عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، کہ مجھ سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عرایا کی اجازت دے دی تھی جو اندازے ہی سے بیع کی ایک صورت ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2173]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2173
حدیث حاشیہ: عرایا بھی مزابنہ ہی ایک قسم ہے۔ مگر آنحضرت ﷺ نے اس کی خاص طور سے اجازت دی بوجہ ضرورت کے۔ وہ ضرورت یہ تھی کہ لوگ خیرات کے طور پر ایک دو درخت کا میوہ کسی محتاج کو دیا کرتے تھے پھر اس کا باغ میں گھڑی گھڑی آنا مالک کوناگوار ہوتا۔ تو اس میوہ کا اندازہ کرکے اتنی خشک میوے کے بدل وہ درخت اس فقیر سے خرید لیتے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2173
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2173
حدیث حاشیہ: (1) یہ حدیث دراصل حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث کا حصہ ہے۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت زید بن ثابت ؓ نے یہ حدیث سنائی۔ اس میں ایک استثنائی صورت کا بیان ہے کہ تازہ پھل کے عوض خشک پھل لینا عرایاں میں جائز ہے۔ اس کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں۔ ہم صرف دوقول بیان کرتے ہیں: ٭فقراء کے پاس خشک کھجوریں ہوتی ہیں۔ جب تازہ کھجور کا موسم آتا ہے تو وہ بھی تازہ کھجوریں کھانا چاہتے ہیں،اس لیے انھیں اجازت دی گئی کہ وہ درخت پر موجود تازہ کھجوریں خشک کھجوروں کے عوض اندازے سے خرید لیں۔ ٭کوئی شخص کسی غریب کو کھجور کا درخت دےدے کہ تم اس کا پھل استعمال کرسکتےہو،پھر جب وہ اس درخت سے تازہ کھجوریں کھانے باغ میں آئے تو اس کے آنے سے مالک کو تکلیف ہو تو اس کے لیے اجازت ہے کہ وہ اسے خشک کھجوریں دےدے اور تازہ کھجوروں کا درخت خود رکھ لے۔ (2) اہل عرایا کے لیے پانچ وسق، یعنی تقریباً 20 من تک کی مقدار لینے دینے کی اجازت ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پانچ وسق یا اس سے کم مقدار میں بیع عریہ کی اجازت دی ہے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2190) اس کی مزید تفصیل آئندہ بیان ہوگی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2173