ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے بشیر بن یسار نے اور ان سے سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی اللہ عنہما خیبر گئے۔ خیبر کے یہودیوں سے مسلمانوں کی ان دنوں صلح تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصُّلْحِ/حدیث: 2702]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2702
حدیث حاشیہ: اسی سے کافروں کے ساتھ صلح کرنا ثابت ہوا۔ صلح کے متعلق اسلام نے خاص ہدایات اسی لیے دی ہیں کہ اسلام سراسر امن اور صلح کا علمبردار ہے۔ اسلام نے جنگ و جدال کو کبھی پسند نہیں کیا، قرآن مجید میں صاف ہدایت ہے۔ ﴿وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا﴾(الأنفال: 61) اگر دشمن صلح کرنا چاہے تو آپ ضرور صلح کے لیے جھک جائیے۔ قرآن مجید میں جہاں بھی جنگی احکامات ہیں وہ صرف مدافعت کے لیے ہیں۔ جارحانہ ہدایت کہیں بھی نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2702