ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے برید بن عبداللہ نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوبردہ نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، امانت دار خزانچی جو خرچ کرتا ہے۔ بعض دفعہ یہ فرمایا کہ جو دیتا ہے حکم کے مطابق کامل اور پوری طرح جس چیز (کے دینے) کا اسے حکم ہو اور اسے دیتے وقت اس کا دل بھی خوش ہو، تو وہ بھی صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَكَالَةِ/حدیث: 2319]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2319
حدیث حاشیہ: یعنی اس کو مالک کے برابر ثواب ملے گا کہ اس نے بخوشی مالک کا حکم بجایا اور صدقہ کردیا۔ اور مالک کی طرف سے مالک کے حکم کے مطابق وہ مال خرچ کرنے میں وکیل ہوا۔ یہی منشائے باب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2319
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2319
حدیث حاشیہ: اس سے معلوم ہوا کہ خازن جو خزانے پر مقرر ہے،جب خوش دلی اور دیانت داری کے ساتھ ادائیگی کرتا ہے تو اسے بھی صدقہ کرنے والوں میں شمار کیا جائے گا، یعنی اس کو مالک کے برابر ثواب ملے گا کہ اس نے مالک کے حکم کو بخوشی قبول کیا اور اسے بجالایا۔ مالک کی طرف سے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے مال خرچ کرنے میں وہ کیل ہے، امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کا بھی یہی مقصد ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2319
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2260
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب تین اجزاء پر قائم ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کسی نیک مرد کو مزدوری پر لگانے کے مسئلے پر قائم فرمایا ہے اور جو آیت مبارکہ پیش فرمائی ہے اس سے باب کی مناسبت ظاہر ہے، مگر حدیث جو پیش کی ہے اس میں ”اجارہ“ کا کوئی لفظ موجود نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «قال الاسماعیل: لیس فى الحدیثین جمیعا معنى الاجارۃ، وقال الداؤدی: لیس حدیث الخازن الأمین من ہذا الباب لأنہ لا ذکر للاجارۃ فیہ۔»
علامہ اسماعیلی اور داؤدی رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس باب اجارۃ میں یہ حدیث کیوں لائے؟ جب کہ حدیث مذکورہ میں اجارہ کا کوئی بھی ذکر نہیں ہے۔ یاد رہے کہ ترجمۃ الباب تین اجزاء پر قائم ہے:
① نیک مرد کو مزدوری پر لگانا۔
② الخازن الامین یعنی خزانچی جو امین ہو۔
③ اس کو استعمال نہ کیا جائے جو خود ارادہ رکھتا ہو۔
پہلے جزء کے لیے قرآن مجید کی آیت پیش فرمائی جس سے مناسبت واضح ہے۔
دوسرے جزء کے لیے سیدنا ابوموسی الاشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش فرمائی، جس کے بارے میں امام اسماعیلی اور داؤدی نے اعتراض کیا ہے، ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کے لیے، اور ان دونوں بزرگوں کے اعتراض کو دور کرنے کے لیے علامہ ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «إنما أراد البخاری أن الخازن لا شیئ لہ فى المال وإنما ہو أجیر»[فتح الباری، ج 5، ص: 379] ”یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد وہ خازن ہے کہ جمع شدہ مال میں اس کی اپنی کوئی چیز نہ ہو اور ظاہر ہے کہ وہ اجیر ہی ہوا کرتا ہے۔“
علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: «ودخول ہذا الحدیث فى باب الإجارۃ للاشارۃ إلى أن خازن مال الغیر کالأجیر لصاحب المال۔»[الکواکب الدرادی، ج 10، ص: 97] ”امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب میں اس حدیث کا داخل کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خازن وہ ہوتا ہے جو غیر کے مال پر رکھا جاتا ہے، جیسے کہ مزدور صاحب مال کے لیے۔“
بعین قریب قریب یہی مناسبت ابن بطال رحمہ اللہ نے بھی دی ہے، آپ رقمطراز ہیں: «إنما أدخلہ فى ہذا الباب، لأن من المستوجر على شیئ فہو أمین فیہ، ولیس علیہ شیئ من ضمان أن فسد أو تلف، إلا إن کان بتضییعہ۔»[شرح ابن بطل، ج 6، ص: 385]
ان اقتباسات سے واضح طور پر ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب کا تیسرا جزء جسے علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ نے ”لب اللباب“ میں ذکر فرمایا کہ: ”تیسرے جزء کی مناسبت ترجمۃ الباب سے ان الفاظوں کے ساتھ ہے: «ومن لم یستعمل من أرادہ»“[لب اللباب، ج 2، ص187]
ضروری وضاحت:
امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث کے ذریعے یہ سمجھانے کی کو شش فرما رہے ہیں کہ آدمی اپنے آپ کو اجیر بننے کے لیے پیش کرے اور دوسرا شخص اس کو اجیر رکھنے سے انکار کرے تو اس کی اصل بھی سنت میں موجود ہے۔
لیکن یہ قانون نہیں ہے، بسا اوقات اگر کوئی شخص خود درخواست کرے تو اس کی درخواست قبول بھی کی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: « ﴿اجْعَلْنِی عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ﴾ »[یوسف: 55]”آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجئے، میں حفاظت کرنے والا اور باخبر ہوں۔“
صاحب الابواب والتراجم لکھتے ہیں کہ: «وقد سأل بعض أصحاب النبى صلى اللہ علیہ وسلم الامامۃ فقال: اجعلنی امام قومی، فقال أنت امامہم واقتد بأضعفہم»[سنن أبى داؤد، رقم الحدیث: 531] ”یقیناً بعض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ ہمیں اپنی قوم کا امام مقرر کر دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”آپ ان کے امام ہیں اور ان کے ضعیف ترین کی اقتدا (رعایت) کرنا۔“[الأبواب والتراجم، ج 3، ص: 665] واللہ اعلم
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1684
´خازن (خزانچی) کے ثواب کا بیان۔` ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امانت دار خازن جو حکم کے مطابق پورا پورا خوشی خوشی اس شخص کو دیتا ہے جس کے لیے حکم دیا گیا ہے تو وہ بھی صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1684]
1684. اردو حاشیہ: ایسے خازن کےلئے مسلمان ہونے کے علاوہ چار شرطیں زکر کی گئی ہیں۔مالک کی اجازت خوشی سے دینا۔پورا پورا دینا اسے دینا جس کے بارے میں حکمدیا گیا۔نیز یہ بھی معلوم ہواکہ صدقہ کرنے والے کو اصل مالک کی ہدایات پر پورا پورا عمل کرنا چاہیے۔بغیر معقول عذر کے ان میں تبدیلی نہیں کرنی چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1684
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:787
787- سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”وہ امانت دار خزانچی جو اجر کی امید رکھتے ہوئے وہ چیز (اللہ کی راہ میں کسی کو) دیتا ہے۔ جس کا اسے حکم دیا گیا ہے، تو وہ بھی صد قہ کرنے والوں میں سے ایک شمار ہوگا۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:787]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ امانت دارخزانچی بڑی فضیلت کا مالک ہے۔ خزانچی سے مراد وہ فرد ہے جو کسی بھی ادائیگی پر مامور ہے اور وہ ادائیگی امانت داری کے ساتھ مقدار اور معیار سو فیصد ٹھیک ادا کرتا ہے تو وہ بھی صدقہ کرنے والے کی طرح ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ ادائیگی کرتے وقت فراخ دل ہوتا ہے نہ کہ تنگ دل اور نا خوش۔ کتنا خوش قسمت ہے وہ خزانچی جوامانت دار ہے۔ ڈبل فائدہ لے رہا ہے نیکی بھی اور اپنی تنخواہ بھی۔ کل قیامت کو جنت بھی ملے گی۔ ان شاء اللہ۔ جو امانت دار نہ ہو وہ دنیا میں بھی ذلیل اور آخرت میں جہنم۔ اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ فرمائے۔ آمین
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 787
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:790
790- سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”ایک مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی حیثیت رکھتا ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:790]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مومن آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خیر خواہی کرتے ہیں۔ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر واضح امت مسلمہ کو اتفاق و اتحاد میں رہنے کی تلقین فرمائی۔ اللہ اکبر سازشیں کی جاتی ہیں۔ لوگوں کو ان کے خلاف کرنے کے لیے جھوٹ اور چاپلوی جیسے کبیرہ گناہ کاسہارا لیا جاتا ہے۔ اس لیے اتفاق و اتحاد کے لیے شرط ہے کہ وہ مومن ہوں۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جو اپنے مسلمان بھائیوں کی تائید کرنے کی بجائے ان کے خلاف سازشیں اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں وہ مومن نہیں ہیں۔ مومن اتفاق و اتحاد کی دعوت دینے والے ہوتے ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 791
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2363
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان امانت دار خازن جو نافذ کرتا ہے یا جو دینے کا حکم دیا گیا ہے اسے کامل پورا پورا خوش دلی سے دیتا ہے اور اس کے حوالہ کرتا ہے جس کے بارے میں اسے حکم دیا گیا ہے تو وہ دو صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:2363]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: خازن جو پوری دیانت و امانت سے مال کی حفاظت کرتا ہے اور مالک کے حکم کے مطابق خوش دلی سے اس کے کہنے کے مطابق لوگوں کو پورا پورا مال دیتا ہے وہ بھی اجرو ثواب کا حقدار ہے اور صدقہ کرنے والا شمار ہو گا۔ اور دونوں کو مستقل اجر ملے گا وہ ایک دوسرے کے اجر ملےگا۔ وہ ایک دوسرے کے کمی کا باعث نہیں ہوں گے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2363
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1438
1438. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”وہ مسلمان خزانچی جو امانت دار ہو خوشی سے بلا کم وکاست اپنے آقا کاحکم نافذ کردے اورجس چیز کا آدمی کو دینے کا حکم دیا گیا ہے اس کے حوالے کردے تو وہ بھی خیرات کرنے والوں میں سے ایک ہوگا۔ کبھی آپ ينفذ کی بجائے يعطي کا لفظ فرماتے، یعنی چیز دے دے(جس آدمی کو دینے کا حکم دیا گیا ہےاسے)۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1438]
حدیث حاشیہ: (1) صاحب مال اور اس کے حکم کی بجا آوری کرنے والا دونوں ثواب میں شریک ہوں گے، فرق یہ ہو گا کہ خادم کو اضافی ثواب نہیں ملے گا جبکہ مالک کو دس گناہ اضافی ثواب بھی دیا جائے گا۔ (2) اس حدیث میں نوکر یا خازن کو ثواب ملنے کی چند ایک شرائط بیان ہوئی ہیں: ٭ پہلی یہ کہ وہ مسلمان ہو کیونکہ کافر کی نیت کا اعتبار نہیں۔ ٭ دوسری یہ کہ وہ امانت دار ہو کیونکہ خیانت پیشہ ثواب سے محروم ہو گا۔ ٭ تیسری یہ کہ وہ حکم کی بجا آوری کرنے والا ہو اس میں کمی بیشی کا مرتکب نہ ہو۔ ٭ چوتھی یہ کہ وہ خوشی سے صدقہ کرے، کیونکہ دل کی گھٹن سے ثواب ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ ٭ پانچویں یہ کہ وہ مالک کے حکم کے مطابق اسی کو صدقہ دے جسے دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ حصول ثواب کے لیے مذکورہ شرائط کو ملحوظ رکھنا ہو گا۔ (فتح الباري: 382/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1438
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2260
2260. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”امانت دار خزانچی جو حکم کے مطابق دلی خوشی سے ٹھیک ٹھیک ادائیگی کرتا ہے وہ صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2260]
حدیث حاشیہ: کسی کے مال کا خزانچی، صاحب مال کا اجیر (مزدور) ہوتا ہے۔ اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اجارے کے باب میں ذکر کیا ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق "امین خازن" عام معنوں میں استعمال ہوا ہے، یعنی جو بھی کسی ادائیگی پر مامور ہے اور ادائیگی ٹھیک ٹھیک کرتا ہے، لوگوں کا جو حق بنتا ہے وہ پورا پورا ادا کرتا ہے۔ اگرچہ وہ سرکار کے خزانے سے دے رہا ہوتا ہے لیکن پھر بھی خرچ کرنے کے ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ ایسے آدمی کا امانت دار ہونا انتہائی ضروری ہے، بصورت دیگر بہت سے نقصانات کا اندیشہ ہے۔ "حضرت" امین احسن اصلاحی کی بھی سنتے جائیے، فرماتے ہیں: ”باب الاجارہ سے اس روایت کا تعلق نہایت بعید ہے۔ “(تدبرحدیث: 548/1) کاش! اصلاحی صاحب کسی ماہر فن،راسخ العلم محدث کے سامنے زانوئے تلمذتہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاص کے ساتھ ان سے حدیث پڑھتے تو ایسی ناپختہ باتیں لکھنے کی جرأت نہ کرتے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2260