لیث بن سعد نے ابوزناد عبداللہ بن ذکوان سے نقل کیا کہ عروہ بن زبیر، بنوحارثہ کے سہل بن ابی حثمہ انصاری رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے تھے اور وہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ پھلوں کی خرید و فروخت (درختوں پر پکنے سے پہلے) کرتے تھے۔ پھر جب پھل توڑنے کا وقت آتا، اور مالک (قیمت کا) تقاضا کرنے آتے تو خریدار یہ عذر کرنے لگتے کہ پہلے ہی اس کا گابھا خراب اور کالا ہو گیا، اس کو بیماری ہو گئی، یہ تو ٹھٹھر گیا پھل بہت ہی کم آئے۔ اسی طرح مختلف آفتوں کو بیان کر کے مالکوں سے جھگڑتے (تاکہ قیمت میں کمی کرا لیں) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح کے مقدمات بکثرت آنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اس طرح جھگڑے ختم نہیں ہو سکتے تو تم لوگ بھی میوہ کے پکنے سے پہلے ان کو نہ بیچا کرو۔ گویا مقدمات کی کثرت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بطور مشورہ فرمایا تھا۔ خارجہ بن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مجھے خبر دی کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنے باغ کے پھل اس وقت تک نہیں بیچتے جب تک ثریا نہ طلوع ہو جاتا اور زردی اور سرخی ظاہر نہ ہو جاتی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ اس کی روایت علی بن بحر نے بھی کی ہے کہ ہم سے حکام بن سلم نے بیان کیا، ان سے عنبسہ نے بیان کیا، ان سے زکریا نے، ان سے ابوالزناد نے، ان سے عروہ نے اور ان سے سہل بن سعد نے اور ان سے زید بن ثابت نے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2193]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2193
حدیث حاشیہ: قسطلانی ؒنے کہا کہ شاید آپ نے پہلے یہ حکم بطریق صلاح اور مشورہ دیا ہو جیسا کہ کالمشورة یشیر بها کے لفظ بتلا رہے ہیں۔ پھر اس کے بعد قطعاً منع فرما دیا۔ جیسے ابن عمر ؓ کی حدیث میں ہے اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ خود زید بن ثابت ؓ جو اس حدیث کے راوی ہیں اپنا میوہ پختگی سے پہلے نہیں بیچتے تھے۔ ثریا ایک تارہ ہے جو شروع گرمی میں صبح صادق کے وقت نکلتا ہے۔ حجاز کے ملک میں اس وقت سخت گرمی ہوتی ہے اور پھل میوے پک جاتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2193
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2193
حدیث حاشیہ: (1) پھلوں کی صلاحیت ظاہر ہونے اور ان کے قابل انتفاع ہونے سے پہلے خریدوفروخت کے متعلق کافی اختلاف ہے۔ اس قوتِ اختلاف کی بنا پر امام بخاری ؒ نے جزم ووثوق کے ساتھ کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ ابن ابی یعلی اور امام ثوری کے نزدیک ایسا کرنا مطلق طور پر ناجائز ہے جبکہ کچھ حضرات مطلقاً اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ احناف اسے جائز کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ پھلوں کے وجود سے پہلے خریدوفروخت کرنا ممنوع ہے۔ (2) صلاحیت ظاہر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ پھلوں کی ترشی اور سختی جاتی رہے اور ان میں مٹھاس اور نرمی آجائے، یعنی وہ قابل انتفاع ہوجائیں۔ ثریا ستارے کے طلوع کے وقت پھل انتفاع کے قابل ہوجاتے تھے، اس لیے حضرت زید بن ثابت ؓ طلوع ثریا کے بعد اپنے پھلوں کو فروخت کرتے تھے۔ کثرت نزاع کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تک پھل قابل انتفاع نہ ہو اسے فروخت نہ کیا جائے تاکہ جھگڑا وغیرہ نہ ہو۔ “ واضح رہے کہ دمان پھلوں کی بیماری ہے جس سے پھل سیاہ ہوجاتے تھے۔ ایک روایت میں مرض کی بجائے مراض ہے۔ مراض ایک آسمانی آفت ہے جس کے آنے سے پھل تباہ ہوجاتا تھا۔ قشام بھی ایک بیماری ہے جس سے پھل زرد ہونے سے پہلے ہی گر جاتا تھا۔ جب ایسی آفتوں اور بیماریوں سے پھل محفوظ ہوجائے تو پھر اس کی خریدوفروخت کی اجازت ہے۔ (فتح الباري: 499/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2193