اور سعید نے بیان کیا قتادہ سے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ دومہ (تبوک کے قریب ایک مقام) کے اکیدر (نصرانی) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ بھیجا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: 2616]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2616
حدیث حاشیہ: جس کا ذکر اس حدیث میں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2616
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2616
حدیث حاشیہ: (1) دومۃ الجندل ایک شہر کا نام ہے جو تبوک کے قریب تھا، وہاں کا بادشاہ اکیدر بن عبدالملک عیسائی تھا۔ حضرت خالد بن ولید ؓ اسے گرفتار کر کے لائے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے آزاد کر دیا کیونکہ اس نے جزیہ دینے پر صلح کر لی تھی۔ سندس ریشم کا جبہ اس نے بطور تحفہ بھیجا تھا۔ آپ نے وہ جبہ حضرت علی ؓ کو دیا اور فرمایا: ”اسے فواطم میں تقسیم کر دو۔ “(صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5422(2071) تو حضرت علی ؓ نے اس کے چار ٹکڑے کر کے اپنے زوجہ حضرت فاطمہ ؓ اور والدہ محترمہ حضرت فاطمہ بنت اسد، نیز فاطمہ بنت حمزہ اور فاطمہ بنت ابی طالب ام ہانی کو تقسیم کر دیے۔ (2) اس روایت سے معلوم ہوا کہ کفار و مشرکین کے تحائف قبول کیے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ سیاسی اور معاشرتی حالات سازگار ہوں۔ اگر حالات خراب ہوں تو تحائف کا تبادلہ جائز نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2616