ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے کہ میں نے سعید بن مسیب سے سنا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ یہودیوں کو تباہ کرے، ظالموں پر چربی حرام کر دی گئی تھی، لیکن انہوں نے اسے بیچ کر اس کی قیمت کھائی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2224]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2224
حدیث حاشیہ: انہوں نے حیلہ کرکے اسے اپنے لیے حلال بنا لیا، اس حرکت کی وجہ سے ان پر بددعا کی گئی۔ معلوم ہوا کہ حیلہ بہانہ کرکے کسی شرعی حکم میں رد وبدل کرنا انتہائی جرم ہے اور کسی حلال کو حرام کرا لینا اور حرام کو کسی حیلہ سے حلال کرانا یہ لعنت کا موجب ہے۔ مگر صد افسوس کہ فقہائے کرام نے مستقل کتاب الحیل لکھ ڈالی ہیں۔ جن میں کتنے ہی ناواجب حیلے بہانے تراشنے کی تدابیر بتلائی گئی ہیں، اللہ رحم کرے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2224
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2224
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہواکہ ایسی حیلہ سازی اور وسیلہ جوئی جو انسان کوکسی ممنوع کام تک پہنچا دے ناجائز اور حرام ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جس کی ذات حرام ہے اس کی قیمت کھانا بھی حرام ہے۔ آخر میں امام بخاری ؒ نے قاتل کے معنی لعن کیے ہیں اور یہ معنی انھوں نے قرآن سے اخذ کیے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ ﴿١٠﴾ حضرت ابن عباس ؓ نے اس کے معنی ”لعنت زدگی“ کیے ہیں اور خراصون کےمعنی كذابون ہیں۔ اسے امام مجاہد نے اختیار کیا ہے۔ (فتح الباري: 525/4) (2) واضح رہے کہ اس حدیث کے مطابق حرام چیزوں کی شکل تبدیل کرکے انھیں فروخت کرنا اور ان کی قیمت استعمال کرنا حرام ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2224
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4052
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ یہود کو غارت کرے، اللہ تعالیٰ نے ان پر چربی کو حرام قرار دیا، تو انہوں نے ان چربیوں کو بیچا اور ان کی قیمتیں کھائیں۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4052]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: یہود نے چربی کو استعمال کرنے کے لیے یہ حیلہ نکالا کہ اس کو پگھلایا تاکہ وہ شحم کی بجائے ودك (چکنائی) بن جائے، کیونکہ عربوں کے ہاں، پگھلانے سے پہلے اس کو شحم کہتے ہیں، اور پگھلانے کے بعد وَدَك کہتے ہیں، اس طرح اس حیلہ کے ذریعہ، اس کو استعمال کرنا شروع کر دیا، کہ بیچ کر اس کی رقم کھا لیتے، یا استعمال میں لے آتے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی حکم سے بچنے کے لیے حیلہ نکالنا جائز نہیں ہے، ہاں شرعی حکم کے نفاذ کے لیے یا اس کی مخالفت سے بچنے کے لیے حیلہ یعنی تدبیر کرنا جائز ہے، فریب کاری اور دھوکہ دہی جائز نہیں ہے۔ اس لیے دھوکہ دہی کے لیے، قرآن کی آیت، کہ ﴿خُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا﴾ ، تنکوں کا گٹھا لے کر ماریے یا ﴿جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ﴾ اپنے بھائی کے بورے میں پیالہ ڈال دیا، سے استدلال درست نہیں ہے، کیونکہ یہ کام اللہ تعالیٰ کے فرمان اور نص سے ہوئے ہیں، حضرت ایوب یا حضرت یوسف علیہما السلام نے اپنے طور پر نہیں اپنائے، اس طرح آپ نے ردی کھجوریں بیچ کر قیمتاً اچھی کھجوریں خریدنے کا حکم دیا، تو اس میں کوئی دھوکہ والی بات نہیں ہے، بلکہ شارع (قانون ساز) کا حکم ہے، یہود کی طرح اپنی طرف سے یہ کام نہیں کیا، شراب کو سرکہ بنانا اپنا فعل ہے جبکہ شارع نے شراب کو بیچنے سے منع فرمایا ہے، تو انسان نے اس حکم سے بیچنے کے لیے اس میں تبدیلی کر لی، جیسا کہ یہود نے شحم کو ودك بنا کر بیچنا شروع کر دیا، اس طرح یہود بھی ہفتہ کے دن مچھلیاں نہیں پکڑتے تھے، ہفتہ کا دن گزرنے کے بعد ہی پکڑتے تھے، ہفتہ کے دن تو صرف جال ہی لگاتے تھے، یا گڑھوں میں دھکیل دیتے تھے، (سوراخوں کے ذریعہ) اور یہ چیز ان کے لیے عذاب کا باعث بنی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4052
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4053
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ یہود کو تباہ و برباد کرے، ان پر چربی حرام کی گئی، تو انہوں نے اسے بیچ کر اس کی قیمت کھانی شروع کر دی۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4053]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: شرعی طور پر بعض چیزوں کا کھانا حرام ہے، اس لیے کھانے کے لیے ان کی خرید و فروخت بھی حرام ہے، لیکن اس کے دوسرے استعمال جائز ہیں، اس لیے دوسرے منافع کی خاطر ان کی بیع بھی جائز ہے جیسے گدھا، خچر اور شکاری پرندے، ان کی خرید و فروخت جائز ہے، اس طرح مردارے چمڑے کو رنگ کر بیچنا جائز ہے۔