اور ابوجمیلہ نے کہا کہ میں نے ایک لڑکا راستے میں پڑا ہوا پایا۔ جب مجھے عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو فرمایا، ایسا نہ ہو یہ غار آفت کا غار ہو، گویا انہوں نے مجھ پر برا گمان کیا، لیکن میرے قبیلہ کے سردار نے کہا کہ یہ صالح آدمی ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسی بات ہے تو پھر اس بچے کو لے جا، اس کا نفقہ ہمارے (بیت المال کے) ذمے رہے گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: Q2662]
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالوہاب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوسرے شخص کی تعریف کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افسوس! تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ ڈالی۔ تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ ڈالی۔ کئی مرتبہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا) پھر فرمایا کہ اگر کسی کے لیے اپنے کسی بھائی کی تعریف کرنی ضروری ہو جائے تو یوں کہے کہ میں فلاں شخص کو ایسا سمجھتا ہوں، آگے اللہ خوب جانتا ہے، میں اللہ کے سامنے کسی کو بےعیب نہیں کہہ سکتا۔ میں سمجھتا ہوں وہ ایسا ایسا ہے اگر اس کا حال جانتا ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: 2662]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2662
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صفائی دینے والا ایک مرد ہی کافی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرد کی صفائی کا اعتبار کیا ہے لیکن ضروری ہے کہ وہ اس کی صفائی میں حد سے زیادہ بڑھنے کی بجائے حق گوئی سے کام لے۔ اگر کوئی شخص اپنی تعریف سن کر فخر میں آ جائے تو ایسے شخص کی تعریف سے بچنا چاہیے اور جس شخص سے اس کے کمال تقویٰ کے باعث فخر و تکبر کا خطرہ نہ ہو اس کی صفائی دینے اور تعریف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کا طریقہ رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ”اصل علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے، اس کے علم کے مقابلے میں کسی کو پاک نہیں ٹھہرایا جا سکتا، البتہ اس شخص کے متعلق میں اچھا گمان رکھتا ہوں۔ “(2) کسی آدمی کی منہ پر تعریف کی جا سکتی ہے بشرطیکہ اس کے فخر میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو، البتہ تعریف میں حد سے بڑھنا بہرحال ممنوع ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ اس کے متعلق ایک دوسرا عنوان قائم کرتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2662
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3744
´مدح کا بیان۔` ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا: ”افسوس! تم نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی“، اس جملہ کو آپ نے کئی بار دہرایا، پھر فرمایا: ”تم میں سے اگر کوئی آدمی اپنے بھائی کی تعریف کرنا چاہے تو یہ کہے کہ میں ایسا سمجھتا ہوں، لیکن میں اللہ تعالیٰ کے اوپر کسی کو پاک نہیں کہہ سکتا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3744]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) انسان ظاہر کے مطابق رائے قائم کرتا ہے۔ دل کی حقیقت اور کیفیت سے صرف اللہ تعالیٰ باخبر ہے۔
(2) منہ پر تعریف کرنا منع ہے، تا ہم جس کی بابت یہ خطرہ نہ ہو کہ وہ تعریف سے کبر و غرور میں مبتلا ہو جائےگا، اس کی مناسب انداز سے تعریف کی جا سکتی ہے، جیسے نبی ﷺنے بعض دفعہ حضرت ابو بکر ؓ وغیرہ بعض صحابہ کی تعریف فرمائی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3744
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6061
6061. حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کی مجلس میں ایک آدمی کا ذکر آیا تو ایک دوسرے شخص نے اس کی خوب تعریف کی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: افسوس! تم نے اپنی ساتھی کی گردن توڑ ڈالی ہے۔۔۔ آپ ﷺ نے یہ جملہ کئی بار دہرایا۔۔۔۔ اگر کوئی اپنے ساتھی کی تعریف کرنا ہی چاہتا ہو تو یوں کہے: میں اس کے متعلق ایسا خیال کرتا ہوں (اور یہ بھی اس صورت میں) اگر وہ جانتا ہے کہ دوسرا شخص واقعی ایسا ہے اللہ تعالٰی اس کا محاسبہ کرنے والا ہے اللہ تعالٰی کے سامنے میں اس کی صفائی نہیں دیتا (کیونکہ وہ تو سب کو خوب جانتا ہے) وہیب نے خالد سے (ویحك کی بجائے) ویلك کے الفاظ بیان کئے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6061]
حدیث حاشیہ: لفظ ویحك کلمہ رحمت ہے اور ویلك کلمہ عذاب ہے، مطلب یہ ہوگا کہ جس کے لئے ویح بولا جائے تو معنی یہ ہوگا کہ افسوس تجھ پر اللہ رحم کرے اور جس پر لفظ ویلک بولیں گے تو معنی یہ ہوگا کہ افسوس اللہ تجھ پر عذاب کرے۔ تعریف میں، اسی طرح ہجو میں مبالغہ کرنا، بےہودہ شاعروں اور خوشامدی لوگوں کا کام ہے ایسی تعریف سے وہ شخص جس کی تعریف کرو پھول کر مغرور بن جاتا ہے اور جہل مرکب میں گرفتار ہو کر رہ جاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6061
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6162
6162. حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے سامنے ایک آدمی نے کسی دوسرے آدمی کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا: افسوس تجھ پر! تم نے اپنی بھائی کی گردن کاٹ دی۔۔۔۔ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے۔ اگر تمہیں کسی کی تعریف کرنا ہو اور وہ اس کے متعلق جانتا بھی ہو تو اس طرح کہو ”فلاں کے متعلق میرا خیال یہ ہے یقینی طور پر اللہ ہی اس کا حساب جانتا ہے۔ میں تو اللہ کے مقابلے میں کسی کو نیک نہیں کہہ سکتا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6162]
حدیث حاشیہ: کیونکہ اس کواللہ کے علم کی خبر نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6162
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6061
6061. حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کی مجلس میں ایک آدمی کا ذکر آیا تو ایک دوسرے شخص نے اس کی خوب تعریف کی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: افسوس! تم نے اپنی ساتھی کی گردن توڑ ڈالی ہے۔۔۔ آپ ﷺ نے یہ جملہ کئی بار دہرایا۔۔۔۔ اگر کوئی اپنے ساتھی کی تعریف کرنا ہی چاہتا ہو تو یوں کہے: میں اس کے متعلق ایسا خیال کرتا ہوں (اور یہ بھی اس صورت میں) اگر وہ جانتا ہے کہ دوسرا شخص واقعی ایسا ہے اللہ تعالٰی اس کا محاسبہ کرنے والا ہے اللہ تعالٰی کے سامنے میں اس کی صفائی نہیں دیتا (کیونکہ وہ تو سب کو خوب جانتا ہے) وہیب نے خالد سے (ویحك کی بجائے) ویلك کے الفاظ بیان کئے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6061]
حدیث حاشیہ: (1) انسان کو چاہیے کہ وہ کسی دوسرے کے باطن کی پورے وثوق اور یقین سے صفائی نہ دے اور نہ کسی کی پاکدامنی ہی کا دعویٰ کرے کیونکہ باطن کے حالات اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ اسے کسی کی تعریف کرتے ہوئے صرف یہ کہنے کی اجازت ہے کہ میں اسے ایسا ایسا خیال کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ لوگوں نے کہا: آپ ہمارے سید ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”سید اللہ ہے۔ “ لوگوں نے کہا: آپ ہمارے لیے صاحب فضیلت اور صاحب جود وسخا ہیں تو آپ نے فرمایا: ”تم اس طرح کی بات تو کہہ سکتے ہو لیکن کہیں شیطان تمھیں اپنا وکیل نہ بنائے کہ ایسی بات کہہ دو جو میری شان کے مطابق نہ ہو۔ “(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4806)(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسلاف سے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی اس کے سامنے تعریف کرے تو اسے درج ذیل دعا پڑھنی چاہیے: (اللَّهمّ اجْعَلْنِي خَيْرًا مِمَّا يَظُنُّونَ، وَاغْفِرْ لِي مَا لا يَعْلَمُونَ، وَلا تُؤَاخِذْنِي بِمَا يَقُولُونَ) ”اے اللہ! میرے متعلق جن امور کا انھیں علم نہیں مجھے معاف کر دے اور جو وہ کہتے ہیں اس کے متعلق میرا مؤاخذہ نہ کر اور مجھے ان کے گمان کے مطابق اچھا بنادے۔ “(شعب الإیمان للبیھقي: 228/4، وصحیح الأدب المفرد للألباني: 282/1،رقم: 761/589)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6061