ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبر دی، کہا مجھے سعید بن ابی ایوب نے خبر دی، انہیں زہرہ بن معبد نے، انہیں ان کے دادا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ نے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا تھا۔ ان کی والدہ زینب بنت حمید رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ کو لے کر حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس سے بیعت لے لیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو ابھی بچہ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لیے دعا کی اور زہرہ بن معبد سے روایت ہے کہ ان کے داد عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ انہیں اپنے ساتھ بازار لے جاتے۔ وہاں وہ غلہ خریدتے۔ پھر عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم ان سے ملتے تو وہ کہتے کہ ہمیں بھی اس اناج میں شریک کر لو۔ کیونکہ آپ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی دعا کی ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن ہشام انہیں بھی شریک کر لیتے اور کبھی پورا ایک اونٹ (مع غلہ) نفع میں پیدا کر لیتے اور اس کو گھر بھیج دیتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّرِكَةِ/حدیث: 2502]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2502
حدیث حاشیہ: بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ کبھی ایک اونٹ کے لادنے کے موافق اناج پیدا کرتے۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ ہم کو بھی اس اناج میں شریک کرلو۔ طعام سے کھانے کے غلہ جات گندم، چاول وغیرہ مراد ہیں۔ شرکت میں ان کا کاروبار کرنا بھی جائز ہے۔ جیسا کہ حدیث ہٰذا میں عبداللہ بن ہشام ایک صحابی کا ذکر ہے جن کے لیے آنحضرت ﷺ نے بچپن میں دعا فرمائی تھی اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے اللہ نے ان کو بہت کچھ نوازا تھا۔ ان کے دادا جب غلہ وغیرہ خریدنے بازار جاتے تو ان کو ساتھ لے لیتے تاکہ حضور ﷺ کی دعاؤں کی برکت شامل حال رہے۔ بعض دفعہ راستے میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن زبیر مل جاتے تو وہ بھی درخواست کرتے کہ ہم کو بھی اس تجارت میں شریک کرلیجئے تاکہ دعائے نبوی ﷺ کی برکتوں سے ہم بھی فائدہ حاصل کریں۔ چنانچہ اکثر ایسا ہوا کرتا تھا کہ یہ سب بہت کچھ نفع کما کر واپس لوٹتے۔ اس حدیث پر حافظ صاحب فرماتے ہیں: وفي الحدیث مسح رأس الصغیر و ترك مبایعة من لم یبلغ والدخول في السوق لطلب المعاش و طلب البرکة حیث کانت والرد علی من زعم أن السعة من الحلال مذمومة و توقر دواعي الصحابة علی إحضار أولادھم عندالنبي صلی اللہ علیه وسلم لالتماس برکته و علم من أعلام نبوته صلی اللہ علیه وسلم لإجابة دعائه في عبداللہ بن هشام۔ یعنی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ چھوٹے بچوں کے سرپر دست شفقت پھیرنا سنت نبوی ہے اور نابالغ بچے سے بیعت نہ لینا بھی ثابت ہوا اور طلب معاش کے لیے بازار جانے کی مشروعیت بھی ثابت ہوئی اور برکت طلب کرنا بھی ثابت ہوا وہ جہاں سے بھی حاصل ہو اور ان لوگوں کی تردید بھی ہوئی جو رزق حلال کی کوشش کو مذموم جانتے ہیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ بیشتر صحابہ کرام برکت حاصل کرنے کے لیے اپنی اولاد کو آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں لایا کرتے تھے تاکہ آپ کی دعائیں ان بچوں کے شامل حال ہوں اور حضرت عبداللہ بن ہشام کے حق میں دعائے نبوی کی جو برکات حاصل ہوئیں یہ سب آنحضرت ﷺ کی صداقت کی نشانیوں میں سے اہم نشانیاں ہیں۔ ایسا ہی واقعہ عروہ بارقی ؓ کا ہے جو بازار میں جاتے اور کبھی تو چالیس چالیس ہزار کا نفع کما کر بازار سے واپس لوٹتے جو سب کچھ نبی کریم ﷺ کی دعاؤں کی برکت تھی۔ آپ نے ایک دفعہ ان کو ایک دینار دے کر قربانی کا جانور خریدنے بھیجا تھا اور یہ اس ایک دینار کی دو قربانیاں خرید کر لائے اور راستے میں ہی ان میں سے ایک کو فروخت کرکے دینار واپس حاصل کرلیا۔ پھر حضور ﷺ کی خدمت میں قربانی کا جانور پیش کیااور نفع میں حاصل ہونے والا دینار بھی اور ساتھ میں تفصیلی واقعہ سنایا جسے سن کر آنحضرت ﷺ بے حد خوش ہوئے اور ان کے کاروبار میں برکت کی دعا فرمائی۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: ومطابقة الحدیث للترجمة في قوله أشرکنا لکونهماطلبا منه الاشتراك في الطعام الذي اشتراہ فأجابهما إلی ذٰلك وهم من الصحابة و لم ینقل عن غیرهم مایخالف ذالك فیکون حجة والجمهور علی صحة الشرکة في کل مایتملك۔ (قسطلانی) یعنی حدیث کی باب میں مطابقت لفظ اشرکنا سے ہے۔ ان ہر دو بزرگ صحابیوں نے ان سے اس خرید کردہ غلہ میں شرکت کا سوال کیا اور انہوں نے ہردو کی اس درخواست کو قبول کیا۔ وہ سب اصحاب نبوی تھے اور کسی سے بھی اس کی مخالفت منقول نہیں ہوئی۔ پس یہ حجت ہے اور جمہور ہر اس چیز میں شرکت کے جواز کے قائل ہیں جو چیز ملکیت میں آسکتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2502
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2502
حدیث حاشیہ: (1) مالکی حضرات کا موقف ہے کہ غلے اور اناج میں شراکت نہیں ہو سکتی۔ امام بخاری ؒ نے ان کی تردید میں مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مملوکہ چیز میں شراکت ہو سکتی ہے۔ شراکت کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ نصف پر ہو بلکہ یہ شرکاء کی رضامندی پر موقوف ہے، نصف پر، ایک تہائی بلکہ ایک چوتھائی پر بھی ہو سکتی ہے۔ (2) عنوان سے حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ اور ابن زبیر ؓ حضرت ابن ہشام ؓ سے درخواست کرتے کہ ہمیں بھی اپنے خرید کردہ غلے میں شریک کر لو تو وہ ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے انہیں غلے میں شریک کر لیتے۔ کسی سے ان کی مخالفت منقول نہیں ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2502