ہم سے بشر بن مرحوم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبیدہ نے اور ان سے سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ(غزوہ ہوازن میں) لوگوں کے توشے ختم ہو گئے اور فقر و محتاجی آ گئی، تو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اپنے اونٹوں کو ذبح کرنے کی اجازت لینے (تاکہ انہیں کے گوشت سے پیٹ بھر سکیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ راستے میں عمر رضی اللہ عنہ کی ملاقات ان سے ہو گئی تو انہیں بھی ان لوگوں نے اطلاع دی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اونٹوں کو کاٹ ڈالو گے تو پھر تم کیسے زندہ رہو گے۔ چنانچہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا، یا رسول اللہ! اگر انہوں نے اونٹ بھی ذبح کر لیے تو پھر یہ لوگ کیسے زندہ رہیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا، تمام لوگوں میں اعلان کر دو کہ ان کے پاس جو کچھ توشے بچ رہے ہیں وہ لے کر یہاں آ جائیں۔ اس کے لیے ایک چمڑے کا دستر خوان بچھا دیا گیا۔ اور لوگوں نے توشے اسی دستر خوان پر لا کر رکھ دئیے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور اس میں برکت کی دعا فرمائی۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سب لوگوں کو اپنے اپنے برتنوں کے ساتھ بلایا اور سب نے دونوں ہاتھوں سے توشے اپنے برتنوں میں بھر لیے۔ جب سب لوگ بھر چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الشَّرِكَةِ/حدیث: 2484]
ناد في الناس فيأتون بفضل أزوادهم فبسط لذلك نطع وجعلوه على النطع فقام رسول الله فدعا وبرك عليه ثم دعاهم بأوعيتهم فاحتثى الناس حتى فرغوا ثم قال رسول الله أشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2484
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں ایک اہم ترین معجزہ نبوی کا ذکر ہے کہ اللہ نے اپنی قدرت کی ایک عظیم نشانی اپنے پیغمبر ﷺ کے ہاتھ پر ظاہر کی۔ یا توہ وہ توشہ اتنا کم تھا کہ لوگ اپنی سواریاں کاٹنے پر آمادہ ہو گئے یا وہ اس قدر بڑھ گیا کہ فراغت سے ہر ایک نے اپنی خواہش کے موافق بھر لیا۔ اس قسم کے معجزات آنحضرت ﷺ سے کئی بار صادر ہوئے ہیں۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آپ ﷺ نے سب کے توشے اکٹھا کرنے کا حکم دیا، پھر ہر ایک نے یوں ہی اندازے سے لے لیا، آپ نے تول ماپ کر اس کو تقسیم نہیں کیا۔ حدیث اور باب کی مطابقت کے سلسلہ میں شارحین بخاری لکھتے ہیں: و مطابقته للترجمة تؤخذ من قوله فیاتون بفضل أزوادهم و من قوله فدعا و برك علیه فإن جمع أزوادهم و هو في معنی النهد و دعاءالنبي صلی اللہ علیه وسلم بالبرکة۔ (عینی) یعنی حدیث اور باب میں مطابقت لفظ فیاتون الخ سے ہے کہ ایسے مواقع پر ان سب نے اپنے اپنے توشے لا کر جمع کر دیئے اور اس قول سے کہ آنحضرت ﷺ نے اس میں برکت کی دعا فرمائی۔ یہاں ان کے توشے جمع کرنا مذکورہے اور وہ نہد کے معنی میں ہے یعنی اپنے اپنے حصے برابر برابر لا کر جمع کر دینا۔ اور ا س میں آنحضرت ﷺ کا برکت کے لیے دعا فرمانا۔ لفظ نہد یا نہد آگے بڑھنا، ”نمودار ہونا، مقابل ہونا“ ظاہر ہونا، بڑا کرنے کے معنی میں ہے۔ اسی سے لفظ تناہد ہے۔ جس کے معنی سفر کے سب رفیقوں کا ایک معین روپیہ یا راشن توشہ جمع کرنا کہ اس سے سفر کی خوردنی ضروریات کو مساوی طور پر پورا کیا جاے یہاں ایسا ہی واقعہ مذکور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2484
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2484
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے بچے ہوئے سفر خرچ کو ایک جگہ جمع کرنے کا حکم دیا، پھر آپ نے اس میں برکت کی دعا فرمائی، تو لوگوں نے زیادہ اور کم کے فرق کے بغیر اپنی اپنی ضرورت کے مطابق لے لیا، حالانکہ جمع شدہ خوراک میں کمی بیشی تھی، پھر انہوں نے یوں ہی اندازے سے اپنا اپنا سفر خرچ لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے ماپ تول کر تقسیم نہیں کیا۔ امام بخاری ؒ کا عنوان بھی یہی ہے۔ (2) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے اہم ترین معجزے کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی ایک عظیم نشانی رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر ظاہر فرمائی۔ سفر خرچ پہلے اس قدر کم تھا کہ لوگ اپنی سواریاں ذبح کرنے پر آمادہ ہو گئے، پھر رسول اللہ ﷺ کے دعا کرنے سے اس میں اتنی برکت ہوئی کہ لوگوں نے اپنی اپنی ضرورت کے مطابق لے لیا۔ اسی برکت کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے اظہار فرمایا: ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ “ آپ کے اس برمحل اظہار سے لوگوں کے عقیدے میں پختگی اور آپ کے متعلق حسن ظن کو تقویت ملی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2484
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2982
2982. حضرت سلمہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ دوران سفر میں صحابہ کرام ؓ کا سفری کھانا کم ہو گیا جس سے وہ قلاش ہو گئے۔ انھوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اونٹ ذبح کرنے کی اجازت طلب کی، آپ نے انھیں اجازت دے دی۔ اتنے میں حضرت عمر ؓ سے ان کی ملاقات ہو گئی تو انھوں نے اس اجازت کی اطلاع انھیں دی۔ انھوں نے فرمایا: ان اونٹوں کے بعد پھر تمھارے پاس کیا باقی رہ جائے گا؟ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! لوگ اگر اپنے اونٹ ذبح کر دیں تو پھر ان کے پاس باقی کیا رہ جائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ اپنا بچا ہوا زاد سفر میرے پاس لائیں۔“ چنانچہ آپ نے اس پر برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے سب لوگوں کو ان کے برتنوں سمیت بلایا۔ سب نے بھر بھر کر کھانا لیا۔ جب فارغ ہو گئے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2982]
حدیث حاشیہ: یہ معجزہ دیکھ کر خود آپﷺ نے اپنی رسالت پر گواہی دی‘ معجزہ اللہ پاک کی طرف سے ہوتا ہے جسے وہ اپنے رسولوں کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے ان کے ہاتھوں سے دکھلایا کرتا ہے۔ حضرت عمر ؓنے یہ اس لئے فرمایا کہ اونٹ تمام ذبح کر دئیے جاتے تو پھر فوجی مسلمان سواری کس پر کرتے اور سارا سفر پیدل کرنا بے حد مشکل تھا۔ یہ مشورہ صحیح تھا اس لئے آنحضرتﷺ نے اسے قبول فرمایا اور بعد میں سارے فوجیوں کے راشن کو جو باقی رہ گیا تھا آپﷺ نے اکٹھا کرا کر برکت کی دعا فرمائی اور اللہ نے اس میں اتنی برکت دی کہ سارے فوجیوں کو کافی ہوگیا۔ معجزے کا وجود برحق ہے۔ مگر یہ اللہ کی مرضی پر ہے وہ جب چاہے اپنے مقبول بندوں کے ہاتھوں یہ دکھلائے۔ خود رسولوں کو اپنے طور پر اس میں کوئی اختیار نہیں ہے۔ ﴿ذالكَ فضلُ اللہِ یؤتیهِ مَن یشاءُ﴾ اس حدیث کے تحت حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: وَفِي الْحَدِيثِ حُسْنُ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِجَابَتُهُ إِلَى مَا يَلْتَمِسُ مِنْهُ أَصْحَابُهُ وَإِجْرَاؤُهُمْ عَلَى الْعَادَةِ الْبَشَرِيَّةِ فِي الِاحْتِيَاجِ إِلَى الزَّادِ فِي السَّفَرِ وَمَنْقَبَةٌ ظَاهِرَةٌ لِعُمَرَ دَالَّةٌ عَلَى قُوَّةِ يَقِينِهِ بِإِجَابَةِ دُعَاءِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى حُسْنِ نَظَرِهِ لِلْمُسْلِمِينَ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ فِي إِجَابَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ عَلَى نَحْرِ إِبِلِهِمْ مَا يَتَحَتَّمُ أَنَّهُمْ يَبْقَوْنَ بِلَا ظَهْرٍ لِاحْتِمَالِ أَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ لَهُمْ مَا يَحْمِلُهُمْ مِنْ غَنِيمَةٍ وَنَحْوِهَا لَكِنْ أَجَابَ عُمَرُ إِلَى مَا أَشَارَ بِهِ لِتَعْجِيلِ الْمُعْجِزَةِ بِالْبَرَكَةِ الَّتِي حَصَلَتْ فِي الطَّعَامِ وَقَدْ وَقَعَ لِعُمَرَ شَبِيهٌ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ فِي المَاء وَذَلِكَ فِيمَا أخرجه بن خُزَيْمَةَ وَغَيْرُهُ وَسَتَأْتِي الْإِشَارَةُ إِلَيْهِ فِي عَلَامَاتِ النُّبُوَّةِ الخ (فتح الباري) یعنی اس حدیث سے آنحضرتﷺ کے اخلاق فاضلہ پر روشنی پڑتی ہے اور اس پر بھی کہ آپﷺ صحابہ کرامؓ کے کسی بھی بارے میں التماس کرنے پر فوراً توجہ فرماتے اور سفر میں توشہ راشن وغیرہ حاجات انسانی کا ان کے لئے پورا پورا خیال رکھتے تھے۔ اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ ان کو آنحضرتﷺ کی دعاؤں کی قبولیت پر کس قدر یقین کامل تھا اور مسلمانوں کے متعلق ان کی کتنی اچھی نظر تھی۔ وہ جانتے تھے کہ آنحضرتﷺ نے ان کے لئے جو اونٹوں کو ذبح کرنے کا مشورہ دیا ہے یہ اس احتمال پر ہے کہ ان کو ذبح کرنے کے بعد بھی اللہ پاک ان کے لئے غنیمت وغیرہ سے سواریوں کا انتظام کرا ہی دے گا۔ لیکن حضرت عمر ؓ نے آنحضرتﷺ کی برکت کی دعاؤں کے لئے عجلت فرمائی تاکہ بطور معجزہ کھانے میں برکت حاصل ہو اور اونٹوں کو ذبح کرنے کی نوبت ہی نہ آنے پائے۔ ایک دفعہ پانی کے قصہ میں بھی حضرت عمر ؓ کو اسی کے مشابہ معاملہ پیش آیا تھا۔ جس کا اشارہ علامات النبوۃ میں آئے گا۔ بعض فقہاء نے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ گرانی کے وقت امام لوگوں کے فالتو غلہ کے ذخیروں کو بازار میں فروخت کے لئے حکماً نکلوا سکتا ہے۔ اس لئے کہ لوگوں کے لئے اسی میں خیر ہے نہ کہ غلہ کے پوشیدہ رکھنے میں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2982
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2982
2982. حضرت سلمہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ دوران سفر میں صحابہ کرام ؓ کا سفری کھانا کم ہو گیا جس سے وہ قلاش ہو گئے۔ انھوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اونٹ ذبح کرنے کی اجازت طلب کی، آپ نے انھیں اجازت دے دی۔ اتنے میں حضرت عمر ؓ سے ان کی ملاقات ہو گئی تو انھوں نے اس اجازت کی اطلاع انھیں دی۔ انھوں نے فرمایا: ان اونٹوں کے بعد پھر تمھارے پاس کیا باقی رہ جائے گا؟ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! لوگ اگر اپنے اونٹ ذبح کر دیں تو پھر ان کے پاس باقی کیا رہ جائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ اپنا بچا ہوا زاد سفر میرے پاس لائیں۔“ چنانچہ آپ نے اس پر برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے سب لوگوں کو ان کے برتنوں سمیت بلایا۔ سب نے بھر بھر کر کھانا لیا۔ جب فارغ ہو گئے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2982]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عمر ؓ بہت صائب الرائے تھے جب انھوں نے یہ مشورہ دیا کہ جب اونٹ ذبح کر دیے جائیں گے تو مجاہدین کس پر سواری کریں گے اور سارا سفر پیدل طے کرنا بے حد مشکل ہے۔ چونکہ یہ مشورہ صحیح تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے قبول فرمایا: اور باقی ماندہ راشن جمع کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے برکت کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی برکت دی کہ تمام مجاہدین کو کافی ہو گیا۔ 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ دوران سفر میں اپنے صحابہ کرام ؓ کی ضروریات کا بہت خیال رکھتے تھے۔ 3۔ امام بخاری ؓ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ دوران سفر میں زاداہ ہمراہ رکھنا چاہیے۔ ایسا کرنا تو کل کے خلاف نہیں۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2982