 126] ”یعنی تمنائے غزوہ ثمرۃ عظمی شہادت ہی ہے کیوں کہ جہاد میں شرکت کا اصل مقصد شہادت فی سبیل اللہ کا حصول ہے۔“
یعنی غزوہ میں شمولیت کی دعا کا عین مقصد ہی شہادت کا حصول ہے، لہذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وجه دخول هذه الترجمة الفقه أن الظاهر من الدعاء بالشهادة يستلزم طلب نصر الكافر المسلم واعانة من يعصه الله على من يطيعه . . . . .»[فتح الباري، ج 6، ص: 12]
وجہ دخول کی اس ترجمہ کی فقہ میں یہ ہے کہ ظاہر شہادت کی دعا سے لازم پکڑتا ہے طلب نصرت کافر کو مسلمان پر اور اللہ کے فرمان کی مدد کرنے کو اس کے فرمانبردار پر، یعنی اس لیے کہ مسلمان تو اسی وقت ہی شہید ہوتا ہے جب کہ کافر غالب ہوں لیکن حاصل مقصود اصل یہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں کہ بلند درجہ جو شہادت کے حاصل ہونے میں ہے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ کی وضاحت سے بھی یہ واضح ہوا کہ شہادت دراصل کافروں کے خلاف لڑنے میں ہے، سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا نے غزوہ کی تمنا کی اور وہ بھی کافروں کے خلاف تھا۔
مزید ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ”اس امر پر خاص طور سے اس لیے تنبیہ فرمائی ہے کہ شہادت کی دعا کرنے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ کافروں کا غلبہ ہو جائے اور مسلمان مغلوب ہو جائیں۔ لیکن چونکہ یہ صورت مقصود نہیں ہوتی، اس لیے اگر کوئی آدمی اپنے لیے شہادت کی دعا کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس لیے کہ مقصد عظیم کو حاصل کرنے کے لیے غیر مقصود کو برداشت کیا جا سکتا ہے اور کفار کا غلبہ مطلوب اور مقصود نہیں بلکہ غیر مقصود و غیر مطلوب ہے۔ لہذا مقصد عظیم کے لیے اس غیر مقصود کو گوارا کر لیا جاتا ہے۔“[فتح الباري، ج 6، ص: 10]
ابن الملقن رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: «وقولها ”ادع الله أن يجعلني منهم“ فيه تمنى الغزو والشهادة وهو موضع تبويب البخاري الشهادة للرجال والنساء وانما فيه تمنى الغزو لا تمني الشهادة كذا قاله ابن التين»[التوضيح، ج 17، ص: 340] ”سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہنا کہ ”اللہ سے دعا فرمایئے کہ مجھے اس گروہ میں کر دے“، اس میں غزوہ اور شہادت کی تمنا اور وہ موضع ہے ترجمۃ الباب کی کہ ”شہادت طلب کرنا مرد اور عورتوں کا“ اور اس میں یقینا غزوہ کی تمنا کا ذکر ہے نہ کہ شہادت کا جس کا ذکر ابن تین رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔“
علامہ عبدالحق الہاشمی العمری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «و قيل: ليس فى الحديث تمنى الشهادة و انما فيه تمنى الغزو و يجاب: بأن الشهادة هي الثمرة العظمي المطلوبة فى الغزو.»[لب اللباب فى تراجم والأبواب، ج 2، ص: 423] ”کہا گیا ہے کہ حدیث میں شہادت کی تمنا کا ذکر نہیں ہے، اس میں غروہ کی تمنا کا ذکر ہے اس کا جواب یہ ہے کہ: شہادت بہت بڑا ثمرہ ہے جو غزوہ میں ہی حاصل ہوتا ہے۔“
یعنی جو شخص غزہ میں شامل ہو گا وہی شخص شہادت کے رتبے پر فائز ہو گا۔
لہذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
فائدہ: سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا رشتہ تھا؟
بعض علماء کا یہ کہنا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ تھیں یا وہ رضاعی والدہ تھیں۔ امام ابن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «أظن أن أم حرام أرضعت رسول الله صلى الله عليه وسلم أو اختها أم سليم فصارت كل منهما أمه او خالة من الرضاعة.»[فتح الباري، ج 11، ص: 92] ”میرے خیال سے سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا یا ان کی بہن سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے، لہذا ان دونوں حالتوں میں سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا رضاعی والدہ ہوئیں یا رضاعی خالہ۔“
یحییٰ بن ابراہیم فرماتے ہیں: «انما استجاز رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تفلي ام حرام رأسه لانها كانت ذات محرم من قبل خالاته.» ”دراصل بات یہ ہے کہ جائز رکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک میں کنگھی کرنا اس لیے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ تھیں۔“
ابن وہب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «أم حرام أحدى خالات النبى صلى الله عليه وسلم من الرضاعة، فلذالك كان يقبل عندها و ينام فى حجرها و تفلى راسه.»[فتح الباري، ج 11، ص: 92] ”سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ تھیں اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس قیلولہ فرمایا کرتے تھے اور ان کی گود میں سر رکھتے تھے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک میں کنگھی کیا کرتی تھیں۔“
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”میرے خیال سے سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا اور سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا، اور کسی مسلم کو شک نہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محرم تھیں۔“[الاستيعاب فى معرفة الأصحاب، ج 4، ص: 484]
یحییٰ بن ابراہیم بن مزین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک سے سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوں نکالا کرتی تھیں، کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محرم تھیں۔ کیونکہ ام عبدالمطلب بنو نجار میں سے تھیں، ابن وہب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خالاؤں میں سے تھیں۔“[التمهيد، ج 226/1، 267]
ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ایک جماعت کا کہنا ہے کہ سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ تھیں۔“
ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ”وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کی خالہ تھیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا کی۔“[شرح ابن بطال، ج 10/5]
ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ابن الجوزی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ بعض حفاظ سے آپ نے سنا، سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا حضرت آمنہ کی رضاعی بہن تھیں۔“[التوضيح شرح الجامع الصحيح، ج 17، ص: 225]
بعض اہل علم (جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا کے رضاعی رشتے کے قائل نہیں انہوں) نے یہ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شہوت پر قابو رکھنے والے تھے اپنی بیویوں سے، تو کیوں کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجنبی عورت سے اپنے آپ کو نہ روک سکتے ہوں؟ لہذا جب اپنی ازواج مطہرات پر اتنا قابو تھا تو غیر محرم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ہی زیادہ قابو کی قوت تھی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «كان النبى صلى الله عليه وسلم معصوما يملك أربه عن زوجته فكيف عن غيرها مما هو المنذه عنه، و هو المبرأ عن كل فعل قبيح.» ”یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج پر نفس پر قابو رکھتے تھے تو غیر عورتوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زیادہ قابو تھا نفس پر کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبیح فعل سے مبرا تھے۔“[فتح الباري، ج 11، ص: 92]
بعض اہل علم نے یہ جواب دیا کہ صحیح تر بات یہ ہے کہ غیر محرم عورت کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا، یعنی اس کی اجازت صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی تھی باقی کسی کو نہ تھی کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم عن الخطاء تھے۔ محمد علی ایتھوپین نے بھی اپنی تفصیلی گفتگو میں اسی قول کو راجح قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [ذخيرة العقبى، ج 26، ص: 391]
لیکن اس کے کئی اور بھی مناسبت کے پہلو ہیں جس کو کئی اہل علم نے ذکر کئے ہیں۔
اس بحث کی ابتداء میں ہم نے یہ ثابت کرنے کی سعی کی کہ سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ تھیں، یہ وہ جواب ہے جس سے کسی قسم کا کوئی اعتراض وار د نہ ہو گا کیوں صحیح روایت سے ثابت ہے کہ: «انه صلى الله عليه وسلم لا يدخل على أحد من النساء إلا على أزواجه إلا على أم سليم.»[فتح الباري، ج 11، ص: 92] ”یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی عورت کے پاس داخل نہ ہوتے سوائے اپنی ازواج یا سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے ہاں (جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ یا رضاعی خالہ تھیں)۔“
بعض اہل علم نے اس روایت کی توجیہ یہ دی ہے کہ ممکن ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا کے گھر گئے ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ اکیلے نہ ہوں بلکہ سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا کے خاوند، ولد، یا ان کا خادم ساتھ ہو . . .۔
یہ احتمال اس صورت میں ہو گا کہ یہ ثابت کیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ محرم نہ تھیں، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ محرم ہیں تو پھر اس تکلف کی کوئی حاجت نہیں کیونکہ اگر کوئی غیر محرم عورت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلوت کرتے تو اس عورت کے ساتھ اس کا محرم ہونا ثابت ہے جیسا کہ صحیح البخاری میں مرقوم ہے کہ ایک انصاری عورت کے ساتھ جب اس کو مسئلہ پوچھنا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خلوت فرمائی۔ [صحيح البخاري، رقم: 5234]
لیکن صحیح البخاری میں یہ الفاظ مرقوم ہیں کہ «ومعها صبي لها» کہ اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا۔ [صحيح البخاري، كتاب المناقب، رقم: 3786]
لہذا اس حدیث سے واضح ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت میں اکثر غیر محرمات کے محرم بھی ہوا کرتے تھے، لیکن یہ ضروری قاعدہ نہیں ہے، راجح قول یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خاصہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیر محرم سے خلوت کر سکتے تھے جیسا کہ سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا کی حدیث میں وارد ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «والذي وضح لنا بالأدلة القوية أن من خصائص النبى صلى الله عليه وسلم جواز الخلوة بالأجنبية والنظر إليها، وهو جواب الصحيح عن قصة أم حرام رضي الله عنها دخوله عليها ونومه وعندها و تفليتها رأسه ولم يكن بينهما محرمية ولا زوجية.»[فتح الباري، ج 7، ص: 254] ”جو بات قوی دلائل سے واضح ہے وہ یہ ہے کہ غیر محرم کے ساتھ خلوت اور اس کی طرف دیکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے اور یہی جواب صحیح ہے (دلالت کرتا ہے) قصہ سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا کا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ سر دیکھا کرتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں آرام فرمایا کرتے تھے اور (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور ان کے علاوہ کوئی اور درمیان میں محرم نہیں ہوتا تھا۔“
ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «عن بعض العلماء أن هذا مخصوص برسول الله صلى الله عليه وسلم أو يحتمل أنه كان قبل الحجاب.»[عارضة الأحوذي، ج 7، ص: 146] ”یعنی بعض علماء سے یہ منقول ہے کہ یہ خاصہ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا، یا پھر یہ احتمال ہے کہ یہ واقعہ قبل از حجاب کا ہے۔“
امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ نے بھی اسی جواب کو راجح قرار دیا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجنبی عورت سے خلوت کر سکتے تھے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ”جو بات ہمارے نزدیک واضح ہے قوی دلائل سے (وہ یہ ہے) کہ اجنبی عورت سے خلوت کرنا اور اس کی طرف دیکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے۔“[الخصائص الكبرٰي، ج 2، ص: 247] ”سراج الدین ابن المقلن رحمہ اللہ نے جو کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے استاد ہیں، آپ نے بھی یہی نقل کیا ہے اپنے بعض مشائخ سے۔“[الخصائص الكبرٰي، ج 2، ص: 248]
قاضی ابوبکر ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتنہ اور فساد میں واقع ہونے سے مامون ہونے کی وجہ سے اس بات کی اجازت تھی کہ اجنبیات سے خلوت کریں۔“[عمدة القاري، ج 14، ص: 86]
اہل سنت والجماعت کا متفقہ قاعدہ ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام معصوم عن الخطاء ہوا کرتے ہیں۔ اگر کوئی نبی کسی عورت سے خلوت بھی کرے اس کے باوجود بھی وہ اپنے تقوے اور پاکبازی میں بےانتہا اونچا ہوا کرتا ہے۔
کیونکہ انبیاء علیہم السلام کو خصوصی طور پر معاصیتوں سے محفوظ رکھا جاتا ہے اور یہ فعل صرف اللہ تعالی ہی کا ہے۔
اور یہ بھی بات ملحوظ خاطر رکھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا اس لشکر میں شامل تھیں جس کو جنت کی بشارت دی گئی۔ لہذا جنت کی بشارت والی خاتون جن سے اللہ تعالی راضی ہوا وہ بھی اپنی نیکی اور پاکدامنی میں کمال کی تھیں۔ کیونکہ جنت کی بشارت ایسے ہی نہیں ملتی۔
لہذا گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا کے ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جانا اور خلوت کرنا یہ صرف پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر پوری دنیا میں کوئی بھی تقوے والا نہیں۔
فائدہ نمبر 2:
حدیث کے مختلف طرق میں تعارض موجود ہے۔ مختلف شارحین نے مختلف توجیہات دی ہیں۔ حدیث کے مذکورہ بالا ٹکڑے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں پہلے سے تھیں۔ لیکن آئندہ جو روایت آ رہی ہیں ان روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں بعد میں آئیں۔ چنانچہ «باب غزوة ركوب البحر» میں محمد بن یحیی بن حبان بن انس کے طریق میں ہے کہ: «فتزوج بها عبادة، فخرج بها إلى الغزو.»[صحيح البخاري، رقم: 2895]
اسی طرح باب «غزوة المرأة فى البحر» میں ابوطوالۃ عن انس کی روایت میں «فتزوجت عبادة بن الصامت» ہے [صحيح البخاري، رقم: 2877] ۔ اور صحیح مسلم کی روایت میں صراحت کے ساتھ محمد بن یحیی بن حبان عن انس ہی کے طریق میں «فتزوجت بها عبادة بعده»[صحيح مسلم، كتاب الامارة، رقم: 4935]
تعارض میں تطبیق:
شارحین حدیث نے مندرجہ بالا تعارض کے تین جوابات دیے ہیں:
➊ علامہ ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے پہلے ان سے نکاح کیا ہو بعد میں طلاق واقع ہو گئی ہو۔ پھر سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا نے سیدنا عمرو بن قیس رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا ہو اور ان کی غزوہ احد میں شہادت کے بعد دوبارہ سیدنا عبادہ
بن صامت رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا ہو۔
➋ قاضی عیاض رحمہ اللہ اور امام نووی رحمہ اللہ نے اس تعارض کا جواب دیا کہ جن روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں پہلے آئیں ان میں یہ خبر ہے کہ جو واقعہ بعد میں ہوا ہو گا اس کی خبر دی گئی۔
➌ امام مذی رحمہ اللہ نے لکھا کہ سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا اولاً سیدنا عمرو بن قیس رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ ان کے بعد پھر سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح ہوا۔ بعین اسی بات کی تائید حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی کی ہے۔ [فتح الباري، ج 6، ص: 76 - شرح صحيح مسلم للنووي، ج 2، ص: 136 - تهذيب الكمال فى أسماء الرجال، ج 35، ص: 339 - فتح الباري، ج 11، ص: 73]
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 629
´سیدنا معاویہ بن ابی سفیان کاتبِ وحی رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت` «. . . قال: ناس من امتي عرضوا على غزاة فى سبيل الله، ملوكا على الاسرة او مثل الملوك على الاسرة . . .» ”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے کچھ لوگ مجھے (نیند میں) دکھائے جو تخت نشین بادشاہوں کی طرح بیٹھے اللہ کی راستے میں جہاد کر رہے ہیں . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 629]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2788، 2789، ومسلم 160/1912، من حديث مالك به]
تفقہ: ➊ ام حرام اور ام سلیم (رضی اللہ عنہما) دونوں بہنیں تھیں۔ ابن عبدالبر نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ اُم حرام یا اُم سلیم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا یعنی ان میں سے ایک آپ کی رضاعی والدہ اور دوسری رضاعی خالہ تھیں۔ دیکھئے: [التمهيد 1/226] ● یہی بات امام عبداللہ بن وہب المصری وغیرہ سے مروی ہے۔ ➋ اگر عورت اپنے خاوند کے مال میں سے کسی کو کھانا وغیرہ کھلائے اور خاوند کی ناراضی معلوم نہ ہو تو یہ کھانا حلال ہے اور عورت کے خاوند کو بھی ثواب ملتا ہے۔ ➌ کفار کے خلاف سمندری جہاد کرنا اور بحری بیڑے بنانا بڑی فضیلت والا کام ہے۔ ➍ عورتوں کا جہاد میں شریک ہونا جائز ہے۔ ➎ مردوں اور عورتوں کے لئے بحری سفر کرنا جائز ہے۔ ➏ ہر مسلمان حکمران کے ماتحت جہاد کرنا قیامت تک جائز ہے چاہے بادشاہ ہو یا خلیفہ وغیرہ۔ ➐ اس حدیث میں سیدنا معاویہ بن ابی سفیان کاتب وحی رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ہے کہ جن کی زیر نگرانی یہ عظیم جہادی مہم روانہ ہوئی تھی اور اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش تھے۔ ➑ اللہ کے راستے میں شہید ہو جانے والے یا اسی حالت میں طبعی موت مرنے والے دونوں اشخاص کا اجر برابر ہے اور بعض علماء کے نزدیک شہید کا اجر زیادہ ہے۔ ➒ بعض علماء کے نزدیک برّی جہاد سے سمندری جہاد افضل ہے اور عصر حاضر میں یہی بات راجح نظر آتی ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ بہترین بحری بیڑے تیار کریں۔ ➓ اسی روایت کی دوسری صحیح سند میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سونا قیلولہ یعنی دوپہر کے وقت تھا اور یہ کہ ام حرام نے اپنے خاوند سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہما کے ساتھ مل کر سمندری جہاد کیا تھا۔
چند مزید فوائد بھی پیش خدمت ہیں: ➊ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ جنگی مہم اور بحری جہاد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں تھا اور قبرص کے مقام پر سیدہ اُم حرام رضی اللہ عنہا فوت ہوئیں تھیں۔ ➋ انبیاء کے خواب وحی ہوتے ہیں۔ ➌ یہ حدیث بھی دلائل نبوت میں سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیب کی خبریں بیان فرمائیں جو آپ کی وفات کے بعد بعینہ پوری ہوئیں۔ ➍ جن روایات میں سمندری سفر کی ممانعت آئی ہے وہ ساری ضعیف و مردود ہیں۔ ➎ نیک کام میں شمولیت کی تمنا کرنا تقاضائے ایمان ہے۔ ➏ اچھے کام کے لئے کسی سے دعا کروانا جائز ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 117
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2788
2788. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت ام حرام بنت ملحان ؓ کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور وہ آپ کو کھلایا پلایا کرتی تھی۔ اور حضرت ام حرام ؓ حضرت عبادہ بن صامت ؓ کے نکاح میں تھی۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ اس کے ہاں تشریف لے گئے تو اس نے آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا۔ فراغت کے بعد وہ آپ کے سرمبارک سے جوئیں نکالنے لگی۔ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ کو نیند آگئی۔ پھر آپ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ام حرام کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میری اُمت کے کچھ لوگ خواب میں میرے سامنے لائے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے غازی تھے۔ اور سمندر کے وسط میں اپنی سواریوں پر سوار تھے جیسے بادشاہ اپنے تختوں پر ہوتے ہیں یا بادشاہوں کی طرح تختوں پر براجمان ہیں۔“ الفاظ کا یہ شک راوی حدیث اسحاق کو ہوا۔ ام حرام۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2788]
حدیث حاشیہ: حضرت معاویہ ؓ اس وقت مصر کے گورنر تھے اور عثمان ؓ کی خلافت کا دور تھا‘ جب معاویہ ؓ نے آپؐ سے روم پر لشکر کشی کی اجازت مانگی اور اجازت مل جانے پر مسلمانوں کا سب سے پہلا بحری بیڑا تیار ہوا جس نے روم کے خلاف جنگ کی۔ ام حرام ؓ بھی اپنے شوہر کے ساتھ اس لڑائی میں شریک تھیں اور اس طرح آنحضرتؐ کی پیشین گوئی کے مطابق مسلمانوں کی سب سے پہلی بحری جنگ میں شریک ہو کر شہید ہوئیں۔ فرضي اللہ عنها۔ شہادت کا وقوع اس وقت ہوا جب مسلمان جہاد سے لوٹ کر آرہے تھے‘ گو ام حرام خود نہیں لڑیں مگر اللہ کی راہ میں نکلی اور نص قرآن و حدیث کی رو سے جو کوئی جہاد کے لئے نکلے اور راہ میں اپنی موت سے مر جائے وہ بھی شہید ہے۔ پس ام حرام کو شہادت نصیب ہوئی اور اس طرح دعائے نبوی کا ظہور ہوا۔ حضرت ام حرام ؓ آپ ﷺ کی دودھ کی خالہ ہوتی ہیں‘ اسی لئے آپؐ ان کے ہاں آیا جایا کرتے تھے‘ وہ بھی آپؐ کے لئے ماں سے بھی زیادہ شفیق تھیں‘ (رضي اللہ عنها) روایت سے عورتوں کا جہاد میں شریک ہونا ثابت ہوا۔ حضرت امام بخاریؒ کا مطلب یہ ہے کہ جیسے مرد یہ دعا کرسکتا ہے یا اللہ مجھ کو تو مجاہدین میں کر‘ مجھ کو شہادت نصیب کر‘ ایسے ہی عورت بھی یہ دعا کرسکتی ہے۔ آنحضرتﷺ کے زمانے میں اور اس کے بعد خلفائے راشدین کے زمانوں میں بھی عورتیں مجاہدین کے ہمراہ رہی ہیں۔ ان کے کھانے پینے‘ زخم پٹی کرنے کی خدمات عورتوں نے انجام دی ہیں۔ حضرت عمر ؓ کی یہ دعا قبول ہوئی اور آپ مدینہ میں ابولولو مجوسی کے ہاتھ سے شہید ہوئے تھے (رضي اللہ عنه وأرضاہ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2788
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2788
2788. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت ام حرام بنت ملحان ؓ کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور وہ آپ کو کھلایا پلایا کرتی تھی۔ اور حضرت ام حرام ؓ حضرت عبادہ بن صامت ؓ کے نکاح میں تھی۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ اس کے ہاں تشریف لے گئے تو اس نے آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا۔ فراغت کے بعد وہ آپ کے سرمبارک سے جوئیں نکالنے لگی۔ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ کو نیند آگئی۔ پھر آپ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ام حرام کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میری اُمت کے کچھ لوگ خواب میں میرے سامنے لائے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے غازی تھے۔ اور سمندر کے وسط میں اپنی سواریوں پر سوار تھے جیسے بادشاہ اپنے تختوں پر ہوتے ہیں یا بادشاہوں کی طرح تختوں پر براجمان ہیں۔“ الفاظ کا یہ شک راوی حدیث اسحاق کو ہوا۔ ام حرام۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2788]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں حضرت معاویہ ؓ نے روم پر لشکر کشی کی اجازت مانگی۔ اجازت ملنے پر مسلمانوں کا سب سے پہلا بحری بیڑا تیار ہوا جس نے روم کےخلاف جنگ لڑنے کے لیے سمندری سفرکیا۔ اس لشکر میں حضرت ابوذرغفاری ؓ، حضرت عبادہ بن صامت ؓ،ان کی زوجہ محترمہ حضرت ام حرام بنت ملحان ؓاور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین شامل تھے۔ اس غزوے میں حضرت ام حرام شہید ہوئیں۔ شہادت کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب مسلمان جہاد سے لوٹ کر آرہے تھے۔ 2۔ امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مرد جہاد میں شریک اورشہادت کی دعا کرسکتا ہے اسی طرح عورت بھی یہ دعا کرسکتی ہے کہ اللہ مجھے مجاہدین میں شامل فرما،اللہ!مجھے شہادت کی موت عطا فرما۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم أجمعین کے دور خلافت میں بھی عورتیں مجاہدین کے ہمراہ جہاد کے لیے جاتی تھیں اور ان کے کھانے،پینے اور مرہم پٹی کرنے کی خدمات سرانجام دیتی تھیں۔ 4۔ رسول اللہ ﷺ اس خوشی میں مسکرائے تھے کہ آپ کے بعد آپ کی امت کو بھی جہاد کے ذریعے سے غلبہ نصیب ہوگا،چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی اور حدیث میں مذکور یہ بحری سفر فتح افریقہ کا سبب بنا۔ 5۔ واضح رہے کہ حضرت ام حرام ؓ رسول اللہ ﷺ کی رضاعی خالہ تھیں،اس لیے آپ ان کے گھر اکثر آیا جایا کرتے تھے۔ وہ بھی آپ کے لیے ماں جیسی شفقت سے پیش آتی تھیں۔ ۔ ۔ رضي اللہ تعالیٰ عنها۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2788