الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الشُّرُوطِ
کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان
15. بَابُ الشُّرُوطِ فِي الْجِهَادِ وَالْمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الْحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ:
15. باب: جہاد میں شرطیں لگانا اور کافروں کے ساتھ صلح کرنے میں اور شرطوں کا لکھنا۔
حدیث نمبر: 2733
وَقَالَ عُقَيْلٌ: عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ عُرْوَةُ: فَأَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْتَحِنُهُنَّ، وَبَلَغْنَا أَنَّهُ لَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَرُدُّوا إِلَى الْمُشْرِكِينَ مَا أَنْفَقُوا عَلَى مَنْ هَاجَرَ مِنْ أَزْوَاجِهِمْ، وَحَكَمَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ لَا يُمَسِّكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ، أَنَّ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَيْنِ قَرِيبَةَ بِنْتَ أَبِي أُمَيَّةَ، وَابْنَةَ جَرْوَلٍ الْخُزَاعِيِّ، فَتَزَوَّجَ قَرِيبَةَ مُعَاوِيَةُ، وَتَزَوَّجَ الْأُخْرَى أَبُو جَهْمٍ، فَلَمَّا أَبَى الْكُفَّارُ أَنْ يُقِرُّوا بِأَدَاءِ مَا أَنْفَقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ، أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى وَإِنْ فَاتَكُمْ شَيْءٌ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ سورة الممتحنة آية 11 وَالْعَقْبُ مَا يُؤَدِّي الْمُسْلِمُونَ إِلَى مَنْ هَاجَرَتِ امْرَأَتُهُ مِنَ الْكُفَّارِ، فَأَمَرَ أَنْ يُعْطَى مَنْ ذَهَبَ لَهُ زَوْجٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ مَا أَنْفَقَ مِنْ صَدَاقِ نِسَاءِ الْكُفَّارِ اللَّائِي هَاجَرْنَ، وَمَا نَعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ ارْتَدَّتْ بَعْدَ إِيمَانِهَا، وَبَلَغَنَا أَنَّ أَبَا بَصِيرِ بْنَ أَسِيدٍ الثَّقَفِيَّ قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُؤْمِنًا مُهَاجِرًا فِي الْمُدَّةِ، فَكَتَبَ الْأَخْنَسُ بْنُ شَرِيقٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ أَبَا بَصِيرٍ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
عقیل نے زہری سے بیان کیا ‘ ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کا (جو مکہ سے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہجرت کر کے مدینہ آتی تھیں) امتحان لیتے تھے (زہری نے) بیان کیا کہ ہم تک یہ روایت پہنچی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ مسلمان وہ سب کچھ ان مشرکوں کو واپس کر دیں جو انہوں نے اپنی ان بیویوں پر خرچ کیا ہو جو (اب مسلمان ہو کر) ہجرت کر آئی ہیں اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رکھیں تو عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دو بیویوں قریبہ بنت ابی امیہ اور ایک جرول خزاعی کی لڑکی کو طلاق دے دی۔ بعد میں قریبہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ نے شادی کر لی تھی (کیونکہ اس وقت معاویہ رضی اللہ عنہ مسلمان نہیں ہوئے تھے) اور دوسری بیوی سے ابوجہم نے شادی کر لی تھی لیکن جب کفار نے مسلمانوں کے ان اخراجات کو ادا کرنے سے انکار کیا جو انہوں نے اپنی (کافرہ) بیویوں پر کئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «وإن فاتكم شىء من أزواجكم إلى الكفار فعاقبتم‏» اور تمہاری بیویوں میں سے کوئی کافروں کے ہاں چلی گئی تو وہ معاوضہ تم خود ہی لے لو۔ یہ وہ معاوضہ تھا جو مسلمان کفار میں سے اس شخص کو دیتے جس کی بیوی ہجرت کر کے (مسلمان ہونے کے بعد کسی مسلمان کے نکاح میں آ گئی ہو) پس اللہ نے اب یہ حکم دیا کہ جس مسلمان کی بیوی مرتد ہو کر (کفار کے یہاں) چلی جائے اس کے (مہر و نفقہ کے) اخراجات ان کفار کی عورتوں کے مہر سے ادا کر دئیے جائیں جو ہجرت کر کے آ گئی ہیں (اور کسی مسلمان نے ان سے نکاح کر لیا ہے) اگرچہ ہمارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ کوئی مہاجرہ بھی ایمان کے بعد مرتد ہوئی ہوں اور ہمیں یہ روایت بھی معلوم ہوئی کہ ابوبصیر بن اسید ثقفی رضی اللہ عنہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مومن و مہاجر کی حیثیت سے معاہدہ کی مدت کے اندر ہی حاضر ہوئے تو اخنس بن شریق نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تحریر لکھی جس میں اس نے (ابوبصیر رضی اللہ عنہ کی واپسی کا) مطالبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا۔ پھر انہوں نے حدیث پوری بیان کی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشُّرُوطِ/حدیث: 2733]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2733 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2733  
حدیث حاشیہ:
تشریح:
یہ واقعہ 6 ھ کا ہے آنحضرت ﷺ پیر کے دن ذی قعدہ کے آخر میں مدینہ سے عمرہ کا ارادہ کر کے نکلے۔
آپ ﷺ کے ساتھ سات سو مسلمان تھے اور ستر اونٹ قربانی کے‘ ہر دس آدمی میں ایک اونٹ۔
ایک روایت میں آپ کے ساتھیوں کی تعداد چودہ سو بتلائی ہے۔
آپ نے بسر بن سفیان کو قریش کی خبر لانے کے لئے بھیجا تھا‘ اس نے واپس آکر بتلایا کہ قریش کے لوگ آپ کے آنے کی خبرسن کر ذی طویٰ میں آگئے ہیں اور خالد بن ولید ؓ ان کے سواروں کے ساتھ کراع الغمیم نامی جگہ میں آٹھہرے ہیں‘ یہ جگہ مکہ سے دومیل پر ہے۔
اس روایت میں واقعہ حدیبیہ کی تفصیلات موجود ہیں۔
روایت میں قصویٰ اونٹنی کا ذکر ہے‘ اس پر آنحضرت ﷺ سواری کرتے تھے‘ یہ تمام اونٹوں میں آگے رہتی‘ آپ نے اس پر سوار ہو کر ہجرت کی تھی۔
روایت میں تہامہ کا ذکر ہے‘ یہ مکہ اور اس کے اطراف کی بستیوں کو کہتے ہیں۔
تہم گرمی کی شدت کو کہتے ہیں۔
یہ علاقہ بے حد گرم ہے‘ اسی لئے تہامہ نام سے موسوم ہوا۔
کعب بن لوی قریش کے جداعلیٰ ہیں۔
عوذ المطا فیل کا لفظ جو روایت میں آیا ہے اس کے دو معنی ہیں ایک بچہ دار اونٹنیاں جو ابھی بچہ جنی ہوں اور کافی دودھ دے رہی ہوں۔
دوسرے انسانوں کے بال بچے۔
دونوں صورتوں میں مطلب یہ ہے کہ قریش کے لو گ ان چشموں پر زیادہ دنوں تک رہنے کے لئے اپنے اونٹ اور اونٹنیاں اور بال بچے لے کر آئے ہیں تاکہ وہ عرصہ تک آپ سے جنگ کرتے رہیں۔
عروہ بن مسعود جو قریش کے نمائندہ بن کر آپ ﷺ سے صلح کی گفتگو کرنے آئے تھے‘ یہ چھ سال بعد خود مسلمان ہوکر مبلغ اسلام کی حیثیت سے اپنی قوم میں گئے تھے۔
آج یہ آنحضرت ﷺ کو سمجھنا سمجھنانے کاخیال لے کر آئے تھے حضرت ابو بکر ؓ نے جب اس کا یہ جملہ سنا کہ یہ متفرق قبائل کے لوگ جو مسلمان ہو کر آپ کے ارد گرد جمع ہیں‘ در صورت شکست آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔
جواباً ازراہ غصہ کہا تھا کہ تو واپس جا کر اپنے معبود لات کی شرمگاہ چوس لے‘ یہ خیال ہرگزنہ کرنا کہ ہم لوگ آنحضرت ﷺ کوچھوڑ کر چلے جائیں گے۔
مغیرہ بن شعبہ ؓجس کو عروہ نے غدار قرار دیا تھا۔
کہتے ہیں یہ عروہ کے بھتیجے تھے‘ ایک ہونے والی جنگ میں جو مغیرہ کی قوم سے متعلق تھی‘ عروہ نے بچ بچاؤ کرادیا تھا۔
اس احسان کو جتلا رہے تھے۔
بنو کنانہ میں سے آنے والے کا نام حلیس بن علقمہ حارثی تھا۔
وہ حبشیوں کا سردار تھا‘ آپ نے اس کے بارے میں جو فرمایا وہ بالکل صحیح ثابت ہواکہ اس نے قربانی کے جانور کو دیکھ کر‘ مسلمانوں سے لبیک کے نعرے سن کر بڑے اچھے لفظوں میں مسلمانوں کا ذکرخیرکیا اور مسلمانوں کے حق میں سفارش کی۔
صلح حدیبیہ کا متن لکھنے والے حضرت علی کرم اللہ وجهه تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2733   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2733  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں کے مفاد کے پیش نظر ایک معین مدت تک کے لیے کفار سے صلح کرنا جائز ہے اور ان کے درمیان جو شرائط طے ہوں انہیں لکھ لینا چاہیے، ان پر گواہی بھی تحریر کر لی جائے تاکہ فریقین میں سے جو صلح توڑنا چاہے اس کے خلاف گواہی دی جا سکے۔
(2)
واضح رہے کہ حضرت ابو بصیر ؓ ساحل سمندر پر عیص نامی مقام پر ٹھہرے اور ابو جندل ؓ بھی بھاگ کر وہاں آ گئے۔
اس طرح وہاں ستر سوار جمع ہو گئے قریش کا جو تجارتی قافلہ آتا اسے لوٹ لیتے۔
آخر کار قریش نے تنگ آ کر معاہدے کی آخری شرط ختم کر دی اور رسول اللہ ﷺ سے مطالبہ کیا کہ ابو بصیر ؓ کی کاروائیوں کو بند کیا جائے۔
آخر کار رسول اللہ ﷺ نے اپنا ایک خط حضرت ابو بصیر ؓ کے نام روانہ فرمایا۔
انہیں جب خط ملا تو وہ حالت نزع میں تھے۔
انہوں نے آپ ﷺ کا گرامی نامہ ہاتھ میں پکڑا اور اسے پڑھتے پڑھتے اپنی جان، جانِ آفریں کے حوالے کر دی۔
۔
۔
رضي اللہ عنه۔
۔
۔
(عمدةالقاري: 647/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2733