9. باب: حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ میرا یہ بیٹا ہے مسلمانوں کا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرا دے۔
حدیث نمبر: Q2704
وَقَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ: فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا سورة الحجرات آية 9.
اور اللہ پاک کا سورۃ الحجرات میں یہ ارشاد ”پس دونوں میں صلح کرا دو۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الصُّلْحِ/حدیث: Q2704]
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ میں نے امام حسن بصری سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ قسم اللہ کی جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما (معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں) پہاڑوں میں لشکر لے کر پہنچے، تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا (جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مشیر خاص تھے) کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کیے بغیر واپس نہ جائے گا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا اور قسم اللہ کی، وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے، کہ اے عمرو! اگر اس لشکر نے اس لشکر کو قتل کر دیا، یا اس نے اس کو قتل کر دیا، تو (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) لوگوں کے امور (کی جواب دہی کے لیے) میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا، لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبرگیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا۔ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا۔ آخر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے۔ عبدالرحمٰن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز، آپ نے ان دونوں سے فرمایا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے یہاں جاؤ اور ان کے سامنے صلح پیش کرو، ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور آپ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہم بنو عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو خلافت کی وجہ سے روپیہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت ہو گئی ہے اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں، یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں، بغیر روپیہ دئیے ماننے والے نہیں۔ وہ کہنے لگے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ کو اتنا اتنا روپیہ دینے پر راضی ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں۔ فیصلہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ہے اور آپ سے پوچھا ہے۔ حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ حسن نے جس چیز کے متعلق بھی پوچھا، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ آخر آپ نے صلح کر لی، پھر فرمایا کہ میں نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ ہمارے نزدیک اس حدیث سے حسن بصری کا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت ہوا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصُّلْحِ/حدیث: 2704]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2704
حدیث حاشیہ: حدیث میں حضرت حسن ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی باہمی صلح کا ذکر ہے اور اس سے صلح کی اہمیت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ اس مقصد کے تحت مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ اس حدیث کو یہاں لائے۔ اس صلح کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے پیشن گوئی فرمائی تھی، جو حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی اور اس سے مسلمانوں کی باہمی خون ریزی رک گئی۔ حضرت حسن ؓ کی عسکری طاقت اور حضرت امیر معاویہ ؓ کی دو راندیشی پھر مصالحت کے لیے حضرت حسن کی آمادگی، یہ جملہ حالات امت کے لیے بہت سے اسباق پیش کرتے ہیں۔ مگر صد افسوس کہ ان اسباق کو بہت کم مد نظر رکھاگیا، جس کی سزا امت ابھی تک بھگت رہی ہے۔ راوی کا قول وکان خیرالرجلین میں اشارہ حضرت امیر معاویہ ؓ اور عمروبن عاص ؓ کی طرف ہے کہ حضرت معاویہ عمرو بن عاص ؓ سے بہتر تھے جو جنگ کے خواہاں نہیں تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2704
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2704
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ ﷺ کی حضرت حسن بن علی ؓ کے متعلق مذکورہ پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی، چنانچہ ان کے ذریعے سے حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی دونوں جماعتوں کے درمیان صلح ہو گئی اور وہ امن و امان سے زندگی بسر کرنے لگے۔ (2) اس مقام پر کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت علی ؓ کی شہادت کے بعد حضرت حسن ؓ کی بیعت کی گئی۔ آپ نے اس معاملے پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ امت میں اختلاف سے بہتر ہے کہ وہ خلافت حضرت معاویہ ؓ کے حوالے کر کے امت میں اتحاد و یگانگت پیدا کریں، چنانچہ انہوں نے چھ ماہ تک خلافت کے معاملات سر انجام دینے کے بعد ملک اور دنیا کی رونق کو ٹھکرا دیا، حالانکہ چالیس ہزار افراد ان کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت سے دستبرداری کی وجہ، ذلت اور قلت نہیں بلکہ محض امت کی خیرخواہی اور دین کی سربلندی مقصود تھی۔ (3) رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور اس سے مسلمانوں کی آپس میں خون ریزی رُک گئی۔ حضرت حسن ؓ کی عسکری طاقت، حضرت امیر معاویہ ؓ کی دور اندیشی، پھر حضرت حسن ؓ کی صلح پر آمادگی ان سب معاملات میں امت کے لیے بہت سے اسباق ہیں۔ جس سال صلح عمل میں آئی، امت مسلمہ میں وہ سال عام الجماعۃ کے نام سے مشہور ہوا۔ (4) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے انہی الفاظ سے ایک عنوان کتاب الفتن میں بھی ذکر کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7109)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2704