ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا، کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے صہیب رضی اللہ عنہ سے کہا، اللہ سے ڈر اور اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا نہ بن۔ صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر مجھے اتنی اتنی دولت بھی مل جائے تو بھی میں یہ کہنا پسند نہیں کرتا۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ میں تو بچپن ہی میں چرا لیا گیا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2219]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2219
حدیث حاشیہ: ہوا یہ تھا کہ صہیب ؓ کی زبان رومی تھی مگر وہ اپنا باپ ایک عرب سنان بن مالک کو بتاتے تھے۔ اس پر عبدالرحمن ؓ نے ان سے کہا، خدا سے ڈر اور دوسروں کو اپنا باپ نہ بنا۔ صہیب ؓ نے جواب دیا کہ میری زبان رومی اس وجہ سے ہوئی کہ بچپنے میں رومی لوگ حملہ کرکے مجھ کو قید کرکے لے گئے تھے۔ میں نے ان ہی میں پرورش پائی، اس لیے میری زبان رومی ہو گئی۔ ورنہ میں در اصل عربی ہوں۔ میں جھوٹ بول کر کسی اور کا بیٹا نہیں بنتا۔ اگر مجھ کو ایسی ایسی دولت ملے۔ تب بھی میں یہ کام نہ کروں۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ کافروں کی ملک صحیح اور مسلم ہے کیوں کہ ابن جدعان نے صہیب ؓ کو خرید لیا اور آزاد کیا۔ حضرت صہیب ؓ کے مناقب بہت کچھ ہیں۔ جن پر مستقل بیان کسی جگہ ملے گا۔ یہ بہت ہی کھانا کھلانے والے تھے اور کہا کرتے تھے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث سنی ہے کہ تم میں بہتر وہ ہے جو حق داروں کو بکثرت کھانا کھلائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2219
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2219
حدیث حاشیہ: (1) یہ روایت انتہائی مجمل ہے۔ واقعہ اس طرح ہے کہ حضرت صہیب ؓ اصلاً عرب تھے۔ ان کے والد قبیلۂ نمر سے اور والدہ بنو تمیم سے تھیں۔ یہ دونوں قبیلے عرب ہیں۔ حضرت صہیب ؓ کو بچپن ہی میں کسی نے اغوا کرکے رومیو کے ہاتھ فروخت کردیا تھا، ان کی پرورش رومی علاقے میں ہوئی۔ اس بنا پر رومی لب ولہجے میں عربی بولتے تھے۔ اغوا کے وقت انھیں اتنا شعور تھا کہ وہ کن لوگوں میں پیدا ہوئے ہیں اور کن لوگوں میں انھوں نے پرورش پائی ہے۔ قبیلۂ قلب نے انھیں رومیوں سے خریدا،ان سے ابن جدعان نے خرید کر انھیں آزاد کردیاتھا۔ عرب میں واپس آنے کے بعد جب انھوں نے اپنے حسب ونسب کا اظہار کیا تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے ان کے بیان پر شبہ کا اظہار کیا۔ تب حضرت صہیب ؓ نے وضاحت فرمائی جو حدیث میں ہے۔ مستدرک حاکم میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے بھی حضرت صہیب ؓ سے اس قسم کی گفتگو کی تھی تو انھوں نے بتایا تھا کہ میں نمر بن قاسط سے ہوں، البتہ بچپن میں مجھے چرالیا گیا اور رومیوں کے ہاتھوں بیچ دیا گیا اور میری پرورش رومیوں میں ہوئی، اس لیے میں انھی کے لب ولہجے میں عربی بولتا ہوں۔ (المستدرك للحاکم: 398/3)(2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ کفارو مشرکین کی ملک صحیح ہے، اس کا اعتبار کیا جائے گا کیونکہ ابن جدعان نے انھیں خریدا پھر آزاد کیا۔ اس بنا پر کفار کی خریدوفروخت،عتق وہبہ وغیرہ کا اعتبار ہوگا۔ صرف ان کے کفر کی وجہ سے انکار نہیں کیا جائے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2219