ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہیں عبدالملک بن جریج نے خبر دی، انہیں عطاء نے اور انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے اور (ابن جریج اسی حدیث کی دوسری روایت) طاؤس سے کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چوتھی ذی الحجہ کی صبح کو حج کا تلبیہ کہتے ہوئے جس کے ساتھ کوئی اور چیز (عمرہ) نہ ملاتے ہوئے (مکہ میں) داخل ہوئے۔ جب ہم مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہم نے اپنے حج کو عمرہ کر ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ (عمرہ کے افعال ادا کرنے کے بعد حج کے احرام تک) ہماری بیویاں ہمارے لیے حلال رہیں گی۔ اس پر لوگوں میں چرچا ہونے لگا۔ عطاء نے بیان کیا کہ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کچھ لوگ کہنے لگے کیا ہم میں سے کوئی منیٰ اس طرح جائے کہ منی اس کے ذکر سے ٹپک رہی ہو۔ جابر نے ہاتھ سے اشارہ بھی کیا۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے زیادہ نیک اور اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔ اگر مجھے وہ بات پہلے ہی معلوم ہوتی جو اب معلوم ہوئی ہے تو میں قربانی کے جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ قربانی کے جانور نہ ہوتے تو میں بھی احرام کھول دیتا۔ اس پر سراقہ بن مالک بن جعشم کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! کیا یہ حکم (حج کے ایام میں عمرہ) خاص ہمارے ہی لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (یمن سے) آئے۔ اب عطاء اور طاؤس میں سے ایک تو یوں کہتا ہے علی رضی اللہ عنہ نے احرام کے وقت یوں کہا تھا۔ «لبيك بما أهل به رسول الله صلى الله عليه وسلم.» اور دوسرا یوں کہتا ہے کہ انہوں نے «لبيك بحجة رسول الله صلى الله عليه وسلم» کہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے احرام پر قائم رہیں (جیسا بھی انہوں نے باندھا ہے) اور انہیں اپنی قربانی میں شریک کر لیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّرِكَةِ/حدیث: 2505]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2505
حدیث حاشیہ: اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔ سند میں ابن جریج کا اس حدیث کو عطاء اور طاؤس دونوں سے سننا مذکور ہے۔ حافظ نے کہا میرے نزدیک تو طاؤس سے روایت منقطع ہے کیوں کہ ابن جریج نے مجاہد اور عکرمہ سے نہیں سنا اور طاؤس ان ہی کے ہم عصر ہیں، البتہ عطا سے سنا ہے کیوں کہ عطاء ان لوگوں کے دس برس بعد ہوئے تھے۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے مدینہ سے قربانی کے لیے63 اونٹ لیے اور حضرت علی ؓ یمن سے 37 اونٹ لائے۔ جملہ سو اونٹ ہوئے اور حضرت علی ؓ نے آپ کو ان اونٹوں میں شریک کرلیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2505
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2505
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو حجۃ الوداع سے پہلے خمس لینے کے لیے یمن بھیجا تھا۔ انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے احرام جیسا احرام باندھا تھا اور اپنے ہمراہ 37 اونٹ لائے جبکہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ سے 63 اونٹ لے کر روانہ ہوئے۔ اس طرح کل سو اونٹ قربانی کے ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں قربانی کے جانوروں میں شریک کر لیا۔ (2) احناف کے نزدیک قربانی کے جانوروں میں شراکت جائز نہیں کیونکہ جب عبادت کی نیت سے ان کی تعیناتی ہو چکی ہے تو ان میں اشتراک جائز نہیں۔ احناف حدیث کا جواب دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو ہدی کے ثواب میں شریک فرمایا تھا۔ بہرحال حدیث اپنے مفہوم میں واضح ہے کہ تعین کے بعد بھی کسی کو قربانی میں شریک کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2505