ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن ہلال نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے ابوالرجال، محمد بن عبدالرحمٰن نے، ان سے ان کی والدہ عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے پر دو جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی جو بلند ہو گئی تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے سے قرض میں کچھ کمی کرنے اور تقاضے میں کچھ نرمی برتنے کے لیے کہہ رہا تھا اور دوسرا کہتا تھا کہ اللہ کی قسم! میں یہ نہیں کروں گا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور فرمایا کہ اس بات پر اللہ کی قسم کھانے والے صاحب کہاں ہیں؟ کہ وہ ایک اچھا کام نہیں کریں گے۔ ان صحابی نے عرض کیا، میں ہی ہوں یا رسول اللہ! اب میرا بھائی جو چاہتا ہے وہی مجھ کو بھی پسند ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصُّلْحِ/حدیث: 2705]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2705
حدیث حاشیہ: آنحضرت ﷺ نے ہر دو میں صلح کا ارشاد فرمایا، اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ حافظ ؒنے کہا، ان لوگوں کے نام معلوم نہیں ہوئے۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آپ نے اس شخص کو پوچھا تھا وہ کہاں ہے جو اچھی بات نہ کرنے کے لیے قسم کھارہا تھا۔ گویا آپ نے اس کے فعل کو برا سمجھا اور صلح کا اشارہ کیا۔ وہ سمجھ گیا اور آپ کے پوچھتے ہی خود بخود کہنے لگا میرا مقروض جو چاہے وہ مجھ کو منظور ہے۔ اس شخص نے آنحضرت ﷺ کے ادب و احترام میں فوراً ہی آپ کا اشارہ پاکر مقروض کے قرض میں تخفیف کا اعلان کردیا۔ بڑوں کے احترام میں انسان اپنا کچھ نقصان بھی برداشت کرلے تو بہتر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2705
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2705
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”وہ کہاں ہے جو اچھی بات نہ کرنے کے لیے قسم اٹھا رہا تھا؟“ گویا آپ ﷺ نے اس فعل کو برا خیال کیا اور اسے صلح کا مشورہ دیا۔ وہ آپ کے اشارے کو سمجھ گیا اور خود بہ خود کہنے لگا: میرا مقروض جو چاہے مجھے منظور ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ حاکم ایسے فیصلے کا حکم دے سکتا ہے جس میں فریقین کی بھلائی ہو اگرچہ کسی کے حق ادائیگی میں دیر ہو جائے بشرطیکہ اس کا زیادہ نقصان نہ ہو۔ اگر فریق ثانی راضی نہ ہو تو حاکم مقروض کو پورا حق ادا کرنے کا حکم دیا، چنانچہ صاحب واقعہ نے رسول اللہ ﷺ کا ادب و احترام کرتے ہوئے آپ کا اشارہ پا کر مقروض کے قرض میں کمی کا اعلان کر دیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2705
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3983
مجھے بہت سے اساتذہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی یہ حدیث سنائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازہ پر جھگڑنے والوں کی آواز سنی، جو بلند ہو رہی تھی، ان میں سے ایک دوسرے سے نقصان وضع کرنے کی استدعا کر رہا تھا، اور اس سے اصل رقم میں کچھ کمی کا مطالبہ کر رہا تھا اور دوسرا کہہ رہا تھا، اللہ کی قسم! میں یہ نہیں کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکل کر اس کے پاس آئے، اور فرمایا: ”کہاں ہے وہ جو اللہ کی قسم... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3983]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: وضع سے مراد یہ ہے کہ اصل رقم میں کمی کردو، اور اس کا مطالبہ کرنے میں نرمی، اور سہولت سے کام لو، یایہ ہے جو مجھے نقصان ہو گیا ہے، اس کو چھوڑ دو اور جو باقی بچا ہے، اس کی قیمت بھی کم کر دو، جب فریقین کی آواز سن کر حضور تشریف لائے اور فرمایا، مقروض کا مطالبہ منظور نہ کرنے کی قسم اٹھانا، نیکی نہ کرنے کی قسم اٹھانا ہے، جومسلمان کے لیے زیبا نہیں ہے، تو حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ آپﷺ کی بات سمجھ گئے، اور عبداللہ بن ابی حدرد کا مطالبہ منظور کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے کہ وہ جو پسند کریں، میں وہی کرنے کے لیے تیار ہوں، پھر آپﷺ کے کہنے پر آدھا قرضہ معاف کر دیا، اس حدیث سے معلوم ہوا، مقروض، قرض خواہ سے قرض کے کل یا جز کی معافی کی درخواست کر سکتا ہے، اور اس کو معاف کر دینا پسندیدہ عمل ہے، اور اس سلسلہ میں سفارش کرنا بھی درست ہے۔