24. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البقرہ میں) یہ فرمانا کہ ”آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے لوگ یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے کہ جہاں تک ہو سکے ان کے مالوں میں بہتری کا خیال رکھنا ہی بہتر ہے اور اگر تم ان کے ساتھ (ان کے اموال میں) ساتھ مل جل کر رہو تو (بہرحال) وہ بھی تمہارے ہی بھائی ہیں اور اللہ تعالیٰ سنوارنے والے اور فساد پیدا کرنے والے کو خوب جانتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمہیں تنگی میں مبتلا کر دیتا، بلاشبہ اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے“۔
حدیث نمبر: Q2767
لأَعْنَتَكُمْ سورة البقرة آية 220 لَأَحْرَجَكُمْ، وَضَيَّقَ، وَعَنَتِ خَضَعَتْ.
(قرآن کی اس آیت میں) «لأعنتكم» کے معنی ہیں کہ تمہیں حرج اور تنگی میں مبتلا کر دیتا اور (سورۃ طہٰ میں لفظ) «تحنت» کے معنی منہ جھک گئے ‘ اس اللہ کے لیے جو زندہ ہے اور سب کا سنبھالنے والا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: Q2767]
اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ ان سے حماد بن اسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب نے ‘ ان سے نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کوئی وصی بناتا تو وہ کبھی انکار نہ کرتے۔ ابن سیرین تابعی رحمہ اللہ کا محبوب مشغلہ یہ تھا کہ یتیم کے مال و جائیداد کے سلسلے میں ان کے خیر خواہوں اور ولیوں کو جمع کرتے تاکہ ان کے لیے کوئی اچھی صورت پیدا کرنے کے لیے غور کریں۔ طاؤس تابعی رحمہ اللہ سے جب یتیموں کے بارے میں کوئی سوال کیا جاتا تو آپ یہ آیت پڑھتے کہ «والله يعلم المفسد من المصلح»”اور اللہ فساد پیدا کرنے والے اور سنوارنے والے کو خوب جانتا ہے۔“ عطاء رحمہ اللہ نے یتیموں کے بارے میں کہا خواہ وہ معمولی قسم کے لوگوں میں ہوں یا بڑے درجے کے ‘ اس کا ولی اس کے حصہ میں سے جیسے اس کے لائق ہو، ویسا اس پر خرچ کرے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2767]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2767
حدیث حاشیہ: حضرت امام بخاری ؒ کا قول وقال لنا سلیمان حدثنا حماد الخ یہ حدیث موصول ہے معلق نہیں ہے کیونکہ سلیمان بن حرب امام بخاری ؒ کے شیوخ میں سے ہیں اور تعجب ہے عینی سے کہ انہوں نے حافظ ابن حجر ؓ پر یہ اعتراض جمایا کہ اس حدیث کا موصول کرنا کسی لفظ سے نہیں پایا جاتا حالانکہ اس میں صاف قال لناکے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری ؒنے سلیمان سے سنا اور یہ امام بخاری کا کمال احتیاط ہے کہ انہوں نے ایسے مقاما ت پر حدثنا یا أخبرنا کا لفظ استعمال نہیں فرمایا کیونکہ سلیمان نے امام بخاری ؒ کو یہ روایت بطور تحدیث کے نہ سنائی ہوگی بلکہ وہ کسی اور سے مخاطب ہوں گے اور امام بخاری نے سن لیا ہوگا (وحیدی) حدیث موصول یا متصل و معلق کی تعریف شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒکے لفظوں میں یہ ہے۔ فإن لم یسقط راومن الرواة من البین فالحدیث متصل ویسمی عدم السقوط اتصالا و إن سقط واحدا و أکثر فالحدیث منقطع وھذا السقوط انقطاع والسقوط إما أن یکون من أول السند ویسمی معلقاً وھذا الإسقاط تعلیقاً والساقط قد یکون واحدا و قد یکون أکثر و قد یحذف تمام السند کما هو عادة المصنفین یقولون قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیه وسلم والتعلیقات کثیرة في تراجم صحیح البخاري ولھا حکم الاتصال لأنه التزم في ھذا الکتاب أن لایأتي إلا بالصحیح (مقدمة مشکٰوة) یعنی سند کے راویوں میں سے کوئی راوی ساقط نہ ہو‘ اس حدیث کو متصل (یا موصول) کہیں گے اور اس عدم سقوط کو دوسرا نام اتصال کا دیا گیا ہے اور اگر کوئی ایک راوی یا زیادہ ساقط ہوں پس وہ حدیث منقطع ہے اس سقوط کو انقطاع کہتے ہیں۔ کبھی سقوط راوی سند میں سے ہوتا ہے‘ ایسی حدیث کو معلق کہتے ہیں اور اس اسقاط کو تعلیق کہتے ہیں‘ ساقط کبھی ایک راوی ہوتاہے کبھی زیادہ جیسا کہ مصّنفین کی عادت ہے کہ وہ بغیر سند بیان کئے قال رسول اللہ ﷺ کہہ دیتے ہیں اور اس قسم کی تعلیقات صحیح بخاری کے ابواب میں بکثرت ہیں اور ان سب کے لئے اتصال ہی کا حکم ہے کیونکہ حضرت امام بخاری ؒ نے التزام کیا ہوا ہے کہ وہ اس کتاب میں صرف صحیح احادیث و آثار ہی کو نقل کریں گے۔ ترجمۃ الباب میں مذکورہ آیت شریفہ ﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى﴾(البقرہ: 220) کا شان نزول یہ ہے کہ جب آیت ﴿وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ الخ﴾(الأنعام: 152) نازل ہوئی تو لوگوں نے خوف کے مارے یتیموں کا کھانا پینا سب بالکل الگ کردیا پس جو کچھ بچ جاتا تو خراب ہوجاتا‘ یہ امر بہت مشکل ہواتو انہوں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں اس مشکل کا ذکر کیا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور بتلایا گیا کہ ان کو اپنے ساتھ ہی کھلاؤ پلاؤ‘ ان کے مال کی حفاظت کرو‘ اگر تمہاری نیت درست ہوگی تو اللہ خوب جانتا ہے۔ ﴿وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ﴾(البقرة: 220)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2767
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2767
حدیث حاشیہ: (1) عنوان میں ذکر کردہ آیت کا شان نزول یہ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ﴾”اور تم یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ۔ ۔ “(الأنعام152: 6) تو لوگوں نے یتیم کا مال اور اس کا کھانا وغیرہ بالکل چھوڑ دیا۔ جو کچھ ان کے طعام سے بچ جاتا وہ خراب ہو جاتا۔ یہ حکم بہت مشکل ثابت ہوا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، اس کے متعلق مذکورہ آیات نازل ہوئیں۔ (فتح الباري: 483/5)(2) طاؤس کے اثر کو سفیان بن عیینہ نے اور حضرت عطاء کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے متصل سند سے ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري: 482/5) بہرحال اللہ تعالیٰ نے یتیم کے مال کے بارے میں بڑے سخت اور کڑے احکام جاری کیے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2767