17. باب: اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں کہ اگر وہ (کافر) توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو (یعنی ان سے جنگ نہ کرو)۔
اس حدیث کو ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، ان سے ابوروح حرمی بن عمارہ نے، ان سے شعبہ نے، وہ واقد بن محمد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں میں نے یہ حدیث اپنے باپ سے سنی، وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے (اللہ کی طرف سے) حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں اس وقت تک کہ وہ اس بات کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز ادا کرنے لگیں اور زکوٰۃ دیں، جس وقت وہ یہ کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیں گے، سوائے اسلام کے حق کے۔ (رہا ان کے دل کا حال تو) ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 25]
أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحق الإسلام وحسابهم على الله
أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة فإذا فعلوا عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله
امرت ان اقاتل الناس حتى يشهدوا ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم واموالهم إلا بحق الإسلام وحسابهم على الله. إلا ان مسلما لم يذكر
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 25
� تشریح: علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ابواب ایمان میں لانے سے فرقہ ضالہ مرجیہ کی تردید مقصود ہے جن کا گمان ہے کہ ایمان کے لیے عمل کی حاجت نہیں۔ آیت اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے توبہ کرنے اور نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی پر آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ ان کا راستہ چھوڑ دو یعنی جنگ نہ کرو۔ اور حدیث میں اس کی تفسیر مزید کے طور پر نماز اور زکوٰۃ کے ساتھ کلمہ شہات کا بھی ذکر کیا گیا اور بتلایا گیا کہ جو لوگ ان ظاہری اعمال کو بجا لائیں گے ان کو یقیناً مسلمان ہی تصور کیا جائے گا اور وہ جملہ اسلامی حقوق کے مستحق ہوں گے۔ رہا ان کے دل کا حال سو وہ اللہ کے حوالہ ہے کہ دلوں کے بھیدوں کا جاننے والا وہی ہے۔
«الا بحق الاسلام» کا مطلب یہ کہ قوانین اسلام کے تحت اگر وہ کسی سزا یا حد کے مستحق ہوں گے تو اس وقت ان کا ظاہری اسلام اس بارے میں رکاوٹ نہ بن سکے گا اور شرعی سزا بالضرور ان پر لاگو ہو گی۔ جیسے محصن زانی کے لیے رجم ہے۔ ناحق خون ریزی کرنے والے کے لیے قصاص ہے۔ یا جیسے وہ لوگ تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد زکوٰۃ سے انکار کر دیا تھا۔ جس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صاف صاف فرما دیا کہ «لاقاتلن من فرق بين الصلوة والزكوٰة» جو لوگ نماز کی فرضیت کے قائل ہیں مگر زکوٰۃ کی فرضیت اور ادائیگی سے انکار کر رہے ہیں ان سے میں ضرور مقابلہ کروں گا۔ «الابحق الاسلام» میں ایسے جملہ امور داخل ہیں۔
آیت شریفہ مذکورہ سورۃ توبہ میں ہے جو پوری یہ ہے «فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ»[9-التوبة:5] یعنی حرمت کے مہینے گزرنے کے بعد (مدافعانہ طور پر) مشرکین سے جنگ کرو اور جہاں بھی تمہارا داؤ لگے ان کو مارو، پکڑو، قید کرو اور ان کے پکڑنے یا زیر کرنے کے لیے ہر گھات میں بیٹھو۔ پھر اگر وہ شرارت سے توبہ کریں اور (اسلام قبول کر کے) نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ کیونکہ اللہ پاک بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت شریفہ کا تعلق ان مشرکین عرب کے ساتھ ہے جنہوں نے مسلمانوں کو ایک لمحہ کے لیے بھی سکون سے نہیں بیٹھنے دیا اور ہر وقت وہ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی فکر میں رہے اور ”خود جیو اور دوسروں کو جینے دو“ کا فطری اصول قطعاً بھلا دیا۔ آخر مسلمانوں کو مجبوراً مدافعت کے لیے قدم اٹھانا پڑا۔ آیت کا تعلق ان ہی لوگوں سے ہے اس پر بھی ان کو آزادی دی گئی کہ اگر وہ جارحانہ اقدام سے باز آ جائیں اور جنگ بند کر کے جزیہ ادا کریں تو ان کو امن دیا جائے گا اور اگر اسلام قبول کر لیں تو پھر وہ اسلامی برادری کے فرد بن جائیں گے اور جملہ اسلامی حقوق ان کو حاصل ہوں گے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ويؤخذ من هذا الحديث قبول الاعمال الظاهرة والحكم بمايقتضيه الظاهر والاكتفاءفي قبول الايمان بالاعتقاد الجازم۔» یعنی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اعمال ظاہری کو قبول کیا جائے گا اور ظاہری حال ہی پر حکم لگایا جائے گا اور پختہ اعتقاد کو قبولیت ایمان کے لیے کافی سمجھا جائے گا۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ويوخذ منه ترك تكفير اهل البدع المقرين بالتوحيد الملتزمين للشرائع وقبول توبة الكافر من كفره من غير تفصيل بين كفر ظاهر اوباطن» یعنی اس حدیث سے یہ بھی لیا جائے گا کہ جو اہل بدعت توحید کے اقراری اور شرائع کا التزام کرنے والے ہیں ان کی تکفیر نہ کی جائے گی اور یہ کہ کافر کی توبہ قبول کی جائے گی اور اس کی تفصیل میں نہ جائیں گے کہ وہ توبہ ظاہری کر رہا ہے یا اس کے دل سے بھی اس کا تعلق ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ اللہ کے حوالہ ہے۔ ہاں جو لوگ محبت بدعت میں گرفتار ہوکر علانیہ توہین و انکار سنت کریں گے وہ ضرور آیت کریمہ «فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ»[3-آل عمران:32] کے مصداق ہوں گے۔
حضرت امام المحدثین مرجیہ کی تردید کرتے ہوئے اور یہ بتلاتے ہوئے کہ اعمال بھی ایمان ہی میں داخل ہیں، تفصیل مزید کے طور پر آگے بتلانا چاہتے ہیں کہ بہت سی آیات قرآنی و احادیث نبوی میں لفظ عمل استعمال ہوا ہے اور وہاں اس سے ایمان مراد ہے۔ پس مرجیہ کا یہ قول کہ ایمان قول بلا عمل کا نام ہے، باطل ہے۔
حضرت علامہ مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وفي الحديث رد على المرجئة فى قولهم ان الايمان غيرمفتقر الي الاعمال وفيه تنبيه على ان الاعمال من الايمان والحديث موافق لقوله تعالىٰ فان تابوا واقامواالصلوة فخلوا سبيلهم متفق عليه اخرجه البخاري فى الايمان والصلوة ومسلم فى الايمان الا ان مسلمالم يذكر الابحق الاسلام لكنه مراد والحديث اخرجه ايضا الشيخان من حديث ابي هريرة والبخاري من حديث انس ومسلم من حديث جابر»[مرعاة جلد: اول ص: 36] مراد وہی ہے جو اوپر بیان ہوا ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری نے کتاب الایمان اور کتاب الصلوٰۃ میں نقل کیا ہے اور امام مسلم نے صرف ایمان میں اور وہاں لفظ «الابحق الاسلام» ذکر نہیں ہوا لیکن مراد وہی ہے نیز اس حدیث کو شیخان نے حدیث ابوہریرۃ سے اور بخاری نے حدیث انس سے اور مسلم نے حدیث جابر سے بھی روایت کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 25
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:25
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ ایمان کے باب میں طاعات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان سے ایمان قوی ہوتا ہے اور معاصی کے ارتکاب سے ایمان کمزور ہوجاتا ہے لہٰذا مرجیہ کا یہ کہنا کہ ایمان کے لیے اعمال کی ضرورت نہیں، بالکل باطل اور لغو ہے کیونکہ آیت کریمہ میں کفار کا راستہ چھوڑنے کے لیے توبہ اور اعمال کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔ ظاہرہے کہ توبہ سے مرد کفرو شرک سے باز رہنا ہے جسے حدیث میں"ادائے شہادتین"کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔ پھر محض شہادتین کا اقرار کافی نہیں بلکہ اقامت صلاۃ اور ایتائے زکاۃ کو اس کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ جب دنیا میں ان اعمال کی حیثیت تسلیم شدہ ہے تو آخرت میں ان کے بغیر عذاب سے رہائی کیونکر ہوگی۔ 2۔ کفار سے جنگ لڑنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اسلام قبول کر کے صرف اللہ کی عبادت کریں۔ اگرچہ اسلام میں جزیے اور مناسب شرائط کے ساتھ مصالحت پر بھی جنگ ختم ہو جاتی ہے، تاہم جنگ بندی کی یہ صورت اسلامی جنگ کی اصل غایت نہیں ہے لیکن چونکہ اس کے ذریعے سے اصل مقصد کے لیے ایک پر امن راستہ کھل جاتا ہے لہٰذا ان پر بھی جنگ روک دی جاتی ہے۔ 3۔ جب ایک شخص نے شہادتین (توحید ورسالت کی گواہی) کا اقرار کر کے اپنے عمل وکردار سے اپنے مومن ہونے کی تصدیق کردی تو ہم اسے مسلمان شمار کریں گے اور اسلامی حقوق میں اسے برابر کا شریک رکھیں گے۔ رہا دل کا معاملہ تو وہ اللہ کے ہاں معلوم ہوگا۔ ہم اس کےمکلف نہیں ہیں کہ دل چیر کر دیکھیں اور معلوم کریں کہ اس کا یہ اقرار اور عمل حقیقی ہے یا نمائشی یعنی آخرت کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ ہمارا ایسے انسان سے دنیوی مساوات کا معاملہ اس امرکی ضمانت نہیں ہوگا۔ کہ آخرت میں بھی یہ شخص مسلمانوں کے برابر ہی رہے گا۔ وہاں کے معاملات اس کے ضمیر کے مطابق ہوں گے۔ اگر یہ شخص ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے مسلمان ہوگا۔ تو جنت کا حقدار ہوگا بصورت دیگر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ 4۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اہل بدعت جو شہادتین کا اقرار یا شرائع اسلام کا التزام کرنے والے ہیں ان کی تکفیر نہ کی جائے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ کافر کی توبہ قبول کی جائے اور اس قسم کی تفصیل میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ توبہ ظاہری کر رہا ہے یا اس کے دل سے بھی اس کا تعلق ہے کیونکہ یہ معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ (فتح الباري: 1؍105)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 25
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 12
´کافروں سے جہاد کب کیا جائے گا` ”. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ جاری رکھوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز ادا کریں اور زکوۃ دیں۔ جب وہ یہ سب کچھ کرنے لگیں گے تو انہوں نے مجھ سے اپنے جان و مال کو بچا لیا، اسلامی حق کے علاوہ ان کا حساب اللہ کےذمہ ہے . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 12]
تخریج الحدیث: [صحيح بخاري 25]، [صحيح مسلم 129]
فقہ الحدیث ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کلمہ شہادت «لا اله الا الله محمد رسول الله» کی گواہی دینے کے بعد، نماز اور زکوٰۃ، دین اسلام کے دو انتہائی اہم ارکان ہیں۔ ان ارکان کی ادائیگی کے بعد ہی لوگوں کی جانیں اور مال محفوظ رہ سکتے ہیں، ورنہ ان کے خلاف بزور طاقت جہاد کیا جائے گا۔ ➋ اسلام کے احکام ظاہر پر مبنی ہیں، اگر کسی شخص نے ظاہری طور پر اسلام قبول کر لیا اور بظاہر ارکان اسلام پر عمل پیرا ہوا، نواقض اسلام کا ارتکاب نہیں کیا تو اسے دنیا میں اہل اسلام کے تمام حقوق حاصل ہوں گے، اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اگر باطن میں وہ کافر و منافق ہوا تو قیامت کے دن یہ ظاہری اسلام اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔ ديكهئے: [مشكوة مترجم ج 1 ص 124 مع فوائد غزنويه، بتصرف يسير] ➌ «امرت»”مجھے حکم دیا گیا“ کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اللہ نے حکم دیا ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے سوا، کوئی حکم دینے والا نہیں ہے۔ ➍ اس حدیث میں نماز سے مراد فرض نماز ہے۔ امام مالک و امام شافعی رحمہما اللہ کی طرف یہ بات منسوب ہے کہ جان بوجھ کر، کسی شرعی عذر کے بغیر فرض نماز ترک کرنے والے کو، اس کی حد میں قتل کیا جائے گا۔ جبکہ امام احمد کی طرف منسوب ہے کہ اس تارک نماز کو کفر اور ارتداد کی وجہ سے قتل کیا جائے گا اور اس آخری قول کے استدلال میں نظر ہے۔ دیکھئے: [مرعاة المفاتيح 59/1] ➎ بحق الاسلام سے مراد تمام وہ امور ہیں، جن کی سزا اسلام میں قتل ہے، مثلاً: ① شادی شدہ زانی کا سنگسار ہونا ② قتل کا بدلہ قتل: قصاص ③ مسلمان کا مرتد ہو جانا، وغیرہ جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔ ➏ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان حاکم کو اجازت ہے کہ وہ مانعین زکوٰۃ سے جنگ کرے، اور اسی طرح اس پر یہ لازم ہے کہ توحید کے ساتھ ساتھ نظام صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ قائم کرے۔ ➐ اس حدیث میں مرجیہ فرقے پر رد ہے، جو کہ اعمال کو ایمان میں داخل نہیں سمجھتے۔ ➑ «أقاتل الناس» سے مراد «أقاتل المشركين» ہے جیسا کہ صحیح روایت سے واضح ہے۔ دیکھئے: [السنن الكبريٰ للبيهقي 92/3، وسنده صحيح، والسنن المجتبيٰ للنسائي 75/7 ح 3971، وعلقه البخاري 393 بعضه] ➒ اس حدیث کے بعد صحیح مسلم میں ہے: «من قال لا الا اله ا الله وكفر بما يعبد من دون الله، حرم ماله و دمه و حسابه على الله» جس شخص نے «لا اله الا الله» کا اقرار کیا اور غیر اللہ کی عبادت سے انکار کیا تو اس کا مال اور خون (بہانا) حرام ہے۔ اس کا حساب اللہ پر ہے۔ [130، 23/37] معلوم ہوا کہ کفر و شرک سے انکار رکن ایمان ہے۔