ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو یونس نے خبر دی، انہوں نے زہری سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے سعید بن مسیب سے سنا، انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”غلام جو کسی کی ملکیت میں ہو اور نیکو کار ہو تو اسے دو ثواب ملتے ہیں۔“ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد، حج اور والدہ کی خدمت (کی روک) نہ ہوتی تو میں پسند کرتا کہ غلام رہ کر مروں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِتْقِ/حدیث: 2548]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2548
حدیث حاشیہ: حضرت ابوہریرہ ؓ کا مطلب یہ ہے کہ غلام پر جہاد فرض نہیں ہے، اسی طرح حج اور وہ بغیر اپنے مالک کی اجازت کے جہاد اور حج کے لیے جا بھی نہیں سکتا۔ اسی طرح اپنی ماں کی خدمت بھی آزادی کے ساتھ نہیں کرسکتا۔ اس لیے اگر یہ باتیں نہ ہوتیں تو میں آزادی کی نسبت کسی کا غلام رہنا زیادہ پسند کرتا۔ قال ابن بطال هو من قول أبي هریرة و کذلك قاله الداودي وغیرہ أنه مدرج في الحدیث و قد صرح بالإدراج الإسماعیلي من طریق آخر عن عبداﷲ بن المبارك بلفظ والذي نفس أبي هریرة بیدہ الخ و صرح مسلم أیضا بذلك۔ (حاشیہ بخاری) یعنی یہ قول حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کا ہے۔ عبداللہ بن مبارک سے صراحتاً یہ آیا ہے اور مسلم میں بھی یہ صراحت موجود ہے۔ واللہ أعلم
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2548
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2548
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث پر ایک اعتراض ہے کہ رسول اللہﷺ کی والدہ ماجدہ تو رسول اللہﷺ کی صغر سنی ہی میں وفات پا گئی تھیں تو حدیث کے مطابق اپنی ماں سے نیکی کرنے کے کیا معنی ہیں؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مذکورہ کلام رسول اللہﷺ کا نہیں بلکہ یہ حضرت ابو ہریرہؓ کا مقولہ ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”نیک اور صالح غلام کو دوہرا اجر ملتا ہے“ اور اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں ابو ہریرہ کی جان ہے! اگر اللہ کی راہ میں جہاد اور حج نہ ہوتا، نیز والدہ سے نیک کرنا ضروری نہ ہوتا تو میری خواہش یہی تھی کہ میں غلامی میں فوت ہوتا۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 4320(1665) ۔ 2۔ حضرت ابو ہریرہؓ کا مطلب ہے کہ غلام پر جہاد فرض نہیں ہے اسی طرح حج کرنا بھی اس کے فرائض میں شامل نہیں ہے، ماں کی خدمت بھی آزادی سے نہیں کر سکتا، اس لیے اگر یہ باتیں نہ ہوتیں تو میں آزادی کی نسبت کسی کا غلام رہنا پسند کرتا۔ (فتح الباري: 217/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2548
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1985
´نیک سیرت غلام کی فضیلت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے لیے کیا ہی اچھا ہے کہ اپنے رب کی اطاعت کریں اور اپنے مالک کا حق ادا کریں“، آپ کے اس فرمان کا مطلب لونڈی و غلام سے تھا ۱؎۔ کعب رضی الله عنہ کہتے ہیں: اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1985]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: گویا وہ غلام اور لونڈی جو رب العالمین کی عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے مالک کے جملہ حقوق کو اچھی طرح سے ادا کریں ان کے لیے دوگنا ثواب ہے، ایک رب کی عبادت کا دوسرا مالک کا حق اداکرنے کا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1985
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2549
2549. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ” کتنااچھا ہے کسی کا وہ غلام جو اپنے رب کی عبادت اچھی طرح کرتا ہے اور اپنے آقا کی خیر خواہی بھی کرتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2549]
حدیث حاشیہ: رسول اللہ ﷺ نے جہاں آقاؤں کو اپنے لونڈی غلاموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین فرمائی ہے وہاں لونڈی غلاموں سے توقع رکھی ہے کہ وہ اسلامی فرائض کی ادائیگی کے بعد اپنے آقاؤں کی خیرخواہی کو اہم فریضہ خیال کریں، ان کے ساتھ وفاداری کریں اور انہیں تکلیف پہنچانے کا تصور تک نہ کریں۔ اگر وہ ان تعلیمات پر عمل کریں گے تو اللہ کے ہاں دوگنا اجر پائیں گے۔ ایسے غلاموں کی رسول اللہ ﷺ نے تعریف کی ہے جیسا کہ حدیث مذکور میں ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2549