عفان نے کہا کہ ہم سے صخر بن جویریہ نے نافع کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ (خواب میں) مسواک کر رہا ہوں تو میرے پاس دو آدمی آئے۔ ایک ان میں سے دوسرے سے بڑا تھا، تو میں نے چھوٹے کو مسواک دے دی پھر مجھ سے کہا گیا کہ بڑے کو دو۔ تب میں نے ان میں سے بڑے کو دی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ اس حدیث کو نعیم نے ابن المبارک سے، وہ اسامہ سے، وہ نافع سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مختصر طور پر روایت کیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/حدیث: 246]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 246
� تشریح: معلوم ہوا کہ ایسے مواقع پر بڑے آدمی کا احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسرے آدمی کی مسواک بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 246
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:246
حدیث حاشیہ: 1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے شرح تراجم ابواب بخاری میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی معمولی چیز آتی تو چھوٹوں کو عنایت فرماتے، چنانچہ جب آپ کے پاس کوئی نیا پھل آتا تو آپ وہ پھل پہلے بچوں میں تقسیم کرتے اور جب کوئی بڑی چیز آتی توبڑوں کو عنائیت فرماتے۔ اس بنا پر آپ نے مسواک کو چھوٹا خیال کیا اور چھوٹے کو دینی چاہی تو آپ کو بذریعہ وحی ہدایت کی گئی کہ بڑے کو دیجيے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک بھی مسواک کی بہت فضیلت اور بڑائی ہے۔ 2۔ ابن بطال نے لکھا ہے کہ حاضرین میں سے اکابر کا حق اصاغر پر مقدم ہے اور کھانے، پینے، گفتگو وغیرہ میں بڑوں کو پہلے موقع دینا چاہیے، کیونکہ مسواک سے متعلق آپ کو حکم ہوا کہ بڑے کو دیجیے۔ ایک موقع پر آپ نے حویصہ اور محیصہ کو کہا تھا کہ بڑے کو گفتگو کا پہلے موقع دیا جائے اور یہ اسلامی آداب سے ہے، مہلب نے فرمایا کہ بڑی عمروالے کو ہر چیز میں مقدم کرنا چاہیے۔ اور یہ اس صورت میں ہے جب لوگ ترتیب سے نہ بیٹھے ہوں، جب ترتیب سے بیٹھے ہوں تو سنت کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے دائیں جانب سے آغاز کیا جائے۔ (شرح ابن بطال: 364/1) 3۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسواک کر رہے تھے کہ آپ کے پاس دوشخص آئے جن میں سے ایک دوسرے سے بڑا تھا، اس وقت آپ کو بذریعہ وحی بتایا گیا کہ ان میں سے بڑے کو مسواک دیجيے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 50) حدیث الباب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ خواب کا ہے۔ اسے تعدد واقعات پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے کہ پہلے تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو خواب میں دیکھا، پھر وہی واقعہ عالم بیداری میں پیش آیا جیسا کہ متعدد واقعات کے متعلق احادیث میں آیا ہے کہ پہلے انھیں خواب میں دیکھتے، پھر بیداری میں ان سے واسطہ پڑتا۔ (فتح الباري: 464/1) 4۔ اس سے معلوم ہوا کہ دوسرے کی مسواک استعمال کرنا مکروہ نہیں، لیکن سنت یہ ہے کہ اسے دھوکر استعمال کیا جائے۔ حدیث میں حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ مجھے مسواک دیتے تاکہ میں اسے دھو دوں۔ میں اسے پہلے خود استعمال کرتی، پھر دھو کر رسول اللہ ﷺ کے حوالے کردیتی۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 52 وعمدة القاري: 694/1) اس موقع پر ارباب ”تدبر“نے بھی گوہرافشانی کی ہے، ملاحظہ فرمائیں: ”یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اس خواب کو یہاں بیان کرنے کا موقع کیا ہے؟ اس سے یہ نتیجہ تو نہیں نکالا جاسکتا کہ آپ مسواک کررہے ہوں اور اگر کوئی دوآدمی کہیں کہ یہ ہمیں دے دوتو بڑے کو دیں اور چھوٹے کو نہ دیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ میری مسواک ہے، آپ اپنی مسواک حاصل کریں۔ “(تدبرحدیث: 336/1) در اصل منطقی اور فلسفی حضرات کی طرح ان ”صاحبان تدبر“ کی عقل پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ حدیث فہمی سے اللہ تعالیٰ نے انھیں محروم رکھا ہے۔ ﴿ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 246