ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات میں سے کسی ایک کے یہاں تشریف رکھتے تھے۔ امہات المؤمنین میں سے ایک نے وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خادم کے ہاتھ ایک پیالے میں کچھ کھانے کی چیز بھجوائی۔ انہوں نے ایک ہاتھ اس پیالے پر مارا، اور پیالہ (گر کر) ٹوٹ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالے کو جوڑا اور جو کھانے کی چیز تھی اس میں دوبارہ رکھ کر صحابہ سے فرمایا کہ کھاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ لانے والے (خادم) کو روک لیا اور پیالہ بھی نہیں بھیجا۔ بلکہ جب (کھانے سے) سب فارغ ہو گئے تو دوسرا اچھا پیالہ بھجوا دیا اور جو ٹوٹ گیا تھا اسے نہیں بھجوایا۔ ابن ابی مریم نے بیان کیا کہ ہمیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی، ان سے حمید نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَظَالِمِ/حدیث: 2481]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2481
حدیث حاشیہ: ابوداؤد اور نسائی کی روایت میں حضرت صفیہ ؓ کا ذکر ہے۔ اور دار قطنی اور ابن ماجہ کی روایت میں حفصہ ؓ کا ذکر ہے۔ اور طبرانی کی روایت میں ام سلمہ ؓ کا اور ابن حزم کی روایت میں زینب ؓ کا۔ احتمال ہے کہ یہ واقعہ کئی بار ہوا ہو۔ حافظ ؒنے کہا کہ مجھ کو اس لونڈی کا نام معلوم نہیں ہوا۔ حدیث اور باب کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کا ایک پیالہ کوئی توڑ دے تو اس کو اس کی جگہ دوسرا صحیح پیالہ واپس کرنا چاہئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2481
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2481
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ ﷺ جب حضرت عائشہ ؓ کے گھر تشریف فرما ہوتے تو عام طور پر صحابۂ کرام تحائف وغیرہ ان دنوں بھیجتے تھے، اس لیے شارحین نے لکھا ہے کہ ہاتھ مار کر پیالہ توڑنے والی حضرت عائشہ ؓ تھیں۔ بعض روایات میں ہے، آپ نے فرمایا: ”تمہاری اماں جان کو غیرت آ گئی، اس لیے پیالہ توڑ دیا۔ “(صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5225) البتہ جن کا پیالہ توڑا گیا تھا ان کے متعلق مختلف روایات ہیں: سنن ابوداود اور سنن نسائی میں حضرت صفیہ ؓ کا ذکر ہے۔ (سنن أبي داود، البیوع، حدیث: 3568، و سنن النسائي، عشرة النساء، حدیث: 3409) سنن دارقطنی اور سنن ابن ماجہ میں حضرت حفصہ ؓ کا نام آتا ہے۔ (سنن ابن ماجة، الأحکام، حدیث: 2333، و سنن الدارقطني: 154/4) معجم طبرانی میں حضرت ام سلمہ ؓ اور محلی ابن حزم کی ایک روایت میں حضرت زینب ؓ کا تذکرہ ہے۔ (معجم الطبراني الصغیر: 161/1، والمعلی لابن حزم: 365/14)(2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے کئی ایک واقعات ہوئے ہیں۔ بہرحال جس نے پیالہ توڑا تھا اس کے گھر سے صحیح پیالہ لے کر واپس کیا گیا اور ٹوٹا ہوا پیالہ اسے دے دیا گیا۔ چونکہ دونوں پیالے رسول اللہ ﷺ کے تھے تو آپ نے گویا توڑنے والی کو سزا دی کہ ٹوٹا ہوا پیالہ اس کے گھر میں رہنے دیا اور صحیح سالم پیالہ دوسری بیوی کے پاس بھیج دیا۔ (فتح الباري: 155/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2481
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3407
´غیرت کا بیان۔` انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امہات المؤمنین میں سے ایک کے پاس تھے، آپ کی کسی دوسری بیوی نے ایک پیالہ کھانا بھیجا، پہلی بیوی نے (غصہ سے کھانا لانے والے) کے ہاتھ پر مارا اور پیالہ گر کر ٹوٹ گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن کے دونوں ٹکڑوں کو اٹھا کر ایک کو دوسرے سے جوڑا اور اس میں کھانا اکٹھا کرنے لگے اور فرماتے جاتے تھے: تمہاری ماں کو غیرت آ گئی ہے (کہ میرے گھر اس نے کھانا کیوں بھیجا)، تم لوگ کھانا کھاؤ۔ لوگوں نے کھایا، پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3407]
اردو حاشہ: (1) سوکنوں میں اس قسم کی غیرت قابل درگزر ہوتی ہے بلکہ یہ غیرت خاوند سے سچی محبت کا ثبوت ہوتی ہے‘ نیز اپنے حق کے حصول کے لیے غیرت جائز ہے۔ اپنی باری کے دن دوسری بیوی کی مداخلت برداشت نہ کرنا اپنے حق کی حفاظت ہے‘ لہٰذا مذکورہ واقعہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے ناراضی کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ غَارَتْ أُمُّکُمْ فرما کر عذر پیش فرمایا۔ البتہ نقصان پورا کرنا ہوگا۔ (2) ممکن ہے کہ آپ نے اپنی بیویوں کو ایک قسم کے پیالے لے کر دیے ہوں جیسا کہ مساوات کا تقاضا ہے‘ لہٰذا آپ نے پیالہ ٹوٹنے پر اس جیسا پیالہ واپس فرمایا۔ ویسے بھی دونوں پیالے آپ کی ملکیت تھے۔ اپنی ملکیت میں آدمی خود مختار ہوتا ہے۔ (3) آپ کی ہر زوجۂ مطہرہ کو احتراماً ام المومنین (مومنوں کی ماں) کہاجاتا ہے‘ خواہ وہ عمر میں چھوٹی ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3407
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3567
´جو شخص دوسرے کی چیز ضائع اور برباد کر دے تو ویسی ہی چیز تاوان میں دے۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی کے پاس تھے، امہات المؤمنین میں سے ایک نے اپنے خادم کے ہاتھ آپ کے پاس ایک پیالے میں کھانا رکھ کر بھیجا، تو اس بیوی نے (جس کے گھر میں آپ تھے) ہاتھ مار کر پیالہ توڑ دیا (وہ دو ٹکڑے ہو گیا)، ابن مثنیٰ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ٹکڑوں کو اٹھا لیا اور ایک کو دوسرے سے ملا کر پیالے کی شکل دے لی، اور اس میں کھانا اٹھا کر رکھنے لگے اور فرمانے لگے: ”تمہاری ماں کو غیرت آ گئی“ ابن مثنیٰ نے اضافہ کیا ہے (کہ آپ نے فرمایا: ”کھاؤ“۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3567]
فوائد ومسائل: 1۔ کسی دوسرے کوکوئی چیز ضائع کر دینے کی صورت میں اس کاعوض یا بدل دینا لازم ہے۔
2۔ کھانا گر جائے تو صاف ستھرا کھانا اٹھا کر کھا لینا چاہیے۔
3۔ کسی عزیز کی ساتھی یا تلخی وغیرہ کا سبب بیان کردیا جائے۔ یا عمدہ تاویل کردی جائے تو اس کی شدت میں کمی آجاتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3567
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2334
´اگر کسی نے کوئی چیز توڑ دی تو اس کے حکم کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن میں سے ایک کے پاس تھے، آپ کی کسی دوسری بیوی نے ایک کھانے کا پیالہ بھیجا، پہلی بیوی نے (غصہ سے کھانا لانے والے) کے ہاتھ پر مارا، اور پیالہ گر کر ٹوٹ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ٹکڑوں کو اٹھا کر ایک کو دوسرے سے جوڑا اور اس میں کھانا اکٹھا کرنے لگے اور فرماتے جاتے تھے: تمہاری ماں کو غیرت آ گئی ہے (کہ میرے گھر اس نے کھانا کیوں بھیجا)، تم کھانا کھاؤ، لوگوں نے کھایا، پھر جن کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اپنا پیالہ لائی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2334]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) ہمسایوں کا ایک دوسرے کے ہاں کھانا وغیرہ بھیجنا ایک اچھی عادت ہے خاص طور پر جب کوئی نئی اور عمدہ ڈش تیار کی جائے تو کچھ نہ کچھ ہمسایوں کے ہاں بھیج دینا چاہیے۔
(2) سو کنوں کی باہمی رقابت ایک فطری اور معروف چیز ہے لہٰذا خاوند کو چاہیے کہ اسے برداشت کرے کیونکہ اسے مکمل طور پر ختم کرنا ممکن نہیں۔
(3) اگر کوئی ایسی چیز کسی کے ہاتھ سے ضائع ہو جائے جس کا متبادل دستیاب ہوتو ضائع ہونیوالی چیز کےبدلے میں ویسی ہی چیز مالک کو دی جائے۔
(4) بیویوں میں انصاف کا تعلق صرف جیب خرچ یا شب باشی کے معاملات سے نہیں بلکہ روز مرہ کے معاملات میں بھی سب کے ساتھ انصاف کا یکساں سلوک کرنا ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2334
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5225
5225. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ اپنی ایک بیوی کے ہاں تشریف رکھے ہوئے تھے، اس وقت دوسری بیوی نے آپ کے لیے ایک پیالے میں کھانے کی کوئی چیز بھیجی۔ جس بیوی کے گھر میں آپ تشریف فرما تھے اس نے خادم کے ہاتھ کو مارا تو پیالہ گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ نبی ﷺ نے پیالے کے ٹکڑے جمع کیے، پھر جو کھانا اس پیالے میں تھا اسے بھی جمع کرنے لگے، پھر فرمایا: ”تمہاری ماں کو غیرت آ گئی ہے۔“ پھر خادم کو روک رکھا حتیٰ کہ اس بیوی کے گھر سے پیالہ لایا گیا جس کے پاس آپ قیام پذیر تھے۔ اس کے بعد صحیح پیالہ اس بیوی کو بھیجا جس کا پیالہ توڑ دیا گیا تھا اور شکستہ (ٹوٹا ہوا) پیالہ اس بیوی کے گھر رہنے دیا جس نے اسے توڑا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5225]
حدیث حاشیہ: ہوا یہ تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس دن باری تھی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا تیار کر رہی تھیں کہ آپ کی دوسری بیوی نے یہ کھانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھیج دیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ ناگوار ہوا اور غصے میں ایک ہاتھ خدمتگار کے ہاتھ پر جو کھانا لایا تھا مار دیا۔ وہ کھانا اس کے ہاتھ سے گر پڑا اور برتن بھی ٹوٹ گیا۔ وہ غیرت میں یہ کام کر بیٹھی، غیرت اور رشک عورتوں کا خاصہ ہے شاذ و نادر کوئی عورت اس سے پاک ہوتی ہے۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤاخذہ نہیں فرمایا۔ ایک حدیث میں ہے جو کوئی عورت کی غیرت پر صبر کرے اس کو شہید کا ثواب ملتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5225
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5225
5225. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ اپنی ایک بیوی کے ہاں تشریف رکھے ہوئے تھے، اس وقت دوسری بیوی نے آپ کے لیے ایک پیالے میں کھانے کی کوئی چیز بھیجی۔ جس بیوی کے گھر میں آپ تشریف فرما تھے اس نے خادم کے ہاتھ کو مارا تو پیالہ گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ نبی ﷺ نے پیالے کے ٹکڑے جمع کیے، پھر جو کھانا اس پیالے میں تھا اسے بھی جمع کرنے لگے، پھر فرمایا: ”تمہاری ماں کو غیرت آ گئی ہے۔“ پھر خادم کو روک رکھا حتیٰ کہ اس بیوی کے گھر سے پیالہ لایا گیا جس کے پاس آپ قیام پذیر تھے۔ اس کے بعد صحیح پیالہ اس بیوی کو بھیجا جس کا پیالہ توڑ دیا گیا تھا اور شکستہ (ٹوٹا ہوا) پیالہ اس بیوی کے گھر رہنے دیا جس نے اسے توڑا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5225]
حدیث حاشیہ: عورت کی فطرت میں ہے کہ وہ سوکن پر غیرت کرتی ہے اور یہ شروع سے ہوتا آ رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے پیالہ تو واپس کر دیا لیکن غیرت والی بیوی سے اورکوئی مؤاخذہ نہیں کیا کیونکہ عورت جب غیرت میں آتی ہے تو شدت غضب کی وجہ سے اس کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ بہرحال غیرت اور رشک عورتوں کا خاصہ ہے، شاذ و نادر ہی کوئی عورت اس سے پاک ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 403/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5225