ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ یحییٰ بن سعید نے بیان کیا کہ میں نے بشیر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت پر لگی ہوئی کھجور کو توڑی ہوئی کھجور کے بدلے بیچنے سے منع فرمایا، البتہ عریہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی کہ اندازہ کر کے یہ بیع کی جا سکتی ہے کہ عریہ والے اس کے بدل تازہ کھجور کھائیں۔ سفیان نے دوسری مرتبہ یہ روایت بیان کی، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ کی اجازت دے دی تھی۔ کہ اندازہ کر کے یہ بیع کی جا سکتی ہے، کھجور ہی کے بدلے میں۔ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے یحییٰ سے پوچھا، اس وقت میں ابھی کم عمر تھا کہ مکہ کے لوگ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ کی اجازت دی ہے تو انہوں نے پوچھا کہ اہل مکہ کو یہ کس طرح معلوم ہوا؟ میں نے کہا کہ وہ لوگ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ اس پر وہ خاموش ہو گئے۔ سفیان نے کہا کہ میری مراد اس سے یہ تھی کہ جابر رضی اللہ عنہ مدینہ والے ہیں۔ سفیان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی حدیث میں یہ ممانعت نہیں ہے کہ پھلوں کو بیچنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا جب تک ان کی پختگی نہ کھل جائے انہوں نے کہا کہ نہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2191]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2191
حدیث حاشیہ: تو حدیث آخر مدینہ والوں ہی پر آکر ٹھہری، حاصل یہ ہے کہ یحییٰ بن سعید اور مکہ والوں کی روایت میں کسی قدر اختلاف ہے۔ یحییٰ بن سعید نے عرایا کی رخصت میں انداز کرنے کی اور عرایا والوں کی تازہ کھجور کھانے کی قید لگائی ہے۔ اور مکہ والوں نے اپنی روایات میں یہ قید بیان نہیں کی۔ بلکہ مطلق عریہ کو جائز رکھا۔ خیر اندازہ کرنے کی قید تو ایک حافظ نے بیان کی ہے اس کا قبول کرنا واجب ہے لیکن کھانے کی قید محض واقعی ہے نہ کہ احترازی (قسطلانی) سفیان بن عیینہ سے ملنے والا کون تھا حافظ کہتے ہیں کہ مجھے اس کا نام معلوم نہیں ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2191
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2191
حدیث حاشیہ: اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ یحییٰ بن سعید اور اہل مکہ کی روایت میں تھوڑا سااختلاف ہے۔ یحییٰ بن سعید کی روایت میں بیع عرایا کے جواز کے لیے دو قیود ہیں: ٭ اندازے سے فروخت کرنا۔ ٭ تازہ کھجوریں کھانے کے لیے فروخت کرنا۔ جبکہ اہل مکہ اپنی روایت میں ان قیود کا حوالہ نہیں دیتے بلکہ وہ مطلق طور پر عرایا کے جواز کا رجحان رکھتے ہیں۔ اندازہ کرکے فروخت کرنے کی صراحت تو ایک ثقہ راوی نے کی ہے، اس لیے اس کا اعتبار کرنا ضروری ہے، البتہ تازہ کھجور کھانے کا ذکر محض اتفاقی ہے احترازی نہیں اگرچہ بعض حضرات اسے بطور شرط بیان کرتے ہیں جو صحیح نہیں۔ (فتح الباري: 492/4) والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2191
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:406
406- سیدنا سہل بن ابوحثمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے عوض پھل کی فروخت کرنے سے منع کیا ہے، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”عریہ“ کی رخصت دی ہے کہ اسے اندازے کے تحت فروخت کیا جاسکتا ہے، تاکہ اس کے مالک (یا گھر والے) تازہ کھجوریں کھا سکیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:406]
فائدہ: یہاں عریہ کی صورت یہ ہے کہ باغ والے نے کسی فقیر کو ایک درخت کے پھل خیرات دیے۔ یہ فقیر اتنے روز تک صبر نہیں کر سکتا کہ موسم بھر توڑتا رہے کھا تا رہے، دوسرے فقیر کے پاس خشک چوہارے تھے اسے اور اس کے بچوں کو تر کھجور میں کھانے کا شوق تھا، چھوہارے والا فقیر چھو ہارے کے عوض یہ کھجور میں خرید لے، اب درخت والے کو اکٹھے چھوہارے مل گئے اور چھوہارے والے کو تر کھجور میں۔ اگر چہ یہ بیع مزابنہ ہوئی مگر فقراء کی حاجت روائی کے لیے جائز رکھی گئی۔ مرقاۃ میں ہے کہ جب بیع مزابنہ سے منع کیا گیا تو فقراء صحابہ بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم لوگ تر کھجوروں سے محروم ہو جائیں گے تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عریہ کی اجازت دی۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ (جس کی تعریف اوپر بیان ہوئی) میں اس بات کی رخصت دی کہ ایک گھر کے لوگ اندازے سے خشک کھجور دیں اور اس کے بدلے درخت پر موجود تر کھجور کھانے کو خرید لیں۔ عرایا کی بیع کتنی مقدار تک جائز ہے۔ [صـحـيـح مـسـلـم: 919] سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے عرایا میں اندازے سے بیع کی اجازت دی بشرطیکہ پانچ وسق سے کم ہو یا پانچ وسق تک (راوی حدیث داؤد کو شک ہے کہ کیا کہا: پانچ وسق یا پانچ وسق سے کم)۔ [صحيح مسلم: 920]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 406