ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا ہم سے معاذ بن ہشام نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے میرے والد نے قتادہ کے واسطہ سے، کہا ہم سے انس بن مالک نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن اور رات کے ایک ہی وقت میں اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے اور یہ گیارہ تھیں۔ (نو منکوحہ اور دو لونڈیاں) راوی نے کہا، میں نے انس سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طاقت رکھتے تھے۔ تو آپ نے فرمایا کہ ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیس مردوں کے برابر طاقت دی گئی ہے اور سعید نے کہا قتادہ کے واسطہ سے کہ ہم کہتے تھے کہ انس نے ان سے نو ازواج کا ذکر کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/حدیث: 268]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 268
� تشریح: جس جگہ راوی نے نو بیویوں کا ذکر کیا ہے، وہاں آپ کی نو ازواج مطہرات ہی مراد ہیں اور جہاں گیارہ کا ذکر آیا ہے۔ وہاں ماریہ اور ریحانہ جو آپ کی لونڈیاں تھیں، ان کو بھی شامل کر لیا گیا۔ علامہ عینی فرماتے ہیں: «قال ابن خزيمة لم يقل احدمن اصحاب قتادة احدي عشرة الامعاذ بن هشام وقدروي البخاري الرواية الاخري عن انس تسع نسوة وجمع بينهما بان ازواجه كن تسعا فى هذاالوقت كما فى رواية سعيد و سريتاه مارية و ريحانة .» حدیث کے لفظ «في الساعة الواحدة» سے ترجمۃ الباب ثابت ہوتا ہے۔ آپ نے ایک ہی ساعت میں جملہ بیویوں سے ملاپ فرما کر آخر میں ایک ہی غسل فرمایا۔ قوت مردانگی جس کا ذکر روایت میں کیا گیا ہے یہ کوئی عیب نہیں ہے بلکہ نامردی کو عیب شمار کیا جاتا ہے۔ فی الواقع آپ میں قوتِ مردانگی اس سے بھی زیادہ تھی۔ باوجود اس کے آپ نے عین عالم شباب میں صرف ایک معمر بیوی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا پر اکتفا فرمایا۔ جو آپ کے کمال ضبط کی ایک بین دلیل ہے۔ ہاں مدنی زندگی میں کچھ ایسے ملکی و سیاسی و اخلاقی و سماجی مصالح تھے جن کی بناء پر آپ کی ازواج مطہرات کی تعداد نو تک پہنچ گئی۔ اس پر اعتراض کرنے والوں کو پہلے اپنے گھر کی خبر لینی چاہئیے کہ ان کے مذہبی اکابر کے گھروں میں سو، سو بلکہ ہزار تک عورتیں کتب تواریخ میں لکھی ہوئی ہیں۔ کسی دوسرے مقام پر اس کی تفصیل آئے گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 268
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:268
حدیث حاشیہ: 1۔ عنوان سے حدیث کی مطابقت کے متعلق علامہ سندھی ؒ لکھتے ہیں کہ حدیث عائشہ ؓ سے پتہ چلتا ہے کہ احرام سے پہلے لگائی گئی خوشبو کے اثرات احرام کے بعد بھی باقی تھے۔ اگر رسول اللہ ﷺ نے ہر بیوی کے پاس الگ الگ غسل کیا ہوتا تو خوشبو کے اثرات کا باقی رہنا عادتا بعید ہے۔ اسی طرح حدیث انس میں عنوان کا ثبوت (في الساعة الواحدة) کے الفاظ سے بھی ہو رہا ہے۔ اس لیے کہ ایک ساعت میں ہر ایک کے پاس جانا اور ہر ایک کے پاس الگ الگ غسل کرنا عادتا محال ہے۔ معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے سب سے فراغت کے بعد آخر میں ایک غسل فرمایا تھا۔ (حاشیة السندي: 59/1) دونوں روایات سے عنوان کا ثبوت اشارۃ النص سے ہو رہا ہے۔ امام بخاری ؒ اپنی دقت نظر کے پیش نظر استدلال کے لیے نئے نئے طریقے استعمال کرتے ہیں۔ 2۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک ہی ساعت میں گیارہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس تشریف لے گئے، حیرت و تعجب کے ساتھ اس سے سوال ہوا کہ آیا رسول اللہ ﷺ کے پاس اس قدر طاقت تھی کہ آپ ایک وقت میں گیارہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس تشریف لے جاسکتے تھے؟ حضرت انس ؓ نے جواب دیا: کیونکہ نہیں، ہمارے ہاں یہ بات مشہور تھی کہ آپ کو اس دنیا میں تیس مردوں کی قوت دی گئی۔ اسماعیلی ؒ کی روایت میں چالیس مردوں کی صراحت ہے، اگرچہ روایت شاذ ہے، مگر مراسیل طاوس میں بھی اسی طرح ہے اور اس میں (في الجماع) کا لفظ بھی ہے۔ نیزصفة الجنة لأبي نعیم میں اہل جنت کے آدمیوں کی طاقت کے الفاظ ہیں۔ حضرت زید بن ارقم کی روایت میں ہے کہ جنت کے ایک آدمی کو اکل وشرب اور جماع و شہوت کی قوت ایک سو مردوں کے برابر حاصل ہوگی۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ کی قوت کا حساب چار ہزارمردوں کے برابرہوتا ہے۔ (فتح الباري: 491/1) اس قدر قوت جماع کے باوجود آپ نے صرف گیارہ عورتوں سے تعلق رکھا ہے۔ 3۔ ہشام کی روایت کے مطابق ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد گیارہ ہے۔ جبکہ سعید کی روایت میں نو کا ذکر ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عقد زواج میں بیک وقت نو سے زیادہ ازواج جمع نہیں ہوئیں، اس بنا پر سعید کی روایت راجح ہے اور ہشام کی روایت کو ازواج کے ساتھ ماریہ اور ریحانہ کو بھی ملانے پر محمول کریں گے۔ ان تمام پر (نِسَاءَ النَّبِيِّ) کا اطلاق بطور تغلیب ہوا ہے۔ علامہ دمیاطی ؒ نے اپنی سیرت میں ان کی تعداد تیس تک بتائی ہے جن میں وہ بھی ہیں جو پوری طرح شرف زوجیت سے مشرف ہوئیں اور وہ بھی ہیں جن سے صرف عقد نکاح ہوا اور وہ بھی ہیں جن کو آپ نے قبل مصاحبت طلاق دے دی اور وہ بھی ہیں جنھیں آپ نے پیغام نکاح دیا لیکن عقد زواج نہ ہوا۔ حق یہ ہے کہ کثرت مذکورہ بوجہ اختلاف بعض اسماء ہوئی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ صحیح تعداد ان سے کہیں کم ہے۔ (فتح الباري: 490/1) ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کی تعداد میں اختلاف ہے، مگر گیارہ پر سب کا اتفاق ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ، حضرت عائشہ ؓ، حضرت اُم حبیبہ ؓ، حضرت اُم سلمہ ؓ، حضرت حفصہ ؓ، حضرت زینب بنت حجش ؓ، حضرت میمونہ ؓ، حضرت زینب ؓ بنت خزیمہ ؓ، حضرت جویریہ ؓ، حضرت سودہ ؓ، تزوج کے لحاظ سے ترتیب اس طرح ہے: حضرت خدیجہ ؓ، حضرت سودہ ؓ، حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ، حضرت اُم سلمہ ؓ، اُ م حبیبہ ؓ، حضرت زینب بنت حجش ؓ، حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ، اُم المساکین، حضرت میمونہ ؓ، حضرت جویریہ ؓ، حضرت صفیہ ؓ۔ رسول اللہ ﷺ کی بیشتر اولاد حضرت خدیجہ ؓ کے بطن سے ہوئی، جن کی تفصیل یہ ہے: حضرت قاسم ؓ، حضرت زینب ؓ، حضرت رقیہ ؓ، حضرت اُم کلثوم ؓ، حضرت فاطمہ ؓ، حضرت عبد اللہ ؓ ان کے علاوہ آخری اور ساتویں اولاد حضرت ابراہیم ؓ تھے جو آپ کی لونڈی ماریہ قبطیہ کےبطن سے پیدا ہوئے، ان کا انتقال بھی صغرسنی میں ہوا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 268