اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ «واعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا وبالوالدين إحسانا وبذي القربى واليتامى والمساكين والجار ذي القربى والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبيل وما ملكت أيمانكم إن الله لا يحب من كان مختالا فخورا»”اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہراو اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ دار پڑوسیوں اور غیر پڑوسیوں اور پاس بیٹھنے والوں اور مسافروں اور لونڈی غلاموں کے ساتھ (اچھا سلوک کرو) بیشک اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند نہیں فرماتا جو تکبر کرنے اور اکڑنے والا اور گھمنڈ غرور کرنے والا ہو“۔ (آیت میں) «ذي القربى» سے مراد رشتہ دار ہیں، «جنب» سے غیر یعنی اجنبی اور «الجار الجنب» سے مراد سفر کا ساتھی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِتْقِ/حدیث: Q2545]
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ہم سے واصل بن حیان نے جو کبڑے تھے، بیان کیا، کہا کہ میں نے معرور بن سوید سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ان کے بدن پر بھی ایک جوڑا تھا اور ان کے غلام کے بدن پر بھی اسی قسم کا ایک جوڑا تھا۔ ہم نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ ایک دفعہ میری ایک صاحب (یعنی بلال رضی اللہ عنہ سے) سے کچھ گالی گلوچ ہو گئی تھی۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے انہیں ان کی ماں کی طرف سے عار دلائی ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے۔ اس لیے جس کا بھی کوئی بھائی اس کے قبضہ میں ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ لیکن اگر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالو تو پھر ان کی خود مدد بھی کر دیا کرو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِتْقِ/حدیث: 2545]
يا أبا ذر إنك امرؤ فيك جاهلية قلت يا رسول الله من سب الرجال سبوا أباه وأمه قال يا أبا ذر إنك امرؤ فيك جاهلية هم إخوانكم جعلهم الله تحت أيديكم فأطعموهم مما تأكلون وألبسوهم مما تلبسون ولا تكلفوهم ما يغلبهم فإن كلفتموهم فأعينوهم
إنك امرؤ فيك جاهلية إخوانكم وخولكم جعلهم الله تحت أيديكم فمن كان أخوه تحت يديه فليطعمه مما يأكل وليلبسه مما يلبس ولا تكلفوهم ما يغلبهم فإن كلفتموهم فأعينوهم عليه
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2545
حدیث حاشیہ: تاکہ وہ آسانی سے اس خدمت کو انجام دے سکیں۔ روایت میں مذکورہ غلام سے حضرت بلال ؓ مراد ہیں۔ بعضوں نے کہا ابوذر ؓ کے بھائیوں میں سے کوئی تھے جیسے مسلم کی روایت میں ہے۔ غلام کو ساتھ کھلانے کا حکم استحباباً ہے۔ حضرت ابوذر ؓ اپنے غلام کو ساتھ ہی کھلاتے اور اپنے ہی جیسا کپڑا پہناتے تھے۔ آیات باب میں ذی القربیٰ سے رشتہ دار مراد ہیں۔ یہ ابن عباس ؓ سے مروی ہے، اس کو علی بن ابی طلحہ نے بیان کیا اور جنب سے بعضوں نے یہودی اور نصرانی مراد رکھا ہے۔ یہ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے نکالا۔ اور جار الجنب کی جو تفسیر امام بخاری ؒ نے کی ہے وہ مجاہد اور قتادہ سے منقول ہے۔ ا س حدیث سے ان معاندین اسلام کی بھی تردید ہوتی ہے جو اسلام پر غلامی کاالزام لگاتے ہیں۔ حالانکہ رسم غلامی کی جڑوں کو اسلام ہی نے کھوکھلا کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2545
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2545
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ابو ذر غفاریؓ نے حضرت بلالؓ سے کہا: سیاہ فام عورت کے بیٹے! اس پر رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا: ”ابو ذر! تمہارے اندر اب بھی جاہلیت کی عادت باقی ہے۔ “ بہر حال آقا پر علاقے کے اعتبار اور لوگوں کے طور طریقے کے لحاظ سے غلام کا خرچہ ضروری ہے۔ اگر مالک بخل کی وجہ سے معمولی کھانا یا معمولی لباس پہنتا ہو تو غلام سے اس طرح کا بخل نہ کرے اور اسے اچھا لباس اور اچھا کھانا دے۔ اگر غلام اپنی مرضی سے معمولی کھانا اور معمولی اختیار کرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ 2۔ خادم، ملازم، نوکر، مزدور اور ماتحت عملے کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔ 3۔ اس حدیث سے مخالفین اسلام کی بھی تردید ہوتی ہے جو اسلام پر غلامی کی وجہ سے طعن کرتے ہیں، حالانکہ اسلام ہی نےرسم غلامی کی جڑوں کو کھوکھلا کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2545
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 31
´معصیت بڑی ہو یا چھوٹی محض اس کے ارتکاب سے مسلمان کافر نہیں ہوتا` «. . . قَالَ: لَقِيتُ أَبَا ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ وَعَلَى غُلَامِهِ حُلَّةٌ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنِّي سَابَبْتُ رَجُلًا فَعَيَّرْتُهُ بِأُمِّهِ، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا ذَرٍّ،" أَعَيَّرْتَهُ بِأُمِّهِ، إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ . . .» ”. . . میں ابوذر سے ربذہ میں ملا وہ ایک جوڑا پہنے ہوئے تھے اور ان کا غلام بھی جوڑا پہنے ہوئے تھا۔ میں نے اس کا سبب دریافت کیا تو کہنے لگے کہ میں نے ایک شخص یعنی غلام کو برا بھلا کہا تھا اور اس کی ماں کی غیرت دلائی (یعنی گالی دی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معلوم کر کے مجھ سے فرمایا اے ابوذر! تو نے اسے ماں کے نام سے غیرت دلائی، بیشک تجھ میں ابھی کچھ زمانہ جاہلیت کا اثر باقی ہے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 31]
� تشریح: حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام ہیں بہت ہی بڑے زاہد عابد تھے۔ ربذہ مدینہ سے تین منازل کے فاصلہ پر ایک مقام ہے، وہاں ان کا قیام تھا۔ بخاری شریف میں ان سے چودہ احادیث مروی ہیں۔ جس شخص کو انہوں نے عار دلائی تھی وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے اور ان کو انہوں نے ان کی والدہ کے سیاہ فام ہونے کا طعنہ دیا تھا۔ جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوذر ابھی تم میں جاہلیت کا فخر باقی رہ گیا۔ یہ سن کر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے رخسار کے بل خاک پر لیٹ گئے۔ اور کہنے لگے کہ جب تک بلال میرے رخسار پر اپنا قدم نہ رکھیں گے۔ مٹی سے نہ اٹھوں گا۔
«حله» دو چادروں کو کہتے ہیں۔ جو ایک تہمد کی جگہ اور دوسری بالائی حصہ جسم پر استعمال ہو۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی لیکن ایمان سے خارج نہیں بتلایا۔ ثابت ہوا کہ معصیت بڑی ہو یا چھوٹی محض اس کے ارتکاب سے مسلمان کافر نہیں ہوتا۔ پس معتزلہ و خوارج کا مذہب باطل ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص معصیت کا ارتکاب کرے اور اسے حلال جان کر کرے تو اس کے کفر میں کوئی شک بھی نہیں ہے کیونکہ حدود الٰہی کا توڑنا ہے، جس کے لیے ارشاد باری ہے: «وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَأُولَـئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ»[البقرة: 229]”جو شخص حدود الٰہی کو توڑے وہ لوگ یقیناً ظالم ہیں۔“ شیطان کو اس ذیل میں مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ جس نے اللہ کی نافرمانی کی اور اس پر ضد اور ہٹ دھرمی کرنے لگا اللہ نے اسی کی وجہ سے اسے مردود و مطرود قرار دیا۔ پس گنہگاروں کے بارے میں اس فرق کا ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 31
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 31
31. حضرت معرور بیان کرتے ہیں کہ میں ربذه (جگہ) میں حضرت ابوذر غفاری ؓ سے ملا، دیکھا تو انہوں نے اور ان کے غلام نے ایک جیسا جوڑا زیب تن کیا ہوا ہے۔ میں نے ان سے اس کی بابت پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نے ایک شخص کو بایں طور گالی دی کہ اسے ماں کی عار دلائی۔ نبی اکرم ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا: ”تو نے اسے اس کی ماں سے عار دلائی ہے؟ ابھی تک تجھ میں جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے تصرف میں رکھا ہے، چنانچہ جس شخص کا بھائی اس کے قبضے میں ہو، اسے چاہیئے کہ اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اسے وہی لباس پہنچائے جو وہ خود پہنتا ہے۔ اور ان سے وہ کام نہ لو جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو۔ اور اگر ایسے کام کی انہیں زحمت دو تو خود بھی ان کا ہاتھ بٹاؤ۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:31]
حدیث حاشیہ: حضرت ابوذر غفاری ؓ قدیم الاسلام ہیں بہت ہی بڑے زاہد عابد تھے۔ ربذہ مدینہ سے تین منازل کے فاصلہ پر ایک مقام ہے، وہاں ان کا قیام تھا۔ بخاری شریف میں ان سے چودہ احادیث مروی ہیں۔ جس شخص کو انھوں نے عاردلائی تھی وہ حضرت بلال ؓ تھے اور ان کو انھوں نے ان کی والدہ کے سیاہ فام ہونے کا طعنہ دیا تھا۔ جس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابوذر ابھی تم میں جاہلیت کا فخر باقی رہ گیا۔ یہ سن کر حضرت ابوذرؓ اپنے رخسار کے بل خاک پر لیٹ گئے۔ اور کہنے لگے کہ جب تک بلال میرے رخسار پر اپنا قدم نہ رکھیں گے۔ مٹی سے نہ اٹھوں گا۔ حلہ دو چادروں کو کہتے ہیں۔ جو ایک تہمد کی جگہ اور دوسری بالائی حصہ جسم پر استعمال ہو۔ حضرت امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ حضرت ابوذر ؓ کو آپ نے تنبیہ فرمائی لیکن ایمان سے خارج نہیں بتلایا۔ ثابت ہوا کہ معصیت بڑی ہو یا چھوٹی محض اس کے ارتکاب سے مسلمان کافر نہیں ہوتا۔ پس معتزلہ وخوارج کا مذہب باطل ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص معصیت کا ارتکاب کرے اور اسے حلال جان کرکرے تواس کے کفر میں کوئی شک بھی نہیں ہے کیونکہ یہ حدودِالٰہی کا توڑنا ہے، جس کے لیے ارشادِ باری ہے: ﴿وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾(البقرة: 229) جو شخص حدودِ الٰہی کو توڑے وہ لوگ یقیناً ظالم ہیں۔ شیطان کو اس ذیل میں مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ جس نے خدا کی نافرمانی کی اور اس پر ضد اور ہٹ دھرمی کرنے لگا خدا نے اسی کی وجہ سے اسے مردود و مطرود قرار دیا۔ پس گنہگاروں کے بارے میں اس فرق کا ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 31
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5157
´غلام اور لونڈی کے حقوق کا بیان۔` معرور بن سوید کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر کو ربذہ (مدینہ کے قریب ایک گاؤں) میں دیکھا وہ ایک موٹی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور ان کے غلام کے بھی (جسم پر) اسی جیسی چادر تھی، معرور بن سوید کہتے ہیں: تو لوگوں نے کہا: ابوذر! اگر تم وہ (چادر) لے لیتے جو غلام کے جسم پر ہے اور اپنی چادر سے ملا لیتے تو پورا جوڑا بن جاتا اور غلام کو اس چادر کے بدلے کوئی اور کپڑا پہننے کو دے دیتے (تو زیادہ اچھا ہوتا) اس پر ابوذر نے کہا: میں نے ایک شخص کو گالی دی تھی، اس کی ماں عجمی تھی، میں نے اس کی ماں کے غیر عربی ہونے کا اسے طعنہ دیا، اس نے میری شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5157]
فوائد ومسائل: 1۔ اس میں حضرت ابو ذر کی فضیلت کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی نصیحت کو ازحد پلے باندھ لیا تھا۔
2۔ کسی کو اس کے حسب نسب کا طعنہ دینا جاہلیت کی علامت ہے۔
3۔ جس مسلمان بھائی کے ساتھ نفسیاتی مناسبت نہ ہو تو اس کے ساتھ بلاوجہ الجھنا کسی طرح معقول نہیں، چاہیے کہ آدمی کسی اور سے معاملہ استوار کرلے۔
4۔ اللہ کی مخلوق انسان ہو یا حیوان اس کو بلاوجہ عذاب دینا ناجائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5157
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5158
´غلام اور لونڈی کے حقوق کا بیان۔` معرور بن سوید کہتے ہیں کہ ہم ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس ربذہ میں آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے جسم پر ایک چادر ہے اور ان کے غلام پر بھی اسی جیسی چادر ہے، تو ہم نے کہا: ابوذر! اگر آپ اپنے غلام کی چادر لے لیتے، تو آپ کا پورا جوڑا ہو جاتا، اور آپ اسے کوئی اور کپڑا دے دیتے۔ تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”یہ (غلام اور لونڈی) تمہارے بھائی (اور بہن) ہیں انہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت کیا ہے، تو جس کے ماتحت اس کا بھائی ہو تو اس کو وہی کھلائے جو خود کھائے اور وہی پہنائے جو خود پہنے، اور اسے ایسے کام کرن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5158]
فوائد ومسائل: 1۔ اسلام ہی وہ اولین دین ہے۔ جس نے غلاموں اور مملوکوں کو اس قدر عظیم مساوات کےحقوق دیے ہیں۔
2۔ غلاموں نوکروں اور خادموں کو اچھا لباس اور اچھا کھانا دینے سے مالک کی عزت وقدر میں کوئی کمی نہیں آتی۔ بلکہ اضافہ ہوتا ہے۔
3۔ لازمی ہے کہ انسان پر مشقت کام میں غلام اور نوکر کی مدد کرے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5158
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3690
´غلاموں کے ساتھ احسان (اچھے برتاؤ) کرنے کا بیان۔` ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(حقیقت میں لونڈی اور غلام) تمہارے بھائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کیا ہے، اس لیے جو تم کھاتے ہو وہ انہیں بھی کھلاؤ، اور جو تم پہنتے ہو وہ انہیں بھی پہناؤ، اور انہیں ایسے کام کی تکلیف نہ دو جو ان کی قوت و طاقت سے باہر ہو، اور اگر کبھی ایسا کام ان پر ڈالو تو تم بھی اس میں شریک رہ کر ان کی مدد کرو۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3690]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اسلام میں غلام بنانا ممنوع نہیں تاہم غلام کے حقوق اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ آزاد انسان کے بہت قریب ہو جاتا ہےاس کے علاوہ غلام کو آزاد کرنے کی بہت ترغیب دی گئی ہے۔
(2) بہت سی صورتوں میں غلام کوآزاد کرنا مسلمانوں کے لیے یا خود غلام کے لیے تکلیف یا نقصان کا باعث ہو سکتا ہے، اس لیے اللہ تعالی ٰ نے فرمایا: ﴿وَالَّذينَ يَبتَغونَ الكِتابَ مِمّا مَلَكَت أَيمانُكُم فَكاتِبوهُم إِن عَلِمتُم فيهِم خَيرًا﴾(النور، 24: 33) اور تمہارے جو لونڈی غلام مکاتبت (آزادی کا معاہدہ) کرنا چاہیں تو ان سے آزادی کا معاہدہ کر لو اگر تمہیں ان کے اندر بھلائی معلوم ہو۔ اس لیے غیر مسلم یا بری عادتوں میں مبتلا غلام کو آزاد کرنے کی بجائے غلام ہی رکھنے میں اس کا اور معاشرے کا فائدہ ہے۔
(3) غلام کے انسانی حقوق کا خیال رکھنا مالک کا فرض ہے۔
(4) غلام کے لیے مناسب غذا، مناسب لباس اور رہائش مہیا کرنا آقا کی ذمہ داری ہے، اس کے عوض وہ آقا کی خدمت کرے گا اور روز مرہ معاملات میں اس سے تعاون کرے گا۔
(5) اگر غلام کے ذمے ایسا کام لگایا جائے جو وہ اکیلا انجام نہ دے سکتا ہو تو مالک کا فرض ہے کہ خود اس کے ساتھ مل کر کام کرے یا اسے مدد کار غلام نہیں تاہم وہ حالات کی وجہ سے مالک کی سختی برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے حقوق غلاموں سے زیادہ ہیں۔ ان سے ان کی طاقت سے زیادہ کام لینا کم آرام کا موقع دینا ان کی عزت نفس مجروح کرنا اور تخواہ دینے میں بلاوجہ تاخیر کرنا یہ سب کام حرام ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3690
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:328
328- ابومحیاۃ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: جب حجاج بن یوسف نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا تو حجاج، سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے گزارش کی: اے اماں جان! امیر المؤمنین نے مجھے آپ کے بارے میں تلقین کی ہے، تو کیا آپ کو کوئی ضرورت ہے؟ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے اور میں تمہاری ماں نہیں ہوں۔ میں اس شخص کی ماں ہوں، جسے گھاٹی کے سرے پر مصلوب کیا گیا ہے۔ تم رکو! میں تمہیں وہ بات بتاتی ہوں جو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہے: ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ثقیف قبیلے سے ایک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:328]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بہادر اور نڈر خاتون تھیں۔ اس حدیث سے حجاج بن یوسف کے سفاک ہونے کا واضح ثبوت بھی ملتا ہے۔ حجاج بن یوسف کے ظلم کی داستان تفصیل طلب ہے۔ اور رہا مختار ثقفی تو وہ ایک بدترین غدار تھا، اس نے حکومت کی خاطر خروج کیا تھا۔ اور جھوٹا مدعی نبوت تھا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 328
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4313
حضرت معرور بن سوید بیان کرتے ہیں کہ ہم ربذہ مقام پر حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس سے گزرے، انہوں نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی، اور ان کے غلام پر ویسی ہی چادر تھی، تو ہم نے کہا، اے ابوذر! اگر تم ان دونوں چادروں کو اکٹھا کر لیتے، تو یہ جوڑا بن جاتا، تو انہوں نے جواب دیا، واقعہ یہ ہے کہ میرے اور میرے ایک مسلمان بھائی کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، اس کی والدہ عجمی تھی، میں نے اسے اس کی ماں کی عار دلائی، تو اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4313]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ربذة، مدینہ منورہ سے تین دن کی مسافت پر ذات عرق کے پاس ایک بستی ہے، جہاں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے آخری دور میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اجازت سے رہائش اختیار کر لی تھی، اور وہیں 33ھ میں وفات پائی، ان کی کسی دوسرے مسلمان صحابی کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی، اور انہوں نے اسے یا ابن السوداء کہا، یعنی حبشن کے بچے، اس طرح ان کے نسب پر طعن کیا، جس کا جاہلیت کے دور میں عام رواج تھا، اس لیے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے عذر پیش کیا، کہ باہمی گالی گلوچ میں دوسرے کے والدین پر طعن کیا ہی جاتا ہے، اس لیے اس کو ظلم و زیادتی تصور نہیں کیا جاتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جاہلیت کے دور کا وطیرہ ہے، اسلامی اخلاق کی رو سے کسی کے والدین کو نشانہ نہیں بنایا جا سکتا، اگر ضرور جواب دینا ہے، تو جس کے ساتھ جھگڑا ہو اس تک محدود رہے، بہتر ہے درگزر سے کام لے، بعض روایات سے جن کی سند متصل نہیں ہے، معلوم ہوتا ہے، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے مدمقابل، حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے، جو غلام رہ چکے تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے غلام، تمہارے بھائی ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے محکوم بنایا ہے۔ “ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ایک مظلوم طبقہ کے ساتھ حسن سلوک کی کس قدر مؤثر اور دل نشیں اپیل کی ہے، غلام اور آقا کو اولاد آدم ہونے اور دین کے ناطہ سے بھائی بھائی قرار دیا ہے، اور پھر اس تعلق اور رشتہ کی بنیاد پر یہ فرمایا ہے، ان کے ساتھ وہی برتاؤ اور سلوک کرو، جو بھائیوں کے ساتھ ہوتا ہے، انہیں وہی کھلایا اور پہنایا جائے، جو خود کھایا اور پہنا جائے، اسلام کے ان سنہری اور زریں اصول و ہدایات کے مقابلہ میں آج مسلمان کہلانے والوں کو وہ سلوک اور وطیرہ دیکھیں، جو ایک سرمایہ دار اور صنعت کار مزدور کے ساتھ، ایک جاگیردار زمیندار مزارع اور کسان کے ساتھ، ایک تاجر، اپنے ملازم کے ساتھ، اور ایک افسر اپنے ماتحت کے ساتھ، بلکہ ایک امیر بھائی اپنے غریب بھائی کے ساتھ اختیار کرتا ہے، اگر آج مسلمان ان تعلیمات و ہدایات کو اپنا کر، اپنے ماتحتوں، خادموں، ملازموں اور محکوموں کی ضروریات زندگی کو پورا کرنا اپنا اولین فرض سمجھیں، چاہے ان ضرورتوں کے پورا کرنے میں ان کو اپنے برابر کی سطح پر نہ لائیں، تو آج ہماری بے شمار مشکلات اور مسائل حل ہو جائیں اور مسلمانوں میں اخوت و بھائی چارہ اور ہمدردی و خیرخواہی کے جذبات امن و سلامتی کے ضامن بن جائیں، کیونکہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرح اپنے خادم و غلام یا غلام یا ملازم کو برابر کی سطح پر لانا فرض نہیں ہے، بلکہ ایک اعلیٰ اخلاق اور کریمانہ سنت ہے، لیکن اس کی ضروریات زندگی کو پورا کرنا فرض ہے، اور اس حدیث سے اور اس کی ہم معنی دوسری احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے، کہ غلام، خادم یا محکوم و ماتحت سے اتنا ہی کام لیا جا سکتا ہے، جتنا وہ دشواری اور کلفت کے بغیر سرانجام دے سکے، اس کی ہمت و طاقت سے بڑھ کر کام لینا جو اس کے لیے دشواری اور کلفت کا سبب بنے، درست نہیں ہے، اگر کبھی کام کا بوجھ زیادہ ہو تو پھر اس کا ہاتھ بٹانا چاہیے، تاکہ ان کے لیے سہولت اور آسانی پیدا ہو سکے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4313
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4315
حضرت معرور بن سوید بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا، وہ ایک جوڑا پہنے ہوئے تھے، اور ان کے غلام کا جوڑا بھی ویسا ہی تھا، تو میں نے ان سے اس کے بارے میں سوال کیا؟ انہوں نے بتایا، میں نے ایک آدمی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تلخ کلامی کی، اور اسے اس کی ماں کی عار دلائی، حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا، وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپﷺ سے اس واقعہ کا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4315]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: خول: خدم کا ہم وزن اور ہم معنی ہے، آپﷺ کا مقصد یہ ہے کہ تمہارے غلام تمہارے بھائی اور خادم ہیں۔ خول کا اصل معنی نگہداشت اور حفاظت و نگرانی ہے، اس لیے مالی کو خولی کہتے ہیں، اور اگر اس کو خائل کی جمع بنائیں تو معنی محافظ و نگران ہو گا، اور تخویل کا معنی مالک بنانا ہی ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے، ﴿وَتَرَكْتُمْ مَاخَوَّلْنَا كُمْ وَرَاءَ ظُهُوْرِكُمْ﴾(سورہ انعام، آیت: نمبر 95) جو کچھ ہم نے تمہیں دیا تھا، اسے پیچھے چھوڑ آئے ہو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4315
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:31
31. حضرت معرور بیان کرتے ہیں کہ میں ربذه (جگہ) میں حضرت ابوذر غفاری ؓ سے ملا، دیکھا تو انہوں نے اور ان کے غلام نے ایک جیسا جوڑا زیب تن کیا ہوا ہے۔ میں نے ان سے اس کی بابت پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نے ایک شخص کو بایں طور گالی دی کہ اسے ماں کی عار دلائی۔ نبی اکرم ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا: ”تو نے اسے اس کی ماں سے عار دلائی ہے؟ ابھی تک تجھ میں جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے تصرف میں رکھا ہے، چنانچہ جس شخص کا بھائی اس کے قبضے میں ہو، اسے چاہیئے کہ اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اسے وہی لباس پہنچائے جو وہ خود پہنتا ہے۔ اور ان سے وہ کام نہ لو جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو۔ اور اگر ایسے کام کی انہیں زحمت دو تو خود بھی ان کا ہاتھ بٹاؤ۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:31]
حدیث حاشیہ: 1۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صرف اتنا کہا تھا کہ اے سیاہ فام عورت کے بیٹے! حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عمررسیدگی کے باوجود اس کی سنگینی کا علم نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطور تعجب فرمایا: ”اے ابو ذر! عمر کے اس دور میں بھی تیرے اندر اس قسم کی جاہلانہ عادات باقی ہیں؟ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6050) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خصلت شرعاً کس قدر مذموم ہے۔ (فتح الباري: 1؍ 118) ہمارےمعاشرے میں اس قسم کی بات گالی تو شمار ہی نہیں ہوتی بلکہ صرف مذاق کی ایک قسم سمجھی جاتی ہے جبکہ شریعت نے اسے دور جاہلیت کی یادگارسے تعبیر فرمایا ہے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ”معاصی امور جاہلیت سے ہیں۔ “ کو ثابت کرنا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنبیہ فرمائی کہ ابو ذر! تیرے اندر ابھی جاہلیت کی بو باقی ہے لیکن اسے ایمان سے خارج نہیں بتلایا اور نہ اسے تجدید ایمان ہی کے لیے کہا۔ واضح رہے کہ اس حدیث میں مساوات کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ ماتحت لوگوں کے ساتھ مساوات کی تلقین کی گئی ہے، جس سے ماتحتوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 31