ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے باپ نے، اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے(قرآن مجید کی آیت) «وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا أو إعراضا»”اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی طرف سے نفرت یا اس کے منہ پھیرنے کا خوف رکھتی ہو“ کے بارے میں فرمایا کہ کسی شخص کی بیوی ہے لیکن شوہر اس کے پاس زیادہ آتا جاتا نہیں بلکہ اسے جدا کرنا چاہتا ہے اس پر اس کی بیوی کہتی ہے کہ میں اپنا حق تمہیں معاف کرتی ہوں۔ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَظَالِمِ/حدیث: 2450]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2450
حدیث حاشیہ: یعنی اگر شوہر میرے پاس نہیں آتا تو نہ آ، لیکن مجھ کو طلاق نہ دے، اپنی زوجیت میں رہنے دے تو یہ درست ہے۔ خاوند پر سے اس کی صحبت کے حقوق ساقط ہو جاتے ہیں۔ حضرت علی ؓ نے کہا یہ آیت اس باب میں ہے کہ عورت اپنے مرد سے جدا ہونا برا سمجھے۔ اور خاوند بیوی دونوں یہ ٹھہرا لیں کہ تیسرے یا چوتھے دن مرد اپنی عورت کے پاس آیا کرے تو یہ درست ہے۔ حضرت سودہ ؓ نے اپنی باری آنحضرت ﷺ کو معاف کر دی تھی، آپ ان کی باری میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس رہا کرتے تھے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2450
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2450
حدیث حاشیہ: عنوان کا مقصد یہ ہے کہ مظلوم جب ظالم کی زیادتی معاف کر دے تو پھر وہ دوبارہ بدلے کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ آیت کریمہ میں متوقع زیادتی کی معافی کا ذکر ہے اس لیے اگر متوقع زیادتی معاف کی جا سکتی ہے تو جو زیادتی اور ظلم ہو چکا ہو اسے معاف کرنا بالاولیٰ جائز ہو گا۔ حضرت سودہ ؓ جب بوڑھی ہو گئیں تو رسول اللہ ﷺ نے طلاق دینے کا ارادہ فرمایا تو انہوں نے اپنا حق چھوڑنے پر صلح کر لی کہ میں اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو ہبہ کرتی ہوں، رسول اللہ ﷺ نے اسے قبول فرما لیا اور انہیں طلاق نہ دی۔ بہرحال اپنا ظلم معاف کرنے کے بعد دوبارہ بدلے کا مطالبہ کرنا جائز نہیں، آیت کریمہ میں اس کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ (فتح الباري: 127/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2450